قرآن و حدیث کی روشنی میں رمضان المبارک کی فضیلت
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی آمد آمد ہے
۔ اس ماہ ِ مقدس میں مسلمانان ِ عالم ،اسلام کا ایک اہم رکن بڑے ذوق وشوق
سے ادا کرتے ہیں ۔ روزہ اسلام کے پانچ اہم ارکان میں سے ایک ہے ۔اسلام کی
عمارت جن پانچ ستونوں پر استوار ہے ، روزہ ان میں سے ایک انتہائی اہم ستون
ہے ۔ صحیحین کی مشہور ِ زمانہ حدیث ہے:
"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ۔ اس امر کی گواہی دینا کہ اللہ
کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ نماز پڑھنا
۔ زکٰوۃ دینا ۔ حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔"ـ(مشکوٰ ۃ المصابیح ،
حدیث نمبر 3، راوی : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ)
رمضان المبارک اور فرض روزے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ ان سے
متعلق اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ، قرآن ِ حکیم کی کیا تعلیمات ہیں ؟نیز
احادیث ِ مبارکہ میں ان کی کیا فضیلتیں آئی ہیں ؟ آج کی تحریر میں اس پر
روشنی ڈالی جائے گی ۔
روزہ ایک ایسی عبادت ہے ، جو امت ِ محمدیہ علی ٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے
علاوہ دیگر امتوں پر بھی فرض تھی ۔ چناں چہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
"اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں
پر فرض کیا گیا تھا ۔ تاکہ تم تقویٰ اختیا ر کرو ۔"(سورۃ البقرۃ، آیت نمبر
183)
سورۃ البقرۃ کی آیات 183 سے 187 روزے سے متعلق ہیں ۔ رمضان المبارک وہ مقدس
مہینا ہے ، جس کا نام قرآن ِ حکیم میں آیا ہے ۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
"ماہ ِ رمضان وہ ہے ، جس میں قرآن اتارا گیا ۔ جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا
ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیا ں ہیں ۔تم میں سے
جو شخص اس مہینے کو پائے ، اسے روزہ رکھنا چاہیے ۔ ہاں! جو بیمار ہو یا
مسافر ہو ، اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے ۔ اللہ کا ارادہ
تمھارے ساتھ آسانی کا ہے ، سختی کا نہیں ۔وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کر
لو اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو
۔ "(سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 185)
ماہ ِ رمضان میں ایک رات' شب ِ قدر'ہوتی ہے ۔ یہ بڑی فضیلت والی رات ہے ۔
رمضان المبار ک کی آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں سے ایک رات شب ِ قدر ہوتی
ہے ۔ اس مبارک رات کا ذکر قرآن ِ حکیم میں دو مقامات پر آیا ہے ۔ سورۃ
الدخان میں اور سورۃ القدر میں ۔ اس عظیم رات کی عظمت کا اندازہ اس امر سے
لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کی ایک سورۃ کا نام سورۃ القدر ہے ۔سورۃ
الدخان میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
"حٰم! قسم ہے اس وضاحت والی کتاب کی ۔ یقینا ہم نے اسے بابرکت رات میں
اتارا ہے ۔ بے شک ہم ڈرانے والے ہیں ۔ اُسی رات میں ہر ایک مضبوط کا م کا
فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ "(سورۃ الدخان ، آیات 1 تا 4)
سورۃ القدر میں اس عظیم و بابرکت رات سے متعلق ارشاد ِ خداوندی ہے :
"یقینا ََ ہم نے اسے(یعنی قرآن ِ مجید کو) شب ِ قدر میں نازل فرما یا ۔ تو
کیا سمجھا کہ شب ِ قدر کیا ہے ؟ شب ِ قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس
(میں ہر کام ) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح
(جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں ۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہو تی ہے ۔ اور
فجر کے طلوع ہو نے تک (ہوتی ہے)" (سورۃ االقدر کا مکمل ترجمہ)
شب ِ قدر کو ایک ہزار مہینوں سے بہتر کہا گیا ۔ یعنی اس ایک رات کی عبادت
ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔تفسیر احسن البیان میں لکھا ہے:
"ہزار مہینے 83 سال 4 مہینے بنتے ہیں ۔ یہ امت ِ محمدیہ پر اللہ کا کتنا
احسان ِ عظیم ہے کہ مختصر عمر میں زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے
کیسی سہولت عطا فر مادی ۔"
اب آتے ہیں احادیث کی جانب۔صحیحین کی حدیث ہے:
"جب ماہِ رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ایک
روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کیے
جاتے ہیں اور شیطانوں کو قید کیا جاتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے
دروازے کھولے جاتے ہیں ۔" ـ(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر 1860، راوی: حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
ایک اور حدیث ملحوظ ہو ۔ یہ بھی صحیحین کی حدیث ہے:
"جنت کے آٹھ دروازے ہیں ۔ جن میں سے ایک کا نام باب الرّیان ہے ۔ اس دروازے
میں سے جنت کے اندر صرف روزے رکھنے والے داخل ہوں گے ۔(مشکوٰۃ المصابیح ،
حدیث نمبر 1861، راوی: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ)
صحیحین کی ایک اور حدیث ہے:
" اللہ تعالیٰ نے فرما یا کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا
دوں گا ۔ (روزہ دار) اپنی خواہشات کو اور اپنے کھانے کو صرف میری خوشی کے
لیے چھوڑتا ہے اور روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ۔ ایک خوشی روزہ
کھولتے وقت اور دوسری خوشی اپنے پروردگا ر سے ملاقات کے وقت ۔ روزہ دار کے
منھ کی بو خدا کے نزدیک مشک سے زیادہ خوش بو دار ہوتی ہے اور روزہ ڈھال ہے
۔ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے ، نہ بے ہودگی سے
چلّائے ۔ اگر کوئی اسے برا کہے یا اس سے لڑنے کا ارادہ کرے تو وہ اس سے کہہ
دے کہ بھئی میں روزہ دار ہوں۔"(مشکوٰۃ المصابیح ، حدیث نمبر 1863،
راوی:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ)
رمضان المبارک اور روزے کے فضائل سے متعلق اور بھی بہت سی احادیث ہیں ۔ مگر
طوالت کا خوف ہے ۔ سو اسی پر اکتفا ہے۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس
رمضان المبارک میں ہمیں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔آمین |
|