اس پیار کو کیا نام دوں ( قسط نمبر ٣)
(Muhammad Shoaib, Faisalabad)
وہ اپنی آستین کو کہنیوں پر چڑھاتے ہوئے
بیڈ روم میں داخل ہوا تو کرن کو کھڑکی کے ساتھ ٹیک لگائے باہر دیکھتے ہوئے
پایا۔ وہ پانے ہی خیالوں میں محو تھی۔ آس پاس کیا تھا اسے کچھ خبر نہ تھی۔
شاید وہ انہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ اس نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر
بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا۔ اس کے دل نے چاہا کہ وہ کرن کے پاس جا کر اس سے بات
کرے مگر ہمت نہ ہوئی۔
’’کرن تم کب تک ماضی میں جیتی رہو گی؟ آخر کب تک؟‘‘د ل میں ابھرنے والے
سوال دل میں ہی رہ گئے۔وہ خاموشی سے بیڈ کے پاس آئی۔ اور لحاف اوڑ ھ کر
دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گئی
’’کرن تم آج بھی مجھے غلط سمجھتی ہو؟‘‘اس کی آواز میں ایک عجیب سی کشش تھی
مگر وہ اس کشش کو محسوس کرنے میں ناکام تھی۔ وہ خاموش رہی اور ایک لفظ بھی
زبان سے ادا نہیں کیا۔
’’ دیکھو کرن! میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم مجھے اہمیت دو، ہمارے رشتے کو
اہمیت دو لیکن اتنا ضرور کہتا ہوں کہ اپنے آپ کو اہمیت دو۔ کسی کے چلے جانے
سے زندگی رک نہیں جاتی۔انسان کو نہ چاہتے ہوئے بھی آگے بڑھنا پڑتا ہے ۔
تمہیں بھی آگے بڑھنا ہوگا۔‘‘ وہ ایک زندہ مورتی سے باتیں کر رہا تھا کیونکہ
وہ توبالکل خاموش تھی۔
’’ میں جانتا ہوں تم سوئی نہیں ہو۔ پلز میری باتوں پر غور ضرور کرنا۔‘‘اس
کے لحاف میں ہلکی سی جنبش پیدا ہوئی تھی۔ مگر اب وہ بھی دوسر ی طرف منہ کر
کے لیٹ گیا۔
************
’’ ایک نوالہ اور بس۔۔‘‘ دانش مہک کو ناشتہ کروا رہا تھا مگر وہ مسلسل اپنی
گردن نفی میں ہلا رہی تھی۔
’’ نہیں ۔۔پاپا بس۔۔‘‘ دانش نے ہاتھ بڑھا یا تو اس نے اپنے داہنے ہاتھ سے
پیچھے ہی روک دیا
’’ مہک۔۔ صرف آخری۔۔‘‘ اس نے زبدرستی اس کو آخری نوالہ کھلانا چاہا تو مہک
نے بچگانہ انداز میں دانش کا ہاتھ پیچھے جھٹک دیا اور ساتھ ہی ٹیبل پر رکھا
جوس کا گلاس دانش کی شرٹ پر آگرا۔
’’ مہک۔۔‘‘کچن سے باہر آتے ہوئے جب کرن نے یہ دیکھا تو وہ اونچے لہجے میں
بولی
’’ساری شرٹ آپ نے پاپا کی خراب کر دی۔چلیں سوری بولیں پاپا کو۔۔‘‘اس نے
اپنے ہاتھ میں موجود گلاس کو ٹیبل پر رکھا، جبکہ دانش اپنی شرٹ کو جھاڑتا
ہوا مسلسل کرن کی اور دیکھ رہا تھا۔
’’روم میں جا کر آپ چینج کر لیں ‘‘اس نے شرٹ کو چھو ا تو وہ کافی گیلی تھی
’’ نہیں ، میں ٹھیک ہوں۔۔‘‘اس نے تھوڑا سا ہچکچاتے ہوئے کہا
’’ کیسے ٹھیک ہیں آپ؟شرٹ تو دیکھئے آپ اپنی۔ ساری گیلی ہوچکی ہے۔ چلئے میرے
ساتھ، میں آپ کو دوسری شرٹ نکال کر دیتی ہوں۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر روم
میں لے گئی۔ وہ یک ٹک اسے دیکھتا رہ گیا۔کیا یہ وہی کرن تھی؟ نہیں یہ وہ
کرن نہیں تھی ۔ وہ تو اس کو چھونا بھی گوارا نہیں کرتی اور یہ تو اس کا
ہاتھ پکڑے کمرے میں لے جارہی تھی۔اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی۔وہ بنا کچھ
کہے اس کے پیچھے چلتا گیا۔
’’ یہ لیجئے۔۔۔‘‘ وہ اس کی شخصیت میں اس قدر کھویا ہوا تھا کہ کب وہ کمرے
میں آئے اسے بھنک تک نہ ہوئی۔کرن کی آواز نے اسے خیالوں کی دنیا سے نکالاتو
اس نے حقیقت میں سانس لیا
’’ٹھیک ۔۔۔‘‘اس نے اثبات میں گرردن ہلاتے ہوئے کہا
’’ ٹھیک کیا؟ چینج کریں اسے، اور یہ شرٹ اتار کر مجھے دیں۔۔‘‘ اس نے ہاتھ
بڑھاتے ہوئے کہا
’’اب چینج بھی کریں۔۔‘‘ کافی دیر گزر جانے کے بعد بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوا
تو اس بے دوبارہ کہا
’’ تمہارے سامنے۔۔‘‘اس نے سوالیہ انداز میں کہا تھا
’’تو پھر۔۔بیوی ہو ں آپ کی۔۔۔‘‘تین سالوں میں پہلی بار اس نے اپنے آپ کو
دانش کی بیوی کہا تھا
’’ کیا کہا تم نے۔۔‘‘ اس نے تصدیق چاہی تھی
’’کچھ نہیں۔۔‘‘ شائد اسے اب احساس ہوچکا تھا کہ اس نے جان انجانے میں کیا
کہا۔ بالوں کی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑیستے ہوئے وہ کمرے سے باہر چلی گئی
’’میرے لئے یہی کافی ہے کہ تمہارے دل میں آج بھی یہ رشتہ کہیں نہ کہیں اپنی
جگہ بنائے ہوئے ہے۔‘‘مسکراتے ہوئے اس نے بیڈ روم کا دروازہ بند کیا
**************************
’’ اچھا پاپا۔۔۔ بھولنا مت ۔۔‘‘مہک نے انگلی ہلاتے ہوئے دانش کو یاد دلایا
تھا
’’او کے میری جان۔۔!!‘‘ اس نے مہک کے بالوں پر بوسہ دیا اور پھر دروازے کی
طرف چل دیا۔ دروازے کھولتے ہی ایک اجنبی چہرے کو پایا
’’ السلام علیکم!۔۔۔‘‘ اس نے سلا م کیا
’’ وعلیکم السلام۔۔۔ جی آپ؟‘‘دانش نے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا ، جس میں سوٹ
کیس کو تھاماہوا تھا۔
’’جی میں نورین۔۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ اتنے میں کرن بھی وہاں
آموجود ہوئی
’’السلام علیکم! ۔۔۔ آپ کرن ہیں ناں۔۔‘‘اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا
’’ جی میں کرن ہی ہوں۔ مگر آپ کون ہیں؟‘‘اس نے ابھی تک اپنا تعارف نہیں
کروایا تھا
’’ جی میں نورین ۔۔۔‘‘اس نے اپنا آدھا تعارف کروایا
’’نورین کون؟‘‘دانش نے استفہامیہ انداز میں نورین کی طرف دیکھا تھا
’’شاید آپ نہیں جانتے مجھے لیکن میں آپ دونوں کو اچھی طرح جانتی ہوں۔بھائی
اکثر آپ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘ وہ بنا اجازت کے اندر آگئی
’’یہ یقیناًآپ کی بیٹی ہے ناں!‘‘ اس نے پیار سے مہک کے بالو ں کو سہلایا۔
کرن نے سوالیہ نظروں سے دانش کی طرف دیکھا تو اس نے اپنے کندھے اچکائے۔ اس
سے پہلے کہ وہ واپس مڑتے دروازے پر ایک اور شخص آموجود ہوا مگر اس بار چہرہ
شناسا تھا
’’کرن ۔۔۔‘‘وہ پرجوش انداز میں بولا تھا
’’ تاجور بھائی۔۔۔‘‘کرن آگے بڑھ کر تاجور کے گلے لگ گئی
’’کیسی ہے میری بہن۔۔۔‘‘بالوں کو پیار سے چھوتے ہوئے کہا
’’ میں ٹھیک ہوں۔۔۔آپ کیسے ہیں؟‘‘
’’ تاجور تم ۔۔ یہاں ؟ اتنے عرصے بعد؟‘‘تاجور سے بغل گیر ہوتے ہوتے ہوئے
دانش نے کہا تھا
’’کیوں نہیں آسکتا کیا؟‘‘ آنکھیں اچکاتے ہوئے جواب دیا
’’ پاپا پانی۔۔‘‘عفا نے تاجورکی شرٹ کو کھینچتے ہوئے کہا تھا
’’یہ آپ کی بیٹی ہے؟‘‘ کرن نے عفا کو گود میں اٹھا کر پیار کیا
’’ اب ان دونوں کو یہیں پر کھڑا رکھنے کا ارادہ ہے یا بھی اندر بھی بلائیں
گے۔۔‘‘ نورین نے مداخلت کی
’’ہاں کیوں نہیں۔۔۔ اندر آئیں۔۔‘‘ کرن نے ہنستے ہوئے کہا
*****************
جاری ہے |
|