پیا گھر دیپ جلے

وقت کا پہیہ گھومتا چلا جاتا ہے، زندگی بہر صورت گزر ہی جانی ہے۔۔۔ عورت کا فرض ہے مرد کی عزت کو بلندرکھنااور مرد کا کام ہے اپنے گھر کی عزت (بیوی) کے لیے ذلت و رُسوائی، گالی گلوچ، طعن و تشنیع اور مار پیٹ کا بازار کھولنا ۔۔۔۔۔۔ عورت کا مقدر ہی اُلجھا ہوا لکھا گیا ہے اُتار چڑھاؤ کے بیچ، بیٹی بہن بیوی ماں کے ان سب ادوار میں تا عُمر گھن چکر بنی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔

عورت کا کام ہے گھر بسانا اور بساتی ہی چلی جاتی ہے تا قریب المرگ۔۔۔۔۔۔

یہ جو ہُوک سی اُٹھتی ہے دل میں
شاید اپنوں کا لگا گھاؤ ہرا ہوتا ہے

حسب معمول عام دنوں کی طرح کل کا دن بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کو طُول دیتے لڑ جھگڑ کر ایک نئی خلش، نئی اُمید، آنسوؤں اور نم آنکھوں سے اختتام پزیر ہوا ۔ دل و دماغ ایسے جیسے کسی گہری وادی میں سوچ من کے ساگر میں ہچکولے کھا رہی ہو اور محبت و خلوص کی چاشنی میں لپٹے دو بول کے لیے واپسی کا راستہ تلاش کرتی پھر رہی ہو۔

ذہن میں چند الفاظ گُونج رہے تھے:
“ تم کرتی کیا رہتی ہو سارا دن۔۔۔۔۔۔ تمہیں اتنی نیند کیوں آتی ہے۔۔۔۔۔۔ “

دل تھا کہ مانو اتنا بوجھل۔۔۔۔۔ رات کے درمیانی پہر جب دنیا نیند کی آغوش میں آرام و سکون میں ڈُوبی تھی اُکتاہٹ و بیزاری نے آن لیا۔ کیا واقعی عورت کا کوئی مقام کوئی عزت نہیں ہے، عورت کی عزت تو مرد کے در کی باندی ہو جیسے۔۔۔۔۔ عورت کوئی مشین کوئی زر خرید غلام ہو جیسے۔۔۔۔۔ مرد کی عزت کرنا اُس کے وقار و بقا کو قائم و دائم رکھنا، سُسرالی گھر کے ہر بڑے سے چھوٹے فرد کی عزت کرنا کہا ماننا عورت کا فریضئہ اول ہے باقی چاہے کوئی لفظوں کی تلوار سے عورت کا دامن تار تار کرتا جائے۔۔۔۔۔

مہینے کے بیشتر دنوں کی طرح رات بھی نجمہ جل کُڑ کر ڈھیروں سوچوں اور اچھی اُمید کے ساتھ نیند کی وادی میں جا چکی تھی۔ صبح اُمید نو کے ساتھ ملازمت پہ جانے کے لیے تیار ہونے لگی تو آئینہ بھی منہ چڑاتا ہوا محسوس ہوا جیسے وہ بھی میری حالت زار پہ ہنس رہا ہو، تھکا ماندہ چہرہ تھکے ہوئے ذہن کی عکاسی کر رہا تھا۔ ابھی راستے میں ہی تھی کہ بار بار موبائل کی بجنے والی گھنٹی نے مزید پریشان کر دیا۔

اب کی بار وجہ تھی:
“تم نے پیسے کیوں لیے “

کتنا خود غرض ہے نا مرد۔۔۔۔۔ عورت گھر کی چار دیواری سے باہربا عزت روزی کمانے کی غرض سے مرد کی خاطر اور اُس کے بچوں کی خاطر قدم رکھے اورصد افسوس اُسکی کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔۔۔ آنکھیں تھیں کہ چھلک پڑنے کو تیار، دل تھا کہ مارے ضبط کے خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔۔اُمید نو والی صبح کا آغاز جتنا کربناک تھا، رات بھی پچھلی رات کی طرح پھر شکووں اور الزامات کی بوچھاڑ سے بھر پُور تھی۔

وقت کا پہیہ گھومتا چلا جاتا ہے، زندگی بہر صورت گزر ہی جانی ہے۔۔۔ عورت کا فرض ہے مرد کی عزت کو بلندرکھنااور مرد کا کام ہے اپنے گھر کی عزت (بیوی) کے لیے ذلت و رُسوائی، گالی گلوچ، طعن و تشنیع اور مار پیٹ کا بازار کھولنا ۔۔۔۔۔۔ عورت کا مقدر ہی اُلجھا ہوا لکھا گیا ہے اُتار چڑھاؤ کے بیچ، بیٹی بہن بیوی ماں کے ان سب ادوار میں تا عُمر گھن چکر بنی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔
میاں بخش نے ٹھیک ہی کہا ہے:

دل دریا سمندروں ڈُونگے

دل سمندر کی سی گہرائی لیے اپنے اندر جذبات کا طوفان چھپائے بیٹھا رہتا ہے اور اس گہرائی سے احساس کے موتی کو چُننے کی صلاحیت بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔۔۔۔

ہمارے معاشرے میں ایسی بہت سی نجمہ ہیں جو ایک مشینی زندگی گزار رہی ہیں، رشتوں کے تقدس کی آڑ میں زبان کو قفل لگائے دو حصوں میں بٹی پس رہی ہیں۔۔۔۔۔ مگر کوئی نہیں احساس مند، محبت کے دو بول بولنے والا، احسان ماننے والا۔۔۔۔۔ کیونکہ شوہر تو مجازی خدا ہوتا ہے اُس کے آگے جھکنا پڑتا ہے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں الزامات کے نشتر برداشت کرنے پڑتے ہیں، ذرا زبان کیا کھولی اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے تو بد تمیز، زبان دراز ہونے کے پے درپے وار کیے جاتے ہیں۔ عورت کا کام ہےگھر بسانا اور مار کھا کر بے بنیاد الزام سہہ کر بھی بساتی ہی چلی جاتی ہے ، امید کا دیپ جلائے رکھتی ہے تا قریب المرگ۔۔۔۔۔۔

کوئی وعدہ کوئی عہد صنم وفا کر دو
محبت کے دو بول دو پل میرے نام کر دو
Faiza Umair
About the Author: Faiza Umair Read More Articles by Faiza Umair: 8 Articles with 13088 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.