پولیس کی اصلاح اور معاشرہ!

آرپی او بہاول پور احسان صادق کی میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ مشاورت تھی، یہ تصور عام پایا جاتا ہے، اور ہے بھی حقیقت کہ میڈیا کے نمائندے عام آدمی سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی دی ہوئی خبریں ٹی وی میں دیکھ اور اخبارات میں پڑھ کر لوگ کسی خبر سے آگاہ ہوتے ہیں۔ کہا گیا کہ آج ہم سے سننے کی بجائے ہمیں بتایا جائے، پولیس کے رویوں میں تبدیلی آئی ہے یا نہیں، تھانے جانے پر کوئی بات سنتا ہے یا نہیں؟ پولیس سے جُڑے مسائل کیا کیا ہیں؟ حالات کو بہتر کرنے کے لئے تجاویز؟ ملے جلے تاثرات بیان کئے گئے، جیسا کچھ بھی تھا، پولیس پر زیادہ اعتما د کی بات نہیں کی گئی، اور یہ بھی کہ تبدیلی نمایاں نہیں۔ بات حادثات کی بھی ہوئی اور ذکر خود کشیوں کا بھی ہوا، ان کاموں کی روک تھام کیسے ہوسکتی ہے، انہیں کم کیسے کیا جاسکتا ہے؟ ایک صحافی بھائی نے بتایا کہ بہاولپور میں ایک عرصہ سے خود کشی کے لئے کالاپتھر استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ عام دکانوں پر بھی دستیاب ہے، اس لئے سادہ اور عام لوگ بھی یہ خرید لیتے ہیں، اور اسے زندگی کے خاتمے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک صاحب نے تیزاب کے بھی سرعام فروخت ہونے پر اعتراض کیا۔

صحافیوں کو بتایا گیا کہ بہاول پور ریجن میں پولیس اصلاحات کے ذریعے جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے، خاتمے کا خواب ابھی ادھورا ہے، کیونکہ ایک عرصہ سے بگڑے ہوئے نظام کو تبدیل کرنا نہایت مشکل کام ہوتا ہے۔ تبدیلی کی راہ میں اس وقت اور بھی رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں، جب اصلاح کنندگان بھی اپنی اصلاح نہ کرنا چاہتے ہوں، اور یہ بھی کہ ریجن یا علاقے سے باہر کی پولیس اپنی ڈگر پر چل رہی ہو، ایسے میں کسی ایک ریجن میں تبدیلی آسان نہیں ہوتی۔ آرپی او نے بہاولپور کے تھانوں میں وی آر او ز کا تقرر کر رکھا ہے، یہ پولیس آفیسر تھانے میں عام سائل کے چھوٹے موٹے مسائل موقع پر ہی حل کرتے ہیں، جو مقدمات درج کرنے کے قابل ہوتے ہیں اس میں سائل کی مدد کرتے ہیں، اس عمل سے بھی عوام کو کافی سہولت میسر آئی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس کے بارے میں شکایات کا ازالہ کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ پہلے سے زیادہ درخواستیں آئی ہیں، اس کی وجہ یہ دلیل دی گئی کہ لوگوں کو ریسپانس ملتا ہے، جس کی وجہ سے ان کا ہمارے دفتر پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، اور وہ پہلے سے زیادہ حوصلہ مندی سے درخواستیں دیتے ہیں، ہم ان درخواستوں پر تحقیقات کرواتے ہیں۔ ہمارے پاس ان افسرا ن کا ریکارڈ موجود ہے، جن کے خلاف درخواستیں آتی ہیں، کس کے خلاف کتنی اور کس نوعیت کی درخواستیں ہیں، اس سے ہم ان کا تبادلہ کرتے ہیں، پھر بھی خرابی پر مُصِر رہنے والوں کی فہرستیں بنائی جارہی ہیں، جن کو ملازمت سے فارغ کردیا جائے گا۔ پولیس کو بااخلاق بنانے اور اس کی اصلاح کے لئے سیمینارز کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔ تبدیلی کی رفتار سست ہی سہی، سفر جاری ضرورہے۔

پولیس کے محکمہ کو کرپشن اور ظلم وزیادتی وغیرہ میں سرفہرست قرار دیا جاتا ہے، ظاہر ہے اگر کسی ایک ریجن کا آرپی او تبدیلی کے لئے کوشاں ہے تو یہ کام ہر ریجن میں نہیں ہوتا، کسی بھی ادارہ کی کارکردگی کا بہت ساانحصار اس کے سربراہ پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی تبدیلی عارضی ثابت ہوتی ہے، ایک سربراہ کے جانے کے بعد دوسرے نے اپنی مرضی سے کام چلانا ہوتا ہے۔ اجتماعی اور نمایاں تبدیلی تو اس وقت آسکتی ہے جب پورے صوبے میں ایک بہتری کا ایک ہی فارمولا ترتیب دیا جائے۔ پولیس کے رویوں اور معاملات میں بہتری کے امکانات تو زیادہ نہیں، کیونکہ ایک تو خود محکمہ کا سانچہ ہی ایسا بن چکا ہے، دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ معاشرہ بھی اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر خود کشیوں کی بات ہوتی ہے تو کیا کالا پتھر اور تیزاب پر پابندی لگانے سے خودکشیاں ختم ہو جائیں گی، کیا ٹرین بھی بند کردی جائے گی؟ رسیوں کی خریدوفروخت بھی ختم ہو جائے گی؟ تمام زہریلی ادویات اور سپرے بھی غائب کردی جائے گی؟ ضرورت تو خود کشی روکنے کی ہے، سبب معاشرتی ناہمواریاں ہیں، اس کی روک تھام حکومت اور معاشرے کا کام ہے۔ دوسرااہم مسئلہ حادثاتی موت ہے ، گھر والے خود اپنے دس بارہ برس کے بچے کو موٹر سائکل حتیٰ کہ گاڑی بھی چلانے کے لئے دے دیتے ہیں، اس پر فخر بھی کرتے ہیں، مگر حادثے کی صورت میں رونا پڑتا ہے۔ پولیس کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح کی بھی سخت ضرورت ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429332 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.