He ۔She اور شی میل

پانچ سال قبل پرنام سنگھ اپنے دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے گیا ۔کھانا کھا لیا تو بیرا بل لے آیا بل پچیس روپے بنا تھا تینوں نے امریکن سسٹم کے تحت اپنا بل خود ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور بیرے کودس دس روپے کا نوٹ دیا بیرے نے کھانے کے پچیس روپے کاٹ کر پانچ روپے تینوں دوستوں کو واپس لوٹا دئیے تینوں نے ایک ایک روپے خود رکھ لیا اور دوروپے بیرے کو ٹپ دے دی ۔ چونکہ تینوں کو ایک ایک روپے واپس مل گیا تھا اس لیے ان کا خرچ نو نو روپے ہوا ۔تین نونو روپے جمع کئے جائیں تو ستائیس روپے بنتے ہیں 2 روپے انہوں نے بیرے کو تپ دے دی ۔یہ 2روپے جمع کریں تو ان کاخرچہ 29روپے بنتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تینوں نے تو بیرے کو تیس روپے دے دئیے تھے کل خرچہ 29 روپے ہوئے کسی نے فالتو پیسہ بھی نہ کھایا 'ٹپ بھی اپنے ہاتھوں سے دی پھر وہ تیسواں روپیہ کدھر گیا ؟ یہ سوال اپنے پرنام سنگھ کو گذشتہ پانچ سال سے پریشان کر رہا ہے مگر وہ آج تک یہ سراغ نہیں لگا سکا کہ ان کا تیسواں روپیہ کدھر گیا ؟
پانچ سال قبل پرنام سنگھ اپنے دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے گیا ۔کھانا کھا لیا تو بیرا بل لے آیا بل پچیس روپے بنا تھا تینوں نے امریکن سسٹم کے تحت اپنا بل خود ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور بیرے کودس دس روپے کا نوٹ دیا بیرے نے کھانے کے پچیس روپے کاٹ کر پانچ روپے تینوں دوستوں کو واپس لوٹا دئیے تینوں نے ایک ایک روپے خود رکھ لیا اور دوروپے بیرے کو ٹپ دے دی ۔ چونکہ تینوں کو ایک ایک روپے واپس مل گیا تھا اس لیے ان کا خرچ نو نو روپے ہوا ۔تین نونو روپے جمع کئے جائیں تو ستائیس روپے بنتے ہیں 2 روپے انہوں نے بیرے کو ٹپ دے دی ۔یہ 2روپے جمع کریں تو ان کاخرچہ 29روپے بنتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تینوں نے تو بیرے کو تیس روپے دے دئیے تھے کل خرچہ 29 روپے ہوئے کسی نے فالتو پیسہ بھی نہ کھایا 'ٹپ بھی اپنے ہاتھوں سے دی پھر وہ تیسواں روپیہ کدھر گیا ؟ یہ سوال اپنے پرنام سنگھ کو گذشتہ پانچ سال سے پریشان کر رہا ہے مگر وہ آج تک یہ سراغ نہیں لگا سکا کہ ان کا تیسواں روپیہ کدھر گیا ؟جس طرح پرنام سنگھ تیسویں روپے کا سراغ نہیں لگا سکا اسی طرح پاکستانی معاشرہ 65سال میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ شی میل He ہے یا She اسی لیے یہ گتھی بدستور الجھی ہوئی ہے اور اس الجھی ہوئی گتھی نے ہی گذشتہ روز خواجہ سراء علیشاہ کی لے لی۔ہسپتال جو مریضوں کاعلاج گھر ہے نہ کہ یہ گتھی سلجھانے کی جگہ کہ کون '' ہی ''ہے اور کون ''شی '' یا کون ''شی میل خواجہ سراء علیشاہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ افسوس ناک ہی نہیں بلکہ المناک بھی ہے کہ اس سے ہمارے معاشرے کے مجموعی روئیے کی عکاسی ہوتی ہے علیشاہ کون ہے یہ بھی ایک الگ کہانی ہے خواجہ سرء علشاہ کا خاندان افغان جنگ کے دوران پاکستان آیا تھااس خاندان نے بعد میں کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور سہراب گوٹھ میں رہائش اختیار کرلی علیشاہ ہ کی پیدائش اور پرورش سہراب گوٹھ کراچی میں ہوئی اس کے نقوش خوبصورت تھے اور قدکاٹ بھی بہترجس کی وجہ سے اسے لوگ اپنے قربت سے نوازتے چونکہ ان کے والدین عام مزدور کار تھے اس لیے غربت کے باعث والدین نے اسے پڑھانے کی بجائے درزی کی دکان پر بیٹھا دیا ٹیلر ماسٹر نے اس کی خوبصورتی اور حرکات و سکنات کی وجہ سے محفلوں میں گانے کی ترغیب دی اور پھر ایک دن ان کی یہ ترغیب کام آئی ٹیلر ماسٹر نے اسے ایک استاد کے بھیج دیا جس نے اسے رقص کے دا پیچ سکھائے اور یوں علیشاہ شادیوں میں ناچ گھانا گا کر پیسہ کمانے لگا جب اس کے گھر والوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اسے منع کیا لیکن اب وہ بہت آگے جاچکی تھی اس لیے اس کی واپسی ناممکن ہوگئی تھی اور پھر وہ کراچی سے پشاور چلی آئی اس کا خاندان اپنے آبائی وطن افغانستان شفٹ ہو چکے تھے اس کے دو بھائی جرمنی میں سیٹل تھیاسے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں نجی دوستوں میں وہ بارہا اس کا اظہار بھی کر چکی تھی مستقبل قریب میں اس کا افغانستان لوٹ جانے کا بھی ارادہ تھالیکن اسے واپس اپنے آبائی وطن جانا نصیب نہ ہوا اور اس نے اپنی آخری سانسیں بھی پاکستان لیں اور یہی اس کی آخری آرام گاہ بھی بنیموت برحق ہے ہر انسان نے اس دنیا سے جانا ہے لیکن اس طرح افسوسناک حالت میں جانے پر ہر انسان کو دکھ ضرور ہوتا ہے کم از کم ایک انسان ہونے کے ناطے ہر فرد کے حقوق برابر ہیں پھر وہ تو مسلمان تھا یا تھی جو لوگ مسیحاہونے کا دعوی کرتے ہیں ان کم از کم ان کا کام یہ نہیں دیکھنا نہیں ہوتا کہ ''ہی''کون ہے اور''شی''کون یا شی میل کون ہے He اور She کے اس جنھٹ سے نکلنے کے لیے ہے اس مخصوص اور مظلوم طبقے نے خود پر دونوں اپلائی کیا یعنی''شی میل''اس طرح انہوں نے کسی ایک میں بھی اپنی توہین یا سبکی محسوس نہیں کی اور خود کو دونوں کا مکسچر بنالیا ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کو خواجہ سرا کہتے ہیں دوسرے الفاظ میں انہیں ہجڑے بھی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ بھی بعض نام انہیں دئیے جاتے ہیں اگر انہیں ان میں سے کسی بھی نام سے پکاریں تو یہ لوگ اسے برا محسوس نہیں کرتے لیکن ہمارے معاشرے میں کئی دوسری برائیوں کی طرح ان لوگوں کو بھی ایک مذاق بنالیا گیااور یہ لوگ معاشرے کے لیے ایک ایسا ''معمہ'' بن گئے اور یہ معمہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا اپنے غم اور دکھ اپنی مسکراہٹوں میں چھپاکر دوسروں کو ہنسانے والے ان لوگوں کی کہانی بھی بڑی درد ناک ہوتی ہے ان کو نہ گھر والے قبل کرتے ہیں اور نہ ہی اڑوس پڑوس کے لوگ ان سے روابط کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں یہ لوگ عام آبادی سے ہٹ کر اپنے جیسے لوگوں میں ہی پھر رہنا پسند کرتے ہیں پاکستان میں عام لوگوں کے لیے تو وہ ایک کھلونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے لیکن ان لوگوں کی زندگی ایک المیے سے کم نہیں ہوتی زندگی تو یہ جیسے تیسے گزار ہی لیتے ہیں موت کے بعد بھی ہمارا معاشرہ ان لوگوں کی جان نہیں چھوڑتا مسلمان ہونے کے ناطے ان لوگوں کا جنازہ بھی پڑھانے نہیں دیا جاتا ایسے لوگوں کو دن کے اجالے میں دفن ہونے بھی نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے ان لوگوں کو رات کی تاریکی میں خاموشی اور چھپ چھپا کر دفن کیا جاتا ہے جیسے کوئی چوری ہو رہی ہو۔ پشاور میں گذشتہ روز خوجہ سراء علیشاہ کے قتل کے بعد کسی خواجہ سراء کا پہلی بار کھلے عام جنازہ پڑھایا گیا اور اسے معاشرے کے معززین کی موجودگی میں دفنایا گیاخواجہ سراؤں کی زندگی میں یہ پہلی تبدیلی ہے اور اسے ان کی زندگی میںایک انقلابی تبدیلی کہا جاسکتایوں تو خواجہ سراؤں کی تاریخ بہت پرانی ہے اسلام سے قبل بھی ان کا وجود ملتا ہے لیکن مغلوں کے دور میں ان کا عروج رہا مغل بادشاہوں نے انہیں بہت عزت دی چونکہ یہ بے ضرر سا طبقہ تھا اور ہے اس لیے انہیں بادشاہوں کے حرم میں آنے جانے کی اجازت تھی ان سے خواتین کیے تحفظ اور حرم میں پیغام رسانی کاکام بھی لیا جاتا تھا آج بھی خواجہ سراء مغل دور کو اپنی برادری کا سہنری دور کہتے ہیںموجودہ دنیا میں انہیں تیسری جنس بھی کہا جاتا ہے پاکستان اور بھارت میں سپریم عدالتوں نے انہیں شناخت دینے کے لیے این آئی سی فارم میں ان کے لیے خصوصی طور پرعلیحدہ خانہ رکھوایا ہے ان کے لیے ملازمتوں میں خصوصی کوٹہ بھی مختص کرنے کے احکامات دئیے گئے لیکن اب تک اس پر سوائے نادرا کے ادارے کے کسی نے عمل نہیں کیا تاہم سندھ میں اس جنس کے لیے کچھ کام ہورہا ہے پاکستان میں اس طبقے کو بری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے جبکہ دنیا میں اس جنس کو کچھ اہمیت ضرور دی گئی ہے انہیںملازمتوں میں حصہ دیا جارہا ہے ہمارے پڑوس بھارت میں ایک خواجہ سرا کو کالج کاپرنسپل بنایا گیاہے 'ایک ٹی وی اینکربھی خوجہ سراء ہے 'ایک پروفیسر بھی ہے بھارت میں محکمہ انکم ٹیکس نے ٹیکس وصولی کے لیے بھی ان کی خدمات حاصل کررکھی ہیںاور اب پولیس میں بھی انہیں ایڈجسٹ کر دیا گیا ۔تھائی لینڈ میں ائیر ہوسٹس خواجہ سراء ہیں۔فلپائن میں خواجہ سراء کے مس انٹرنیشنل کوئین مقابلے ہوتے ہیںپاکستان میں خواجہ سرؤں نے انتخابی سرگرمیاںمیں حصہ لیا اور امیدوار بھی رہے بھارت میں خواجہ سرا کو پہلی بار میئر بھی منتخب کرلیا گیااس طرح ایک خواجہ سرا نے میئر کا الیکشن جیت کر بھارت کی تاریخ میں تیسری جنس کے پہلے میئر بننے کا اعزاز حاصل کر کیا ہے۔ بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے شہر رائے گڑھ میں میئر کے لئے ہونے والا انتخاب میںآزاد امیدوار خواجہ سراء مدھو نے 4 ہزار 537ووٹ حاصل کئے ۔ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے 35سالہ مدھو کے مدمقابل حکمران جماعت بی جے پی کے گروامید وار تھے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔ 23دسمبر 2009کو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے قرضہ لے کر واپس نہ کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران حکومت کو مشورہ دیا تھاکہ ان قرضوں کی واپسی کے لیے خواجہ سراوں کی خدمات بھی حاصل کی جائیں۔انھوں نے کہا کہ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی قرضوں کی وصولیابی کا کام خواجہ سراوں سے لیا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے خواجہ سراوں کی مردم شماری کر کے انھیں سرکاری ملازمتیں دینے اور وراثت میں ان کا حصہ دلانے کا بھی حکم دیاتھانومبر2011کوسپریم کورٹ نے خواجہ سراوں کے ووٹ کے اندراج کے لیے الیکشن کمیشن کو بھی ہدایات جاری کیں تھیںسپریم کورٹ نے 2011میں خواجہ سراوںکے لیے ملازمتوں میں دو فیصد کوٹہ، صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کا حکم بھی جاری کیا تھا۔لیکن یہ سب تاحال صرف کاغذوں میں موجود ہے ۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں اس وقت دولاکھ اور پاکستان میں 80 ہزار خواجہ سراء ہیں کہا یہ جارہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں اس وقت 42 ہزار خواجہ سراء رہتے ہیں تاہم یہ رپورٹ درست معلوم نہیں ہوتی خواجہ سراؤں کے حقوق کے بارے میں پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا ہے کہ ملک میں خواجہ سراں میں مردانہ صنف زیادہ پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ شادیاں کرکے بچے پیدا کرر ہے ہیں۔یہ خواجہ سرا ظاہری شکل کو بنا ؤسنگھار کرکے عورت کا روپ دھالیتے ہیں۔سلامی نظریاتی کونسل کے 200ویں اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ طبی معائنے کی رپورٹ کی روشنی میں اگر ان میں مرد کی علامات پائی جاتی ہیں تو انھیں جائیداد میں مردوں کے برابر حصہ دیا جائے اور اگر ان میں عورتوں کی علامات زیادہ ہیں تو انھیں جائیداد میں وہی حصہ دیا جائے جو عورتوں کے لیے دین اسلام میں کہا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ان افراد کو خاندان سے کسی طور پر بھی الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی انھیں تیسری جنس کے طور پر شناخت دی جاسکتی ہے۔خواجہ سراہوں کی تنظیم کی سربراہ الماس بوبی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سرا تیسری صنف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ خواجہ سراہوں کے جسم مردانہ ہوتے ہیں لیکن ان کی روحیں صنف نازک کی طرح ہیں۔الماس بوبی کا کہنا تھا کہ ان کے شناختی کارڈ پر جنس کے خانے میں خواجہ سرا لکھا ہوا ہے۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ خواجہ سرا شادیاں بھی کرلیتے ہیں اور ان کے بچے بھی ہیں لیکن وہ خود کو عورت کی تصور کرتے ہیں۔حاصل کالامیہ کہ ابھی تک ہم یہ طے نہیں کر سکے کہ خواجہ سرائؤں کو کس درجے پر رکھیں اسی لیے ہمارے معاشرے میں افسوسناک واقعات رونما ہورہے ہیں جب بھی یہ طے ہوگیا معاشرے کے روئیوں میں ضرور تبدیلی آئے گی-
SULTAN HUSSAIN
About the Author: SULTAN HUSSAIN Read More Articles by SULTAN HUSSAIN: 52 Articles with 40495 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.