چچا برساتی قسط 7

اکبر کے ہاں بیٹے کی پیدائش کی خوشی اور گھر بدری کی تکالیف اک ساتھ آئی تھیں - اور وہ اس حال میں بیوی بچے کو لیئے دربدر رل رہا تھا کوئی اس کی تکلیف کا کیا اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ رشتے جن پر کبھی اسکو بہت مان تھا وہ ماں جو اس سے پوچھے بغیر سالن بھی نہ پکاتی تھی وہ باپ جو ہر مشورے میں اسکی رائے کو ہمیت دیتا تھا بہن بھائی جن کی فرمائشیں اس نے منہ سے نکلنے سے بھی پہلے پوری کی تھیں ان اپنوں نے سفاکیت میں بلتورو کی سفاک چوٹیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا - انہوں نے تو اس کے پیروں تلے سے زمین اور چھت پر سے آسمان تک چھین لیا تھا وہ گھر جس کو بنانے کے لیئے ریگستان میں اپنا خون پسینہ بہا کر اس نے عربی شیخوں کی گالیاں اور ماریں کھا کھا کر گھر پیسے بھیجے تھے کہ اس کی زمین خرید کر اس پر مکان بنایا جائے وہ زمین چچا برساتی دھوکے سے اپنے نام کروا گیا تھا - اس کے پاس پہلے ہی جمع پونجی کے نام پر صرف اک گھر اور دکان بچی تھی حسان کے واقعہ کے کچھ عرصہ بعد جب اس نے بہت سوچنے سمجھنے کے بعد کاروبار الگ کرنے کا عندیہ دیا تو چچا برساتی نے نہایت بدتمیزی کے ساتھ اسے ہاتھ پکڑ کر دکان سے نکال بہر کیا وہ ہکا بکا سارے بازار کے سامنے اپنی یہ عزت افزائی دیکھتا اور خون کے گھونٹ بھرتا رہ گیا - اس نے سوچا کہ وہ گھر پہنچ کر ماں باپ کے سامنے بات کرے گا اور وہ اپنے طریقے سے سارا معاملہ سنبھال لیں گے لہذا اس نے گھر کا مسئلہ کورٹ کچہری لے جانے سے اجتناب کیا - اس نے آتے ہی تمام معاملہ ماں کو کہہ سنایا جو چپ چاپ اسے سنتی گئی بولی کچھ نہیں بس بے بسی سے اسکو تکتی رہی - شام میں ابا آئے انکو بتایا گیا اور وہ بھی خاموش ہو رہے بلکہ الٹا اسی پر چڑھ دوڑے وہ غصہ کیے جا رہے تھے اسے برا بھلا کہے جارہے تھے چھوٹے بھائی سے الجھنے سے باز رہنے پر اکسا رہے تھے مگر اس سب کے باوجود اپنی لاچارگی کو نہ چھپا پا رہے تھے جو بھی تھا ان سب کے رویے سے اکبر کا دل بہت برا ہوا وہ سخت پریشانی میں گھر سے نکلا وہ کسی سے اپنا دکھ بانٹنا چہتا تھا اسے رہ رہ کر اصغر کی نصیحتیں یاد آرہی تھیں اس نے اعتبار کر کے دھوکہ کھایا تھا آج اسے لگ رہا تھا کہ جیسے بھری دنیا میں وہ اکیلا ہو جمع پونجی کے نام پر اسکے پاس کچھ نہ تھا پچھتاوؤں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا بہت دیر آوارہ گردی میں برباد کرنے کے بعد جب وہ گھر پہنچا تو اک نیا تماشا دیکھنے کو ملا اسکی بہن عائشہ اور عشرت لڑ رہی تھیں عشرت بمشکل تمام بیڈ کے سہارے ٹیک لگائے ہوئے تھی اور عائشہ بیڈ کی پائنتی کھڑی دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ نچا نچا کرطعنے دے رہی تھیں معأ عائشہ نے جا کر عشرت کے بال دبوچ لیے وہ اک شدید چیخ کے ساتھ زمین پر آرہی اکبر کو یہ دیکھ کر شدید غصہ آیا اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ عائشہ کو تھپڑ دے مارا جس پر چیخ چیخ کر اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا سارا گھر دوڑا دوڑا آیا عائشہ کے رونے پر باپ نے آ کر اسے گریبان سے پکڑ لیا عشرت اب تک نیچے پڑی رو رہی تھی - " تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی پر ہاتھ اٹھانے کی-" اماں نے روتی ہوئی عائشہ کو گلے لگا کر کہا - "آپ نے دیکھا آپکی بیٹی نے کیا کیا-" اس نے عشرت کی طرف اشارہ کیا " تم نے اس دو ٹکے کی پرائی لڑکی کے لیئے 'میری بیٹی' پر ہاتھ اٹھایا -" ابا چیخے تھے چچا برساتی اسی وقت گھر میں داخل ہوا تھا شور کی آؤاز سن کر اس طرف چلا آیا- " وہ پرائی لڑکی بیوی ہے میری میری ذمہ داری ہے اسکو یوں آپ لوگوں سے مار کٹائی کروانے نہیں لایا تھا میں اور وہ پرائی لڑکی میرے لیئے آپ سب سے بڑھ کر اپنی ہے جن کے لیئے میں نے صحرا نوردی کی اور بدلے میں مجھے کیا ملا صرف دھوکہ میری دکان تک ہڑپ گیا آپ کا بیٹا اور جب سے میں یہاں آیا ہوں بے کار سمجھ کر کوئی مجھ سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا-" بالآخر اسکی برداشت ختم ہو گئی تھی اور وہ پھٹ پڑا - " تو ماں باپ کو کھلانے کا طعنہ دے رہا ہے اور ہم نے جو تجھے پال پوس کر اتنا بڑا کیا وہ سب کہاں گیا - یہ ساری پٹیاں تیری بیوی کی پڑھائی ہوئی ہیں-" "عشرت کو اس سب میں مت گھسیٹیں ابا-" "میرے آگے زبان چلا رہا ہے نکھٹو -" انہوں نے اکبر کو تھپڑ مارنا چہا تھا مگر اسنے انکے ہاتھ پکڑ لیے - " تیری یہ ہمت میرے سے ہاتھا پائی کر رہا ہے جا دفعہ ہو جا میرے گھر سے-" " ابا آپ شاید بھول رہے ہیں یہ گھر میرا ہے " وہ دوبدو ہوا - " یہ گھر میرا ہے اور تم یہاں سے ابھی اسی وقت دفعہ ہو جاؤ اکبر-" چچا برساتی نے چند لمحوں کے توقف کے بعد مکان کی رجسٹری کی نقل اسکے منہ پہ مارتے ہوئے ساتھ ہی اسے بہر کی طرف اشارہ کیا- وہ کاغذات دیکھ کر ششدر رہ گیا کتنی دیر تو اس سے کچھ بولا ہی نہ گیا - " اماں ابا آپ نے مجھ--- مجھے دھوکہ دیا؟" وہ بمشکل تمام گویا ہوا اک ساتھ کئی آنسو اسکی آنکھوں سے نکلے تھے اور وہ اونچا لمبا مرد بچوں کی طرح فرش پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا اماں اور آمنہ نے اسکے نزدیک آنے کی کوشش کی مگر اس نے بری طرح انکو پیچھے دھکیلا تھا- وہ بمشکل سنبھلیں معآ اسنے اپنی جیب ٹٹولی جس میں اس وقت محض پچاس روپیہ تھا اس نے وہ پچاس روپیہ واپس جیب میں ڈالا -وہ اٹھا عشرت کو سہارا دے کر زمین سے اٹھایا احسن کو گود میں اٹھایااور خود کو گھسیٹتا ہوا کمرے سے نکل گیا اماں مین گیٹ تک بھاگی بھاگی اسکے پیچھے گئیں اسے روکنے کی کوشش کی- " میری ماں ہو تو ان دھوکے بازوں کو چھوڑ دو اور میرے ساتھ چلو -" اماں اسکا بازو چھوڑ کر دو قدم پیچھے ہٹی تھیں اسنے نہایت کاٹ دار آنکھوں سے انکو دیکھا - " ماں ہمیشہ اس اولاد کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے جو مظلوم ہو جو سب سے کمزور ہو اور تم مجھ جیسے غریب بیٹے کو اپنی باقی امیر اولادوں کے لیئے ٹھکرا رہی ہو ؟" وہ پل بھر سانس لینے کو رکا تھا - " آج صرف یہ پرائی لڑکی ہی میرے ساتھ جا رہی ہے تو اسکے علاوہ میرا دنیا میں اب کسی سے کوئی رشتہ نہیں آج سے نہ تم میری ماں نہ میں تیرا بیٹا -" اس نے سفاک لہجے میں کہا اک سسکی اماں کے لبوں سے نکلی وہ اس گھر کی دہلیز کے پار دو پل کے لیئے رکاتھا اماں کو نہ آنا تھا وہ نہ آئی اس نے نم آنکھوں سے طنزأ مسکرا کر ماں کو دیکھا اور اپنے بیوی بچے کو لیئے اندھیرے میں گم ہو گیا-
Farheen Naz Tariq
About the Author: Farheen Naz Tariq Read More Articles by Farheen Naz Tariq: 32 Articles with 34773 views My work is my intro. .. View More