نظریہ اواگون: مائیکل جیکسن کا دوسرا جنم : لاحول ولا قوة الا بالله

جب سے پاکستان میں نجی چینلز کا قیام عمل میں آیا ہے اس وقت سے بہت تیز رفتاری سے معاشرے کو تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ ہماری تہذیب و ثقافت کو چھوڑ کر بھارتی اور مغربی تہذیب و کلچر کو پروان چڑھایا جارہا ہے، صورتحال یہ ہے کہ اب ہم لوگ گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی نہیں دیکھ سکتے کیوں کہ اول تو ڈرامے ہی اتنے فضول، بے بنیاد اور ایلیٹ کلاس کلچر کو سامنے رکھ کر بنائے جارہے ہیں کہ وہ بالکل مصنوعی مصنوعی سے لگتے ہیں پھر انتہائی بولڈ موضوعات، اس کے ساتھ ساتھ جو نیوز چینلز ہیں وہ بھی انتہائی متنازعہ اور شعائر اسلام کے برخلاف موضوعات کو منتخب کر کے کبھی کال گرلز کے اوپر پروگرامز پیش کررہے ہوتے ہیں کبھی تیسری جنس کے شب و روز اور انکے اوپر پروگرام دکھائے جاتے ہیں، کبھی بچوں کو جنسی تعلیم دینے کی بات کی جاتی ہے، کبھی حدود اللہ کے خلاف اعلان جنگ کیا جاتا ہے اور کبھی قادیانیوں کو مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر شومئی قسمت آپ کو کوئی اچھا اور دلچسپ پروگرام دیکھنے کو مل جاتا ہے تو اچانک وقفہ ہوتا ہے اور اس وقفے میں حیا سوز اشتہارات آپ کو مجبور کرتے ہیں کہ آپ فوراَ َ چینل تبدیل کرلیں فیملی پلاننگ، اور خواتین کی پوشیدہ باتوں کو اگر اشتہار کا موضوع بنا لیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد کوئی حد مزید رہ نہیں جاتی ہے اس کے بعد اب چینلز پر صرف برہنہ ہونے کی کسر باقی رہ گئی ہے ورنہ باقی سب کچھ تو بتا دیا ہے بقول حضرت علامہ اقبال ع زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا - سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا اور راز تو آشکار ہوچکے اب آپ کسی دس بارہ سال کے بچے کی گفتگو سنیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ وہ کتنا “ بڑا “ ہوچکا ہے-

دین اسلام کے برخلاف مہم کی تازہ ترین کڑی یہ ہے کہ جمعہ ٢٥ جون کو مائیکل جیکسن کے مرنے سالگرہ پر خصوصی نیوز بلیٹن پیش کئے گئے اور ایک معروف نجی چینل نے کم و بیش تین منٹ کی ایک خبر چلائی جس میں مائیکل جیکسن کے زندگی کے حالات و واقعات کو بیان کیا گیا اور خبر میں بتایا گیا مائیکل جیکسن کو ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال بیت گیا ہے اور مرنے کے بعد ان کی مقبولیت میں انتہائی اضافہ ہوا ہے۔ خبر میں مزید انکشاف کیا گیا کہ “مرنے کے بعد مائیکل جیکسن نے ایک کچھوے کی شکل میں اس دنیا میں دوبارہ جنم لیا ہے اور ایک ایسا کچھوا دریافت ہوا ہے جس کی پشت پر مائیکل جیکسن کی تصویر بنی ہوئی ہے اور اگرچہ کچھوا ایک سست جانور ہے لیکن اس کچھوے کے سامنے جب مائیکل جیکسن کا کوئی گانا بجایا جاتا ہے تو یہ کچھوا اس پر رقص کرتا ہے“ یہی خبر اس وقت ہمارا موضوع ہے۔

سب سے پہلے ہم آپ کو یاد دلانا چاہیں کہ یہ مذکورہ نجی چینل اور دیگر نجی چینلز نے بھی معروف عالم دین، بہترین مدرس، سماجی شخصیت اور تنظیم اسلامی کے بانی جناب ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے انتقال پر بمشکل ایک منٹ کی خبر چلائی اور وہ بھی نیوز بلیٹن میں چوتھے یا پانچویں نمبر پر جبکہ مائیکل جیکسن کے مرنے کے پر یہی چینلز آدھے آدھے گھنٹے کے پروگرامز کرتے رہے اور اس کی آخری رسومات تک دکھائی گئیں جبکہ مائیکل جیکسن کے مرنے ایک سال بعد بھی یہ چینلز اس کو ایک ہیرو بنا کر پیش کررہے ہیں اور اس کی بائیو گرافی چینلز پر پیش کی جارہی ہے اس سے میڈیا کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اب ہم بات کرتے ہیں کہ مائیکل جیکسن نے مرنے کے بعد ایک کچھوے کی شکل میں اس دنیا میں دوبارہ جنم لیا ہے۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ ایک اسلامی ملک اور مسلم معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے برخلاف بات کو درست اور اچھا بنا کر پیش کیا جارہا ہے، دوبارہ جنم لینا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے یہ دراصل ہندوؤں کا نظریہ تناسخ یا آواگون (مکتی یا نروان) کا نظریہ ہے جس کو یہاں پیش کیا گیا۔ ہمارے عقیدے اور تعلیم کے مطابق انسان اس دنیا میں عارضی طور پر آیا ہے اور اس کو بالآخر یہاں سے کوچ کر جانا ہے، حضرت آدم علیہ السلام و اماں حوا جنت کے باسی تھے اور شیطان کے بہکاوے میں آکر انہوں نے جب اہوں نے شجر ممنوعہ کا پھل کھایا تو اس کی پاداش میں انہیں دنیا میں بھیج دیا گیا اور انکو بتا دیا گیا کہ تمہارا اصل گھر تو جنت ہی ہے لیکن اس جنت میں جانے کے لئے تمہیں اس دنیا میں اپنا وقت میرے (اللہ) کے راستے میں لگانا ہوگا اور میرے حکم کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی اگر ایسا کرو گے تو جنت حاصل کرو گے نہیں تو جہنم تمہارا ٹھکانہ ہوگا۔ ہمارے عقیدے کے مطابق انسان جب عالم ارواح سے اس دار فانی میں آتا ہے تو اس کو پیدائش کا نام دیا جاتا ہے اور جب اس دار فانی سے کوچ کرجاتا ہے تو اس کو موت یا انتقال کا نام دیا جاتا ہے۔ انسان کی موت دراصل فنا نہیں ہے بلکہ منتقل ہونا ہے یعنی روح انسانی جسم کو چھوڑ کر اس عالم سے ایک اور عالم جس کو عالم برزخ کہا جاتا ہے وہاں چلی جاتی ہے۔ اور اول روز سے قیامت تک یہی سلسلہ چلے گا کہ مرنے کے بعد روح عالم برزخ میں قیام کرے گی، برزخ کے معنی علما نے پردہ کے بیان کئے ہیں یعنی روح جب جسم کو چھوڑ گئی تو اب اس کے اور ہمارے درمیان ایک پردہ حائل ہے اور اسی کو برزخ کا نام دیا جاتا ہے۔ علما کے مطابق عالم برزخ میں بھی روحیں اس دنیا کی طرح اپنے عزیزوں اور احباب کی روحوں کو پہچانتی ہیں اور ان کے درمیان رابطہ رہتا ہے اور روحیں اس دنیا یعنی عالم برزخ میں قیامت برپا ہونے تک رہیں گی۔ اور روز قیامت جب حشر کا میدان سجے گا اور انسانوں کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا اس کے بعد روحوں کو جنت یا دوزخ کی جانب روانہ کردیا جائے گا، اس کے بعد موت کو بھی موت دیدی جائے گی اور پھر کافر اور بدکار روحیں ہمیشہ دوزخ میں رہیں گی اور نیک اور مومن روحیں ہمیشہ جنت میں رہیں گی اور اس میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مسلمانوں کو بھی اپنے اعمال کے مطابق سزا دی جائے گی البتہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا بلکہ اپنے اعمال کے مطابق سزا پوری ہونے کے بعد جنت میں رہے گا جبکہ کافر ہمیشہ جہنم میں ہی رہے گا (میں اس کی مزید تفصیل میں نہیں جاؤنگا کہ اول تو یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا اور دوسرا یہ ایک بہت مشکل اور پیچیدہ اور خالصتاً دینی و علمی موضوع ہے اور میں پوری دیانت داری سے یہ بات سمجھتا ہوں کہ میں اس موضوع کا حق ادا نہیں کرسکتا اس لئے اس بارے میں کچھ بنیادی باتوں پر ہی اکتفا کرونگا)-

قارئین کرام ہمارے اس عقیدے اور تعلیم کے مطابق روحیں واپس اس دنیا میں نہیں آتی ہیں بلکہ عالم برزخ اور اس کے بعد جنت یا دوزخ میں سے کسی ایک ٹھکانے پر چلی جائیں گی اس لئے اگر کوئی فرد کسی کی روح کے واپس آنے یا دوبارہ جنم لینے کی بات کرتا ہے تو وہ باکل غلط بات کرتا ہے۔ یہ تو اسلامی حوالے سے ہم نے بات کی ہے اور ہوسکتا ہے کہ ہمارے قارئین میں غیر مسلم بھی ہوں یا پھر روشن خیال اور اپنی تہذیب و ثقافت سے بیزار ایسے مسلم بھی ہوسکتے ہیں جو کہ ہماری ان باتوں کو دقیانوسی کہہ کر رد کردیں تو یہاں ہم ان کی خدمت میں ہندوؤں ہی کے نظریہ تناسخ کے حوالے سے کچھ بات کریں گے وہ بھی بہت حیرت انگیز ہے دوبارہ جنم لینا یا روح کی واپسی دراصل ہندوؤں کا نظریہ آواگون یا نظریہ تناسخ ہے۔

نظریہ تناسخ ایک بالکل غلط اور بے بنیاد نظریہ ہے اس نظریے کے مطابق روح بار بار قالب یا جسم بدل کر اس دنیا میں آتی رہتی ہے، بعض جگہ ہم نے یہ پڑھا ہے کہ روح کم از کم سات دفعہ جسم بدلتی ہے اور اس کے بعد اس کو نروان یا مکتی مل جاتی ہے۔ اور اس عقیدے کے مطابق انسان کو موجودہ جنم کے اعمال و افعال کے مطابق نیا جسم ملے گا یعنی اگر موجودہ جنم میں انسان اچھے اعمال کرے گا تو اگلے جنم میں اس کو اچھا جسم ملے گا اور اگر برے اعمال کرے گا تو اس کو کوئی برا جسم ملے گا یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ نظریہ تناسخ کے مطابق روح کو ہر جنم میں جو نیا جسم یا قالب ملے گا اس میں انسان، جانور، چرند پرند، درخت وغیرہ سب شامل ہیں یعنی کوئی انسان مرنے کے بعد کسی جانور یا درخت یا پرندے کی صورت میں بھی جنم لےسکتا ہے ( لاحول ولا قوة الا بالله ) اس عقیدے میں کئی کمزوریاں ہیں۔ سب سے پہلے تو اس عقیدے کے مطابق تو روح کے آغاز کا ہی پتہ نہیں چلتا یعنی اگر موجودہ جنم میں روح کسی انسان کی شکل میں آئی ہے لازماً پچھلے جنم میں وہ درخت وغیرہ ہوگی اور اگر وہ درخت وغیرہ ہے تو یہ اس کے اعمال کی سزا ہے اور اس سے پہلے وہ کچھ اور ہوگی یعنی ایک گورکھ دھندہ ہے جس میں انسان الجھ کر رہ جاتا ہے۔

پھر یہ عقیدہ انسان کو آخرت کے تصور سے بیگانہ اور مایوسی کا شکار کردیتا ہے کیونکہ عقیدے کے مطابق اگر کسی نے برے کام کئے ہیں اور گناہ کئے ہیں تو اب اس کو لازماً اس کی پاداش میں اگلے جنم میں برا روپ ملے گا ممکن ہے کہ وہ روپ کسی جانور کا ہو یا کوئی اور برا روپ۔ تو پھر ایک گناہ گار انسان یہ سوچتا ہے کہ چلو اب تو مجھے سزا ملنی ہی ہے تو میں جی بھر کے گناہ کروں اس طرح یہ عقیدہ انسان کو مایوسی کا شکار کر کے اس کو گناہ آلود زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔ پھر اس عقیدے کے مطابق اگر برے کام کئے ہیں تو برا ہی جنم ملے گا یعنی اس بات کو یوں سمجھیں کہ اگر ایک فرد نے گناہ کیا اور بری زندگی گزاری تو اس کو اگلے جنم میں کسی برے انسان کا روپ ملے گا، جب روپ ہی برے انسان کو ملا تو اب وہ روح جو نئے جنم میں ایک برے انسان کے روپ میں آئی تھی اس جنم میں مزید گناہ گار ہوئی اور اب اس کو مزید برا روپ کسی جانور یا درخت کی شکل میں ملے گا یعنی اس عقیدے کے مطابق روح پستی کی جانب تو سفر کرسکتی ہے لیکن معرفت یا اونچائی کی جانب سفر نہیں کرسکتی ہے۔

پھر اگر اس عقیدے کو درست مانا جائے تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ درخت، چرند، پرند سے بھی اعمال و افعال کی جوابدہی اور حساب کتاب لیا جائے گا اور وہ بھی فطرت کے مطابق زندگی گزارنے کے بجائے انسان کی طرح ارادے اور عمل میں آزاد ہیں کیوں کہ اگر کسی روح کو جانور یا پرندے کا روپ ملا ہے تو اب وہ اس روپ سے نکلنے کے لئے اچھے کام کرے گی جبکہ اسلامی عقیدے کے مطابق چرند پرند، نباتات، جاندار تو ہیں لیکن ان کے اندر ارادے اور عمل کی قوت نہیں ہے اور نہ ہی ان سے حساب و کتاب ہوگا بلکہ یہ تمام جاندار اللہ نے جو انکی فطرت بنائی گئی ہے اس کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں لیکن نظریہ تناسخ اس کے بالکل برخلاف بات کرتا ہے۔

قارئین کرام اسلام میں تو ناچ گانے کی ممانعت ہے اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے لیکن ہم نے آپ کے سامنے نظریہ تناسخ یا اواگون کی جو بنیادی باتیں بتائی ہیں اگر ان کی روشنی میں بھی جائزہ لیا جائے تو وہ اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ گانا بجانا کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ دیکھیں ہمارے عقیدے کے مطابق مائیکل جیکسن اس دارفانی سے کوچ کر کے عالم برزخ میں پہنچ چکا ہے لیکن جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ کسی کچھوے کی شکل میں واپس آیا ہے تو یہ بڑی ہی عبرت کا مقام ہے کیوں کہ اواگون کے نظریہ کے مطابق انسان کو اس کے موجودہ جنم کے اعمال کے مطابق اگلے جنم میں نیا جسم یا قالب ملے گا۔ اب غور کریں کہ اگر مائیکل جیکسن نے کوئی اتنا ہی اچھا اور نیک کام کیا تھا اور اگر موسیقی واقعی روح کی غذا ہے تو پھر تو مائیکل جیکسن ساری زندگی اپنی روح کو غذا پہنچاتا رہا ہے اس کے مطابق تو اس جنم میں اسے کسی شاہ زادے، کسی طاقتور اور امیر کبیر فرد کے روپ میں جنم لینا چاہیے تھا لیکن وہ کچھوے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ثابت ہوا کہ موسیقی، ناچ گانا، راگ رنگ کی محفلیں گناہ کے کام ہیں اور یہ کہ مائیکل جیکسن کی ساری زندگی برے کاموں اور برائی کو عام کرنے میں گزری ہے اس لئے اس میں بڑی عبرت ہے اور موسیقی اور ناچ گانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔

قارئین اگرچہ ہم نظریہ اواگون پر بالکل بھی یقین نہیں رکھتے لیکن جو لوگ بھی اس کو درست مانتے ہیں ان کو یہ سبق دینا ضروری ہے کہ اس عقیدے کے مطابق بھی ناچ گانا اچھی بات نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم میڈیا کے ذمہ داران سے بھی یہ بات کہتے ہیں کہ خدارا کچھ عقل کے ناخن لیں۔ اسلامی معاشرے میں غیر اسلامی اقدار کو فروغ نہ دیں بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت اور بنیاد پر فخر کریں اور اس کو عام کرنے کی کوشش کریں ہمیں مغربی تہذیب و ثقافت کی جانب نہ دھکیلیں بقول علامہ اقبال اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر - خاص ہے اپنی ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ۔

(نوٹ: مضمون کی تیاری میں انٹرنیٹ کی کچھ ویب سائٹس، مولانا مودودی کی تصنیف “ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی “ اور اپنے بڑے بھائیوں جیسے مشفق اور مہربان دوست محترم مولانا پروفیسر محمد آصف خان علیمی، بانی مکتبہ عیلمیہ سے رہنمائی لی گئی ہے)-
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1519962 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More