شام تنہائی .قسط :34

پارس کی ٹانگوں میں فرکچر تھا ....اس کی لئے اس اذیت کو سہنا بہت مشکل تھا ...
تیز رفتار گاڑی سڑک پہ رواں دواں تھی ... نعمان نے بمشکل اسے اپنی گاڑی میں پہنچایا ....اس کے ساتھ ایک اور آدمی گاڑی میں موجود تھا ....
سب سے زیارہ تکلیف اس لمحےنعمان کو تھی ۔۔۔۔اس نے شاہ زر کو فون پہ بتا ریا تھا ۔۔۔۔پارس کے اس میجر ایکسڈینٹ کے بارے میں ۔۔۔اس بات کو دو گھنٹے گزر چکے تھے ۔۔۔مگر شاہ زر ابھی تک نہ پہنچا تھا ۔۔۔نعمان ایمرجنسی دوم کے سامنے بے چینی سے ٹہل رہا تھا ۔۔۔اس لمحے وہ شدید تکلیف سے دو چار تھا ۔۔۔ چوٹیں پارس کو لگیں تھیں ۔۔۔۔مگر تکلیف سے نعمان گزر رہا تھا ۔۔۔ایمرجینسی وارڈ کا دروازہ کھلا اور ۔
۔۔۔ڈآکٹر باہر آکر بولا جی ۔۔۔پیشنٹ کی حالت بہت نازک ہے ۔۔۔شاید پشینٹ کیایک ٹانگ کاٹنی پرے .... آپ آئیے میرے ساتھ ...،،
نعمان تو جیسے سکتے میں آ گیا ....
ڈاکٹر تیزچلتا ہوا اپنے روم میں داخل ہوا ....
نعمان کے قدم بہت بھاری ہو رہے تھے ....
زندگی میں پہلی بار اس سے چلنا مشکل ہو رہا تھا ....
اگر آپ کسی اور کو بھی بلانا چاہتے ہیں تو بلا سکتے ہیں ...،،
چونکہ یہ ایک سیریس میٹر ہے ...،،تو اس میں ان کے سرپرست کے سگنچر بھی چاہئیں ہوں گے اینڈ ...،،
ان کی موجودگی بھی بہت ضروری ہے ....،،
پلیز آپ یہ کام جلد از جلد کیجئے ...تا کہ ہم آپریشن سٹارٹ کر سکیں ....،،
نعمان ڈاکٹر کے سامنے بیٹھا سب باتیں خاموشی سے سن رہا تھا ...
وو ابھی تک بے یقینی کے حصار میں تھا
اور اٹھ کر باہر آ گیا ...

..........…۔....................

کچھ غم ایسے ہوتے ہیں ...جن کا اثر تا دیر قائم رہتا ہے ...
.بظاھر تو ا نسان دنیا داری کے کام بخوبی نبا رہا ہوتا ہے ...مگر اس کے اندر کی دنیا کو آہستہ آھستہ ان غموں کی دیمک چاٹ جاتی ہے ....جو اس کے اندر نجانے کب سے پل رہے ہوتے ہیں ....
چار ماہ اور تین دن بعد آج اس نے دروازہ کھولا تھا ...
دہلیز پہ قدم رختے ہی اس کے اندر کی تشنگی ....خالی پن بڑھنے لگا ...
وہ سرور و سکوں جو اسے پھلے یہاں میسّر ہوتا تھا ...اب اس کا نام و نشان نہ تھا ...مگر اسے آگے بڑھنا تھا ...تمام احساسات کو بہت پیچھے دھکیل کر اس نے آگے بڑھنے کی کوشش کی ...اور اس کوشش میں اس سے قدم اٹبے حد مشکل ہو رہا تھا ...اماں کو دار فانی سے گزرے دو سال گزر چکے تھے ...
اب اس کی یہاں موجودگی ضروری نہ تھی ...
مگر
وہ خود کو اذیت دینے ....
خود سے بدلہ لینے ...ان اندیھروں میں خود کو تلاش کرنے پہنچ جاتا تھا ...
برسوں سے وہ بیٹھنے کے لئے ایک ہی جگہ کا انتخاب کرتا تھا ...
آج بھی وہ چلتا ہوا اسی جگہ جا بیٹھا تھا ...جوں ہی وہ بیٹھتا ...
اب ایک بات پہ اس کا ضمیر اسے کچوکے لگاتا رہتا ...وو تھی جگن کی موت .…۔
اس کی بے بسی
اس کی آہیں
سسکیاں
اس کی تڑپتی پکڑتی ہوئی آوازیں
زیادہ دیر اس کے لئے اس کمرے میں ٹھہرنا مشکل ہو جاتا ..…۔.
یہ احساس
جگن کی موت کا ذمہ دار وہ خود ہے اسے یہاں سے جانے پہ مجبور کر دیتا ...وہ تو سکوں کی تلاش میں یہاں آتا تھا ....
مگر
یہ بے چینی اور احساس ندامت اسے جکڑ لیتا ....
جگن کی موت کے بعد اس نے یہاں آنا کم کر دیا تھا ...
مہینوں گزر جاتے ...
اب
اس کا یہاں تھا بھی کون ....
تم مجھے یہاں سے دور لے جاؤ ....،،پلیز میں تم سے اور کچھ نہیں مانگتی ....،،
پھر وہی گونج ...
وہی الفاظ ....
جو اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتے ....
اس نے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیا ...
مگر وہ آواز ویسے ہی سنائی دے رہی تھی ....
وہ اٹھا اور دروازے کی جانب لپکا ....

.🎻🎻🎻🎻🎻🎻🎻

نعمان کافی دیر سے شاہ زر کو کل ملا رہا تھا ...مگر شاہ زر ریسو نہیں کر رہا تھا ...
آپریشن جلد سٹارٹ کرنا تھا ...
اور نعمان چاہتا تھا کہ شاہ زر یہاں پہنچ جاۓ ...مگر شاہ زر کے وقت پہ نہ آنے کی وجہ سے اسے خود ہی ساری ذمہ داری لے لی ... کیوں کہ ڈاکٹرز کے مطابق پارس کی جان کو خطرہ تھا ...
پارس کی ایک ٹانگ کاٹ دی گئی تھی ...
جب کہ دوسری ٹانگ بھی کام کرنا چھوڑ گئی تھی ....
ڈاکٹر کا کہنا تھا ...اگر کیر کی جائے ...اور علاج کروایا جائے تو اس کی دوسری ٹانگ ٹھیک ہو سکتی ہے ....
نعمان بہت دکھ اور مایوسی سے ڈاکٹر کی سب باتیں سن رہا تھا ..اس لمحے پارس کے پاس کوئی موجود نہ تھا ....
وہ شخص
جسے وہ اپنا دشمن مانتی تھی
جسے وہ حقیر جانتی تھی
وہ اس شخص کو ایک نذر بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی ...
جس کی بد صورتی کا وہ مذاق اڑاتی تھی
آج
وہ ہمدرد بن کر
مسیحا بن کر
اس کی تنہائیوں اور درد میں اس کے ساتھ تھا ...
اور پارس اس بات سے نا واقف تھی ...

🎻🎻🎻🎻🎻🎻🎻🎻

سرخ نیٹ کے بھاری کامدار جوڑے میں ملبوس ..…۔
سفید نگینے کا سیٹ پہنے .تیز میوزک پہ رقص کرتی
آرزو
دل ہی دل میں اپنی موت کی دعا مانگ رہی تھی ...
اس کی آنکھیں بند تھیں ...
وہ تمام مناظر اس کی آنکھوں میں تھے ...
جن سے کچھ عرصہ سے وہ نظریں چرا رہی تھی
اسے لگا اس کے چاچو ...
بھی یہاں ان مردوں میں مجود ہیں
اور وہ بھی سب کی طرح اس کے رقص پہ خوشی سے جھوم رہے ہیں ..
اسے تمام مرد اپنے اس چاچو جسے دکھائی دے .سب چہروں میں وہ ایک چہرہ ہی دکھائی دے رہا تھا ...یہاں تک پہنچتے ہوے جن تکلیف اور مراحل کا سامنا اسے کرنا پڑا ...آج اسے وہ سب یاد ا رہے تھے اسے اپنے حواس پہ قابو پانا مشکل ہو رہا تھا ..وہ چاچو ..جن پہ اسے اپنے باپ سے بھی زیادہ بھروسہ تھا ...آج جن کی وجہ سے وہ اس دلدل میں پھنس چکی تھی ...ان کا یاد آنا اسے تکلیف دے رہا تھا آرزو کی آنکھ لمحہ بھر کو کھلی ...
ایک شخص بوتل ہاتھ میں لئے آرزو کی طرف بڑھا ...اس آدمی کے قدم لڑکھڑا رہے تھے ...
..اسے لگا ..اس کے چاچو اس کی طرف بڑھ رہے ہیں ...
اس کے رقص کرتے قدم تھم گئے ...
خوف و ہراس سے اسے اپنے قدموں تلے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی ...
اس نے مدد طلب نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا ...
سب ہنس رہے تھے ...مگر
کوئی اس کی مدد کو نہ تھا ...

جاری ہے
hira
About the Author: hira Read More Articles by hira: 53 Articles with 64026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.