مسلمان اپنے مسائل سُلجھانے کی کوشش کریں، اُلجھانے کی نہیں
(Moulana Nadeem Ansari, India)
مسلمان وہ قوم ہے جس نے ڈیڑھ ہزار سال میں
سیکڑوں اتار چڑھاؤ دیکھے اور ہزاروں مسائل کا سامنا کیا۔ جب تک مسلمان اپنے
دین پر قائم رہے، ہمیشہ سرخ روئی نصیب ہوتی رہی۔ ہر میدان میں ان کی
کامیابی و کامرانی کا اصل سبب اسلام و اصولِ اسلام کی پاس داری ہی تھی،جس
نے کبھی ان کی ہوا اکھڑنے نہیں دی۔ اس لیے کہ وہ اپنے رب سے تعلق استوار
کیے ہوئے تھے، جب ضرورت در پیش ہوتی وہ آسمانوں سے مدد اتروانے کی صلاحیت
رکھتے تھے، اسے غیب کہتے ہیں اور غیب پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں
ہو سکتا۔ ان کی یہ عمدہ خصلت دنیوی معاملات میں بھی ان کی ممد و معاون رہی
کہ اس قوم نے کبھی دوسروں کی طرف للچائی ہوئی نگاہ سے نہیں دیکھا اور ساری
دنیا اور دنیا والوں کو اپنی ذات سے فایدہ پہنچایا،لیکن ہماری شومیِ اعمال
کہ اسی قوم کو آج وہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں کہ ’خفا ہیں اپنے بھی، ناراض
پرائے ہیں‘۔ یہ ایک کامیاب پالیسی ہے کہ جب کسی کو زیر کرنا ہو تو انھیں
میں سے ان کے بعض مخالف تیار کر لیے جائیں، اس لیے کہ انسان جتنا دشمنوں کی
مخالفت سے تکلیف محسوس کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ اپنوں کی مخالفت اس پر
گراں بار ہوا کرتی ہے۔دشمن اس بات کو سمجھتا ہے اور اسی کا فایدہ اٹھاتا ہے
لیکن شاید ہم اس کی عیاری نہیں سمجھتے اور نہ سمجھنے کو تیار ہی ہیں۔ یوں
تو پورے عالَم میں اور خصوصیت سے ہندستان میں مسلمانوں کی آزمائش کا دور
ہے، جس میں ثابت قدم رہنے کی ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی ہے، لیکن بعض کرایے کے
ٹٹّو اس وقت آستین کا سانپ بنتے نظر آرہے ہیں، جو اپنے زہر سے سب کچھ مسموم
کر دینا چاہتے ہیں، ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
خدا و رسول کا بنایا ہوا مذہب جسے ’دینِ اسلام‘ سے موسوم کیا جاتا ہے، اس
کی سب سے بڑی خاصیت یہی ہے کہ اس کی بانی کوئی بھی انسانی ذات نہیں، خود
رسول اور پیغمبر کے معنی و مفہوم میں بھی یہ بات عیاں ہے۔ خداے وحدہ لا
شریک نے اپنی انتہائی عنایتوں کے سبب بہ ذاتِ خود ہمارے لیے دینِ اسلام
پسند فرمایا ہے، وہ خدا جو کہ ہمارا خالق و مالک ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس
دین کو دینِ فطرت سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ بنانے والے نے اس میں فطرت
کی مکمل رعایت کی ہے، اس کے باوجود بعض ’نام نہاد دانشوران‘ اس میں نظرِ
ثانی کی فہمائش کر رہے ہیں اور انھوں نے جگ ہنسائی کے لیے ایسی ایسی باتیں
بکنی شروع کی ہیں جنھیں پڑھ سُن کر دماغ سنّ ہو جاتا ہے، من جملہ ان کے
طلاق و تفریق کے نازک و پیچیدہ مسائل بھی ہیں، جنھوں نے ان دنوں کچھ زور
پکڑرکھا ہے۔ ایسا نہیں کہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا، ہاں یہ ضرور کہا
جا سکتا ہے کہ جب کبھی بھی ایسا ہوا ہے،ان ریشہ دوانی کرنے والوں نے ہمیشہ
منہ کی کھائی، پھر بھی جرأت دیکھیے کہ اپنا سا منہ لے کرپھر آکھڑے ہوتے ہیں
اور چالاکی کے ساتھ وہ وہ حربے استعمال کرتے ہیں، جن سے کچھ وقت کے لیے
واقعی خاطر کو پریشان کر دیتے ہیں۔
گذشتہ دنوں طلاقِ ثلاثہ کے متعلق دو مختلف خبریں ایک ساتھ باصرہ نواز
ہوئیں؛ ایک یہ کہ ملک کے پچاس ہزار سے زیادہ مسلم خواتین و مرد چاہتے ہیں
کہ تین بار طلاق کہنے پر روک لگے،اس کے خلاف پچاس ہزار مسلمانوں نے دستخطی
مہم چلائی ہے اور ’بھارتی مسلم مہلا آندولن‘(BMMA ) نے اسے ممنوع قرار دیے
جانے کی مہم کا آغاز کیا ہے،جس کے تحت ایک درخواست تیار کی گئی ہے جس پر
تیرہ ریاستوں کے پچاس ہزار مسلمانوں نے دستخط کیے ہیں۔ ہندوستانی مسلم
خواتین تحریک نے’ نیشنل کمیشن فار وِمین‘(NCW) سے بھی اس مہم کو اپنی حمایت
دینے کے لیے رابطہ کیا ہے، اس تحریک کی کنوینر نور جہاں صفیہ نیاز کے مطابق
آنے والے دنوں میں اور بھی لوگ اس مہم کو اپنی حمایت دیں گے۔ جو آبادی
مسلمانوں کی ملک میں بتائی جاتی ہے اس کے مطابق بھی اٹھارہ کروڑ مسلمانوں
میں پچاس ہزار کا اس طرح کا مطالبہ آپ کی اس جمہوریت میں کیا وزن رکھتا ہے،
جہاں صرف سر گنے جاتے ہیں، دوسری بات یہ کہ اگر یہ بحث طول پکڑ گئی تو آپ
ضرور دیکھیں گے کہ خود مسلمان ہی ہر ہر منافق کا پردہ چاک کر دے گا۔اس لیے
کہ ان کے خیالِ خام میں صرف طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ ہی لائقِ ترمیم نہیں بلکہ
انھیں پور مسلم پرسنل لا سے عداوت ہے ، جیسا کہ ان کا کہنا ہے کہ ’’مسلم
پرسنل لا کو مکمل طور پر تبدیل کرنے میں وقت لگے گالیکن اس وقت تک طلاقِ
ثلاثہ پر پابندی لگنے سے لاکھوں مسلم خواتین کو راحت ملے گی۔‘‘
اسی کے ساتھ دوسری خبر یہ تھی کہ ایک مسلم خاتون امیر النساء(رکن مسلم
پرسنل لا بورڈ، چینئی، تامل ناڈو) نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’فرقہ پرست
طاقتیں محض مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی خاطر مسلم خواتین کی مظلومیت کا
ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ طلاق کی سب سے
زیادہ شرح مسلم معاشرے میں ہے۔اس کے لیے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر ایسے
نام نہاد مسلم خواتین و حضرات کو پیش کیا جا رہا ہے، جو شریعتِ اسلامی سے
نابلد اور مسلم پرسنل لا سے بغض و عناد رکھتے ہیں۔‘‘ یہ واقعی وہ حقیقت ہے
جو ہر روز مشاہدے میں آتی رہتی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنے مسائل کو سلجھانے کی کوشش کریں، نہ کہ مزید
الجھانے کی۔ جن معاملات و مسائل میں گنجائش ہوتی ہے محقِق علما کبھی ان میں
غفلت و تسامح سے کام نہیں لیتے، ماضی قریب میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی
کی ’حیلۂ ناجزہ‘ اس کی بین دلیل ہے لیکن جن مسائل و احکام کو بعینہ ماننا
شریعت نے لازم قرار دیا ہے، ان کو بلا چوں و چرا ماننا ہی اصل اسلام
ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا سید رابع حسنی ندوی نے بہ جا فرمایاکہ
’’ایسے بہت سے مسائل ہیں جن پربورڈ میں تمام مسالک کے لوگ تبادلۂ خیال کرنے
کے بعد کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور کوشش یہی کی جاتی ہے کہ شریعت کے
تقاضوں اوراصولوں کے مطابق فیصلے اور نظریات پر عمل کیاجائے۔ان کا یہ بھی
کہنا تھا کہ ملک میں گؤ کشی، مسجد ،مندر، طلاقِ ثلاثہ، تعلیم کا بھگواکرن،
فسادات اوردہشت گردی کے الزامات‘ یہ سب ایسے موضوعات ہیں جن کو بنیاد بناکر
ایک مخصوص طبقے کا مسلسل استحصال کیاجارہا ہے۔‘‘
امید ہے کہ باشعور مسلمان اپنی ذمّے داری کو ضرور سمجھیں گے، ہمیں بس اتنا
عرض کرنا ہے کہ جو لوگ خود کو مسلمان کہلاتے ہیں انھیں اس بات کا ضرور خیال
رکھنا چاہیے کہ اخباروں میں فوٹو و نام چھپوانے کی غرض سے دینِ اسلام پر
اعتراض کرنے سے قبل اسلام کا صحیح اور اصل مصادر سے مطالعہ کر لیں، اس کے
بعد پہلے اپنے اختلافات پر حجت قائم کریں اور خیال رکھیں کہ قانون ہمیشہ
جذبات سے اوپر اٹھ کر ہی وضع کیا جا تاہے، اگر جذبات کو قانون میں دخل دیا
جائے تو کسی مجرم کے لیے کبھی مناسبِ حال سزا تجویز نہیں کی جا سکتی، اس
لیے کہ ایک مجرم کو سزا دینے پر اس سے متعلق بعض ایسے لوگ بھی سزا بھگتنے
پر مجبور ہو تے ہیں جن کا واقعی کوئی قصور بھی نہیں ہوتا۔اسی لیے تو اﷲ
تعالیٰ نے دینِ اسلام کے تمام اصول و ضوابط از خودوضع فرمائے ہیں، جن کی
حسبِ ضرورت تشریح رسولِ اسلام نے فرما دی،اس کے بعد بھی اگر قانونِ اسلامی
پر کوئی اعتراض کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اعتراض براہِ راست
خدا و رسولِ خدا پر کیا جا رہا ہے، جس کے نتائج کا بیان کرنے کی ضرورت
نہیں، بس یہی درخواست کی جا سکتی ہے
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
یا موم ہو یا سراسر سنگ ہو جا |
|