رمضان المبارک اور ذخیرہ اندوزی

 اﷲ تعالی نے امت مسلمہ کو شعبان المعظم کے بعد ایک مقدس مہینہ رمضان المبارک عطا کیا ہے ۔جو کہ اﷲ تعالی کا بہت بڑا انعام ہے۔ اور یہی انعام لوگوں کے دلوں میں پرہیز گاری و تقوی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس مقدس مہینہ میں عبادت کا لطف جہاں بڑھ جاتا ہیں وہیں رحمتوں کی برسات بھی بے مثال ہوتی ہے ۔اﷲ تعالی کے امت تمحمدیہ پر لاتعداد انعام و احسانات ہے لیکن اس ماہ میں انعامات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ اسلامی نقطہ نظر میں اس مہینہ نے اپنے اندر بہت سے فضائل کو سمیٹا ہوا ہے اﷲ تعای قرآن مجید میں فرماتے ہیں : ہم نے قرآن کو لیلتہ القدر میں نازل کیا اور یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے (القدر)

مشاہدہ یہ ہے کہ جیسے ہی اس عظمت والے مہینہ کی آمد قریب ہوتی ہے تو اشیاء خوردو نوش کی ذخیرہ اندوزی کے ساتھ لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے منافع خور مختلف قسم کی اشیاء کی قیمتوں میں تین گناسے زائد کا اضافہ کر کے رحمتوں کے مہینے کا استقبال کرتے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر یہ عجیب و غریب وباء پھیل چکی ہیں کہ جہاں رمضان المبارک قریب آیا وہاں عام ضرورت کی اشیاء میں مصنوعی قلت پیدا کر دی جاتی ہے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ منہ مانگی قیمت وصول کی جاتی ہے ۔جب کہ اسلام میں ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی ممنوع نہیں بلکہ اس کے لئے ایک خاص لفظ ’احتکار‘ کا استعما ل کیاجاتا ہے یعنی اشیاء ضروریہ کا اس لئے ذخیرہ کرنا کہ مصنوعی قلت پیدا ہو اور بعد میں منہ مانگے دام وصول کیے جائے جسے عرف عام میں مہنگائی کہتے ہیں ۔جیسے ہی ماہ رمضان قریب آتا ہے تو اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ ماہ رمضان سے قبل مختلف اشیاء جن میں پھل، سبزی، آٹا،دالیں گھی و دیگر ضروریات کی اشیاء کی قیمتیں جہاں دو کے ہندسے کی حدود کی پابند ہویی ہیں وہیں ماہ رمضان میں بغیر کسی جھجک کے اپنی حدود پار کر جاتی ہیں جو پھل ماہ رمضان سے قبل70 روپے کے عوض فروخت ہورہا ہوتا ہیں وہیں ماہ رمضان میں اس کی قیمت 140تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتی۔ ہم مسلمانوں کی فطرت بن چکی ہیں کہ ہم سارا سال ماہ رمضان کا انتظار اس نیت سے لر رہے ہوتے ہیں کہ کب یہ ماہ آئے گا اور ہم لوگوں کو لوٹنا شروع کریں گیا۔اسلام میں اس نیت سے ذخیرہ اندوزی کرنا کہ مصنوعی طور پر قلت پیدا کر کے پھر دوگنے دام پر بیچنے کی سخت ممانعت کی گئی ہیں․․․․ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺنے فرمایا: جو شخص کھانے پینے کی چیزوں میں ذخیرہ اندوزی کرکے مسلمانوں پر مہنگائی کرتا ہے تو اﷲ تعالء اسے کوڑھ کے مرض میں مبتلاء کر دیتے ہیں (رواہ ابن ماجہ) جبکہ دوسری حدیث میں حضرت امامہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جو شخٓص چالیس دن تک غلہ مہنگائی کے لحاظ سے ذخیرہ کرے پھر غلطی کا احساس ہونے پر وہ تمام غلہ صدقہ کر دے پھر بھی اس کی غلطی کا کفارہ ادا نہیں ہوتا ․․․ان تمام ارشادات نبویہ اور تعلیمات اسلامی کے پیش نظر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ذخیرہ اندوزی کتنا گھناؤنا فعل ہے اور سب سے افضل ماہ میں ہم اس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔

اگر عوامی بازار سے ہٹ کر حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والے یوٹیلٹی سٹور، سستا بازار کا انعقادہوتا ہے۔ جس کے لئے حکومت کروڑوں روپوں کی سبسڈی دیتی ہیں وہیں بھی سفارش کے بغیر کام نہیں بنتا اور یوں ہی غریب کے گھر کا چولہا ایک بار پھر بجھ جاتا ہے نہ تو انتظامیہ کو اس غریب کے چولہے کی فکر ہویی ہیں اور نہ ہی نام نہاد حکومت کو ،اور نہ ہی متعلقہ اداروں سے کروڑوں روپوں کی دی جانے والے سبسڈی کی پوچھ تاچھ کی جاتی ہیں اور یونہی یہ اعلان صرف اعلان کی حد تک محدود ہوتا ہیں۔

جبکہ غیر مسلم اپنے مذہبی تہواروں کے موقع پر خوردو نوش کی اشیاء کی قیمتوں میں جہاں کمی کا اعلان کرتے ہیں تو وہاں اشیائبھی وافر مقدار میں دستیاب کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں ان سہولیات سے غیر مسلم استفادہ کر رہے ہیں تو وہاں مسلم بھی ان سہولیات سے مکمل استفادہ حاصل کرے ۔

موجودہ انتظامیہ کو ایسا نظام متعارف کرانا ہو گا جس نظام تک غریب کی دسترس آسانی سے ہو اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف فوری کاروائی کو عمل میں لایا جائے ۔بظاہر تو یہ ناممکن ہے لیکن ناممکن کو ممکن بنانا ہو گا ۔
Muhammad Muaaz
About the Author: Muhammad Muaaz Read More Articles by Muhammad Muaaz: 19 Articles with 15376 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.