اسلامی جمہوریہ پاکستان کہ جس کا قیام
اسلام کے سنہری اصولوں پر رکھا گیا تھا ،کے صوبہ سند ھ میں نوشہرہ فیروز کے
علاقے تھل میں با اثر وڈیرے محمد بخش نے طاقت کے نشے میں بدمست دو غریب
مزدوروں پر ظلم کی انتہا کر دی ۔ان مزدوروں پر ظلم کرتے ہوئے یہ وڈیرہ یہ
تک بھول گیا کہ رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مزدور
کی شان کچھ اس طرح بیان کی: ہاتھ سے کمانے والا(مزدور) اﷲ کا دوست ہے ۔ان
دو مزدوروں سہیل اور ایازکا قصور یہ تھا کہ ان کی گدھا گاڑی وڈیرے کی جیپ
سے ٹکرا گئی،جس سے وڈیرے محمد بخش کو یہ بات شان کے خلاف لگی اور اس نے
دونوں مزدوروں پر سرعام تشدد کیا،یہ وڈیرہ جب ان غریب مزدوروں کو مار مار
کر تھک گیا تو جرگہ بلا کر یہ حکم صادر کروایا کہ دونوں مزدورمنہ میں جوتا
دبا کر طاقت اور معاشی و معاشرتی برتری کے نشے میں بدمست وڈیرے کے پاؤں چھو
کر معافی مانگیں گے ۔ لوگ چپ سادھے یہ ظلم دیکھتے رہے اور کسی میں اتنی ہمت
نہیں تھی کہ وہ وڈیرے کا ہاتھ پکڑ سکے ، منہ سے بول سکے یا کم از کم اس ظلم
کو دل سے برا سمجھ کر وہاں سے چلا جائے اور تماشا نہ دیکھے مگر اس قوم کو
شاید تماشے پسند ہیں تب ہی روز ان کے ساتھ تماشے ہوتے ہیں کبھی یہ قوم کسی
فنکار کی انگلیوں میں دھاگوں سے بندھ کر پتلیاں بنتے ہیں او رکبھی ان
پتلیوں کو ناچتے گاتے دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں ۔
یہ صرف ایک خبر ہے جو میڈیا کی زینت بنی تو ہر جگہ پھیلی ورنہ حالات اتنے
پیچیدہ او ر گھمبیر ہیں کہ جو چند گِنے چُنے بندوں پر حاکم بن جائے تو وہ
ان ماتحتوں پر ظلم کی انتہا کر دیتا ہے ،یہ سوچتا ہے کہ شاید ان ماتحتوں او
رمعاشی و معاشرتی طور پر کم تر لوگ اس کے غلام ہیں اور یہ اعلیٰ و برتر
ہمیشہ کے لیے ہے اور ہمیشہ رہے گا مگر ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہو گا
ظلم ایک حد تک ہوتا ہے اور اس کے بعد ظالم عبر ت کا نشانہ بن کر تاریخ کی
کتابوں میں نہ سہی مگر لوگوں کے دماغوں میں ایسے سرایت کرجاتے ہیں کہ ان کا
نام نسل در نسل منتقل ہو کر ظالموں کی فہرست میں رہتی دنیا تک موجود رہتا
ہے ۔
خیرانسان کے خسارے میں ہونے کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ وہ دنیاوی
جاہ و جلال ، عہدے ، اقتدار ، سیاسی و معاشرتی قد کاٹھ، دولت اور اندھی
تقلید کرنے والے پیروکاروں کی وجہ سے اپنے آپ کو برتر و بالا سمجھنا شروع
ہو جاتا ہے، ترجیحات میں اپنی ذات کی خود پسندی سرفہرست بن جاتی ہے اور یہ
ترجیح ظلم کا پیش خیمہ بن جاتی ہے ۔۔۔چند لمحات ظلم کے اور پھر رہتی دنیا
تک لعن طعن اور عبرت۔۔۔ رسول امین صلی اﷲ علیہ وسلم انتقال کے وقت امت کے
لیے سخت پریشان تھے عزرائیل علیہ السلام کو بار بار کہا کہ اﷲ سے پوچھیں کہ
میرے بعد میری امت کے ساتھ کیا معاملہ فرمائیں گے جس پر اﷲ نے آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے لیے پیغام بھیجا کہ آپ کے بعد آپ کی امت کو تنہا نہیں چھوڑوں
گا مگرآپ کی امت کے ظالمو ں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوگا،اس پیغام کے بعد
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی مزید عزرائیل علیہ السلام کو امت کی خیر و
بھلائی کے لیے اﷲ کے پاس نہیں بھیجا ۔ دنیا کے نام نہاد بادشاہوں کے لیے اس
ایک واقعہ میں ہی سبق سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر شاید اقتدار اور دنیا
وی جاہ و جلال خون میں اتنا سرایت کر جاتا ہے کہ ذہن ماؤف ہو جاتے ہیں اور
آنکھیں اندھی ۔
اﷲ نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ظلم کو پسند کرتا ہے ۔اﷲ جس بندے کو کوئی عہدہ
،چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا ،دیا ہے تو وہ اپنے آپ کو اﷲ کا نائب سمجھ کراپنے
عہدے کی طاقت کو بلاوجہ استعمال کر کے اپنے ماتحتوں اور اپنے سے کم تر
انسانوں پر زمین تنگ نہ کرے اور نہ یہ کوشش کرے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اﷲ ان
مظلوموں کے لیے تو زمین پھیلا دے گا مگر ظالم کو یہ زمین بھی قبول کرے گی
نہ آسمان۔بل کہ عبرت کا نمونہ بنا کر باقی انسانوں کے لیے ہمیشہ کے لیے
محفوظ کردے گی ۔ تاریخ ایسے عبرت ناک زمینی خداؤں سے بھری پڑی ہے لہٰذا
ہونا تو یہ چاہیے کہ کسی بھی جگہ کسی بھی علاقے یا کسی بھی ادارے میں موجود
’’بڑا ‘‘ یا’’بڑے‘‘ اپنے عہدے اور اقتدار کو اپنے اوپر اتنا مسلط نہ کریں
کہ اپنے آپ کو زمینی خدا سمجھنا شروع ہو جائیں ۔ اپنے آپ کو خس و خاشاک
سمجھیں تو نہ حق تلفی ہو گی اور نہ کسی پر ظلم ہو سکے گا۔
دین اسلام جہاں اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات کوقرار
دیتا ہے وہاں ہی برابری کا درس دینے کے ساتھ ساتھ برتر ان لوگوں کو قرار
دیتا ہے جو تقویٰ میں اعلیٰ ہوں۔اس سنہری اصول سے غیر مسلم معاشرہ تو کوسوں
دور ہے مگر حیرت اس امر پر ہے کہ اسلامی ممالک بھی اسلام کے سنہرے اصولوں
سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔قیام پاکستان کے مقاصد کو دیکھا جائے تو افسوس سے
کہنا پڑتا ہے کہ ان مقاصد میں سے کوئی مقصد حاصل کرنے کی ارباب اختیار نے
کوشش کی اور نہ ہی نچلے طبقے نے ۔ جس کی وجہ سے وہ مقاصد پورے نہ ہوسکے اور
مشترکہ تہذیب و تمدن اور اصول معاشرت دین اسلام کے سنہری اصولوں سے متصادم
ہونے کے باوجود بھی موجودہ معاشرے میں من وعن موجود ہیں ۔یہی اونچ نیچ اور
معاشرے میں طاقت ور کے پاس لاٹھی کا ہونا ،قیام پاکستان سے پہلے بھی اور آج
بھی معاشرے میں موجود ہے جس سے معاشرتی تفرقہ بندی ہونے کے ساتھ ساتھ ظلم
بڑھتا جارہا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت ہندو معاشرے میں خاندان اور ذات پات کو اہمیت دی جاتی
تھی جس سے خائف ہو کر پاکستان بنانے والوں نے مالی کوششوں کے ساتھ ساتھ
جانی کوششیں بھی کی اورپاکستان کی بنیاد دین اسلام کے سنہری اصول پر رکھی
جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام میں برتر و اعلیٰ وہی ہے جو تقویٰ میں اﷲ
کے زیادہ قریب ہے مگر دیکھا جائے تو ابھی بھی پاکستانی معاشرے میں خاندان ،
پیسہ ، ذات پات ہی اعلیٰ و برتر کا معیار ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں تفریق
موجود ہے اور ظلم کا بازار بھی گرم ہے، آئے دن ایک نئی خبر اس بات کی دلیل
کے لیے ہماری آنکھیں کھولتی ہے اور ہمیں اپنے مقصد حیات کی طرف بلاتی ہے
مگر بے حسی کا وہ بازار گرم ہے کہ رجحانات ہی بدل گئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ
معاشی و معاشرتی لحاظ سے اپنے آپ کو برتر و بالا سمجھنے والوں کے آئے دن
غریب غرباء اور مساکین پر ظلم دیکھ کر ،پڑھ کر شرمندگی ان لوگوں سے ہوتی ہے
جنھوں نے پاکستان کا قیام اس لیے چاہا کہ یہ ملک دین اسلام کے سنہری اصولوں
پر کاربند ہو کر معاشرتی و معاشی اونچ نیچ کو ختم کرے گا مگر ایسا نہ ہو ا
اور پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنے والے آج بھی سینہ پھلا کر اپنے افکار
کو انھی دلائل سے مزین کر کے کہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا قیام
ٹھیک نہیں تھا حالا ں کہ ایسا نہیں ہے پاکستان کا قیام جس نظریہ پر رکھا
گیا وہ ٹھیک تھا مگر بعد میں ہم ہی نے اس کے نظریہ کو تبدیل کر کے اس کے
قیام کو متنازعہ بنایا ہے کبھی خاموش رہ کر، کبھی بول کراور کبھی حالات سے
سمجھوتہ کر کے ۔ |