آرزو گھبرا
کر پیچھے ہتننے لگی وہ شخص لرکھراتے ہوے اس کی طرف بڑھ رہا تھا ...خوف ہراس
سے آرزو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ....
اس نے ستارہ کی جانب مدد طلب نگاہ سے دیکھا ....
مگر ستارہ بائی بھی دوسرے کی مردوں طرح قہقہہ لگا رہی تھی ...
ادھر آ میری جان ....،،اس آدمی نے آرزو کا بازو دبوچ لیا ...،،
کہاں چھپاہے رکھا تھا اس کلی کو ....،،
ستارہ بائی اچھا نہیں کیا تو نے ....،،اس نے ستارہ بائی کو خشمگیں نگاہوں
سے دیکھا ...اس کی
نظریں سر سے پاؤں تک آرزو کاجائزہ لے رہی تھیں ...
ستارہ بائی اپنی جگہ سے اٹھ کر مسکراتی ہوئی اس آدمی تک پہنچی جو ابھی تک
آرزو کا بازو دبوچے تھا .ارے زمان صاحب ....،،ایسی بات نہیں ...،،یہ تو
ابھی کل ہی بلوائی ہے خاص آپ کے لئے ..ہاہاہا ...زمان ملک سر اونچا کیے
قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ....،،
تازہ تازہ کھلی کلی ہے ....،،ان چھوئے ...،،ستارہ بائی نے ہاتھ ملک زمان کے
کان کے قریب لا کر کہا آرزو اپنا بازو چھڑانے کوشش جاری رکھے ہوے تھی ....اس
آدمی نے آرزو کے چہرے کے اطراف میں پھیلی لٹوں میں سے ایک کو پکڑ کر زور سے
اپنی طرف کھینچا.... آہ
آرزو تڑپ اٹھی ...
ارے بہت نازک ہے یہ تو ....،،اس نے ستارہ بائی کی جانب مسکرا کر دیکھا ...
اور تم تو جانتی ہو ہمیں نازک چیزیں کتنی پسند ہیں ...،،
اس نے ہاتھ چھڑانا چاہا تو بہت سی کانچ کی چوڑیاں آرزو کی نازک کلائی میں
چبھ گئیں ...
آپ آیے سرکار بٹھئے ...،،ہم آپ کی کچھ خاطر مدارت کرتے ہیں ...،ستارہ بائی
نے ملک زمان کو اشارہ کرتے ہوے کہا ...
بس آج یہ نازک کلی میرے ساتھ بھیج دو ....،،
اس کے علاوہ اور کسی خاطر کی ضرورت نہیں ..،،
ملک زمان نے اپنی گھنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوے کہا ...،،
وہ ..وہ تو بجا فرمایا آپ نے مگر ...،،
سیتارا بائی شش و پنج کا شکار ہو گئی ...
ملک زمان نے چیک بک جیب سے نکالی ...دوسرے ہاتھ سے اس نے آرزو کی کلائی کو
پکڑا ہوا تھا ...یوں جیسے یہ ہاتھ اس نے چھوڑ دیا تو وہ تھام نہیں پاے گا
...
چیک بک دیکھ کر ستارہ بائی کی بند بولتی ہو گئی ....
ملک زمان ایک انتہائی امیر آدمی تھا ...وہ منہ مانگی رقم دینے کو تیار تھا
...اور آج خاص اسی لئے تو ستارہ بائی نے ملک زمان کو انوائٹ کیا تھا ....
تا کہ وہ آرزو کی من چاہی قیمت وصول کر سکے ...
اس نے چیک بک ستارہ کی طرف بڑھائی ...
یہ لو ...،،اس میں اپنی مرضی کی قیمت لکھ لو .....،،
آرزو کی آنکھوں سےبہتے آنسوؤں میں تیزی آ گئی ...
..................................
شاہ زر حیات نے ڈنر میٹنگ کے آخر میں اپنا سائلنٹ پہ لگا موبائل جیب سے
نکالا ..بیل جاری تھی ....موبائل جگمگا رہا تھا ...
شاہ زر نے کال ریسو کی ...دوسری طرف نعمان تھا ...نعمان نے شاہ زر کو پارس
کی کنڈیشن سے آگاہ کیا ...
لمحہ بھر کو شش زر کو اپنا لہجہ اور الفاظ یاد اے ....جو اس نے آج شام ہی
پارس سے کہے تھے ...مگر دوسرے ہی لمحے اس نے اپنا سر جھٹک دیا ....
اسے پارس کی کسی بات پہ یقین نہ تھا ....
اس نے موبائل جیب میں رکھا اور گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کیا ...
پارس کو آ ہوش گیا تھا۔...
مگر ابھی مکمل توڑ پہ ہوش و حواس میں نہ تھی ....آنکھیں بند کیے وہ شاہ زر
کانام بار بار پکار رہی تھی ...
نعمان آہستہ سے چلتا ہوا پاربیڈ کے قریب پہنچا ... نعمان
کے دل سے ہوک سی اٹھی ...
کچھ دیر بعد پھر سے پارس آنکھ کھلی تو اس نے نعمان کو اپنی آنکھوں کے سامنے
کھڑا پایا ...اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا ...
وہ تویہاں کسی اپنے کو دیکھنا چاہتی تھی ....
مگر
نعمان کو دیکھ کر اسے بہت برا محسوس ہوا ....
اسے اپنی ٹانگوں میں شدید تکلیف کا احساس ہوا ...
شاہ۔..زر ...،،
شاہ ...،،
اس نے دوبارہ سے آنکھیں کر کھول اپنے اطراف میں نظر دوڑائی ...مگر وہاں
کوئی اور موجود نہ تھا ....
اس نے آنکھ بند کی اس کی نگاہ تمام مناظر گھوم گئے ... اکسیڈنٹ
....،،..ایکسی۔ڈینٹ ...،،ہوا تھا ...وہ مدھم آواز میں ....بولی
نعمان کے لئے سمجھنا مشکل ہو رہا تھا ...
اس کے قریب آ کھڑا ہوا ....
میری ٹانگوں میں...،،میری بہت .پین ہے ...،،
بہت پین ہے ....،،
تم ....تم ،،...یہاں کیا کر رہے ہو ..…۔.،،
وہ غصے اور حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی ....
.....…۔...........................
صفحہ نمبر 11 ...
رضا اگر کسی کو پتا چل گیا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں ،،...تو وہ لوگ مجھے جان
سے مار دیں گے ....،،
روشنی بہت گھبرا رہی تھی ....
تم نہیں جانتے رضا ...،،مجھے یوں لگ رہا ہے ....،،جیسے میں پنجرے میں قید
تھی ... ،،
صدیوں سے کسی ظالم صیاد کی قید میں ...،،
یہ آزادی بھی مجھے خوف زدہ کیے رکھتی ہے ....،،
تم مت ڈرو ....میری جان ....،،ان لمحوں کو انجواے کرو ...،،اس وقت کو خوشی
سے جیو ....،،
یہ وقت تمہارا ہے ...،،اسے کسی خوف کی نذر مت کرو ..،،
میں تمھارے ساتھ ہوں ...،،پھر تمھیں کس بات کا ڈر ...،،
رضا نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوے کہا ...
تم مجھے چھوڑنا مت ...،،رضا ،،
بہت سے بھیانک چہرے دیکھ چکی ہوں ...،،
ہمیشہ میرے ساتھ رہنا ...،،ورنہ ...،،ورنہ میں مر جاؤں گی ...
کیوں ایسی باتیں کرتی ہو ...،،
تمھیں مجھ پہ اعتبار نہیں ...کیا ؟ ....،،رضا نے روشنی کے گالوں پہ پھیلتے
آنسوؤں کو صاف کرتے ہوے کہا ....
صرف تم پہ ہی تو اعتبار ہے ....،،تم ہی تو میرے سب کچھ ہو ....،،
میں تو اپنا سب کچھ بہت پیچھے چھوڑ ائی ہوں ....،،روشنی مایوسی سے بولی ...
تم بے فکر رہو ....،،اور ویسے بھی اب میرا دوست ہے نہ ہمارے ساتھ ...،،وہ
بہت اچھا ہے ....،،وہ ہماری ضرور مدد کرے گا ...،،
ایک بات کہوں رضا ...،،
ہاں ....،،کہو ....،،رضا نے پیار سے استسفار کیا ....
مجھے تمھارے دوست سے بہت ڈر لگتا ہے ....،،اس کی ...،،اس کی میں وہ ہی تڑپ
...وہی بے اختیاری ہے جو ...،،جو میں اب تک تمام مردوں میں دیکھ چکی ہوں
...،،جو روز کسی روپ میں اس کوٹھے پہ آتے تھے ...،،
ہا ہا ہا ...،،رضا قہقہہ لگا کھول ہنس دیا ...
ارے پگلی وہ ایسا بلکل بھی نہیں ...،،
آج کے دور میں کون اتنا مخلص ہوتا ہے بھلا ...،،
دیکھو اس نے اپنا اتنا خوبصورت اپارٹمنٹ ہمیں دیا ہے ....،،ہر
طرح کی سہولت اور حفاظت دی ہے ...،،
اور اب تو ہماری شادی بھی اسی نے کروائی ہے ...،،اگر اس کے دل میں کوئی چور
ہوتا ...،،تو وہ یہ سب نہ کرتا ...،،اور اب تو تم پوری طرح میری ہو چکی ہو
....،،
یہ طرح طرح کے وہم وسوسے چھوڑ دو ...،،
یہ خوف اور واسوسے ہماری خوشیاں ملیامیٹ کر دیں گے ...،،
خود کو ایزی رکھو ...،
مگر ...،،رضا تمہارا دوست ....،،
پلیز روشنی ...،،ایسی باتیں مت سوچو ....،،
...............................................
بار گیند چھت پہ گری تھی ...مگر اس بار تو سلمان کے کمرے کے دروازے میں
پہنچی تھی ...سلمان کو نجانے کیوں غصہ آ رہا تھا ...اب کی بار بھی وہی لڑکی
گیند دھدنتے ہوے ...،،کمرے کے دروازے میں پہنچی ....
سلمان اٹھ کھول کھڑا ہو گیا ...کیا مسلہ ہے ...،،
تم لوگوں کو گیند پھنکنے کے لئے ہماری ہی چھت ملی ہے ...،،
چین نہیں آتا تم لوگوں کو ...،، سلمان غصہ سے بولا ...اس کے ماتھے کی
تیوریاں بڑھ گئیں ... سانولی سی لڑکی وہیں کھڑی رہی ...،،
بے چین تو آپ لگ رہے ہیں ...،،تو لڑکی کے جواب سے سلمان کو مزید تاؤ آ گیا
...
تمھیں میری بے چینی سے کیا ...،،
جاؤ یہاں سے ...،،سلمان دھارا ...
تو اور کیا ...،،مجنو لگ رہے ہو پورے ...،،
وہ لڑکی دباتے ہنسی ہوے بولی ....
او شٹ اپ ...،،سلمان شدید طیش کے عالم میں اس لڑکی کی طرف بڑھا ....
جاری ہے ...... |