لڑکے /لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ/تاخیر کے اسباب

 ڈاکٹر مولانا محمد عبدالسمیع ندوی

شادی یہ ایک ایسی پرمسرت تقریب ہے جس کی خوشی و مسرت سے صرف لڑکا اور لڑکی ہی لطف اندوز نہیں ہوتے بلکہ لڑکی والے اور لڑکے والے دونوں برابر کے اِس خوشی میں شریک اور ساجھی دار ہوتے ہیں بلکہ ان دونوں کے افرادِخاندان کے مابین الفت و محبت کے نئے رشتے بھی قائم ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شادی ایک ایسا مقدس اور اہم فریضہ ہے جو مذہب ، قانون اور معاشرتی رہن سہن اور سماج کی روشنی میں مردوعورت کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کر کے ایک دوسرے کا شریک حیات بنا دیتا ہے۔

مذاہب عالم کا مطالعہ ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ شادی بیاہ صرف جذبات کی تسکین کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی وجہ سے انسان بیشمار بے حیائیوں اور برائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ مذہب اسلام میں تو شادی کو نصف یعنی آدھا ایمان کہا گیا ہے اور حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ’’جب انسان شادی کرتا ہے تو اس کا آدھا ایمان مکمل ہو جاتا ہے اب اسے صرف آدھے ایمان کی حفاظت کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔‘‘

آج کا یہ ترقی یافتہ سائنسی دور ، جو مادہ پرستی کا دور ہے ، یہ دور سائنسی ، ٹکنالوجی اور تعلیمی اعتبار سے چاہے بہت زیادہ عروج و ترقی کے منازل طئے کرچکا ہو مگر اخلاقی ، سماجی اور انسانیت و شرافت کے اعتبار سے تنزل و انحطاط اور پستی و پسماندگی میں اپنی مثال آپ ہے جہاں انسان کی قدروقیمت گھٹتی اور مال و دولت کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ شاید یہی وہ باتیں ہیں جس کی وجہ سے کسی نے کیا خوب کہا ہے ع
پیسے کے آگے کیا ہیں یہ محبوب خوش جمال
پیسہ پری کو لائے پرستان سے نکال
خوشی ،راحت ، مزہ ، آرام ہے سب زر کے ہونے سے
یہ وہ نعمت ہے جس کی مانگ ہے یاں کونے کونے سے
میں سچ کہتا ہوں کہ شیطان بھی سجدے بھی گر پڑتا
بناتے خاک کے بدلے اگر آدمؑ کو سونے سے

آج کے اِس مادہ پرستانہ دور میں شریک حیات کا انتخاب کرنا جوئے شیر لانے سے کچھ کم نہیں۔ شادی کے فریضہ کی ادائیگی کے لئے پہلے شریک حیات کا انتخاب انتہائی اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ ہندوستانی معاشرت میں شریک حیات کا انتخاب اکثروبیشتر والدین ہی کیا کرتے ہیں یا پھر لڑکا خود اپنے لئے لڑکی منتخب کرتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ یوروپین تہذیب کی اسے دین کہئے یا ماڈرن تہذیب کا نمونہ کہ اب لڑکیاں بھی اپنے شریک حیات کا انتخاب کرنے لگی ہیں اور اُس کے برے نتائج کا خمیازہ بھی خود ہی ایسا بھگت رہی ہیں جیسا کہ یوروپین ممالک میں ہورہا ہے ۔ وہاں اوسطاً ہر ایک منٹ میں ایک طلاق کا عمل واقع ہورہا ہے۔

ہندوستانی سماج میں گذشتہ دو دہائیوں پہلے تک ایسا ہوتا تھا کہ والدین اپنے بچوں کی شادیاں زیادہ تر اپنے رشتہ داروں یا ذات برادری ہی میں کیا کرتے تھے لیکن آج کل تعلیم اور آمدنی میں فرق کی بناء پر والدین آپس میں رشتے ناطے طئے کرنے کے بجائے اپنے سے مالدار یا زیادہ سے زیادہ برابر کے لوگوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ عموماً لڑکیوں کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیاں بڑے گھرانوں میں بیاہی جائیں اور ان کے لئے ڈاکٹرس ، انجینئرس ، بزنس مین ، بینک آفیسر ، گورنمنٹ افسر اور بڑے سے بڑا عہدے والا داماد بنے جبکہ ان کی بیٹیاں کچھ زیادہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہوتیں۔ اس طرح اس کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر لڑکے والوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی والے بہت زیادہ صاحب ثروت ، مال و دولت اور پراپرٹی و جائیداد کے مالک ہوں۔ لڑکی صورت و شکل میں حورپری سے کم نہ ہو ، کم سے کم گریجویٹ تو ضرور ہو ، جبکہ لڑکا تعلیم یافتہ نہیں ہوتا۔ ہر دو طرف سے گویا کہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ سامنے والی پارٹی بڑی مالدار ہو ، اور اسی پیچ و خم میں اِدھر لڑکے کی عمر بڑھتی جاتی ہے اور اُدھر لڑکی عمررسیدہ ہوتی جاتی ہے اور پھر ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں overage ہوجاتے ہیں اور پھر رشتوں کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اور پھر لامحالہ ، چارو ناچار ، نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں طرف کے لوگ کسی بھی ایرے غیرے نتھو خیرے سے اپنی پھول جیسی لاڈلی بیٹی کا بیاہ کردیتے ہیں یا اُس کے برعکس اچھے خاصے نوجوان کا رشتہ ایسی لڑکی سے کردیتے ہیں جو پسند نہیں ہوتا ہے اور پھر اسے ایڈجسٹمنٹ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور پھر اس کے جو کچھ نتائج برآمد ہوتے ہیں یہی لوگ اس کے سرتاپا ذمہ دار ہوتے ہیں۔

ہمارا سماج ایک مشرقی سماج ہے جس کی اپنی ایک الگ تہذیب اور منفرد شناخت ہے۔ فطرت کے عین مطابق مذہب اسلام نے لڑکے اور لڑکی کو اپنی رضامندی کے ساتھ شادی کی اجازت دی ہے ، وہیں یہ حق استعمال کرنے کے لئے معاشرتی ، قانونی ، سماجی ، تہذیبی اور اخلاقی حدود بھی متعین کئے ہیں اور اس حق کا بہتر استعمال صرف والدین کے حق میں دیا ہے کہ رشتہ تو والدین ہی طئے کریں گے مگر رشتے طئے کرنے سے پہلے وہ اولاد کی پسند بھی ضرور معلوم کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ازراہِ احتیاط ایک نظر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ لینے کی جو بات ہوتی ہے وہ بھی بڑے فائدہ کی چیز ہوتی ہے کہ لڑکا اور لڑکی اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار اپنے والدین کے سامنے کردیں پھر والدین کی یہ ایک بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی پسند اورناپسند کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر اپنا حکم اور فیصلہ جاری کریں۔

ہمارے معاشرہ میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکا خود لڑکی کا انتخاب کرلیتا ہے تو والدین کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ، تمہاری شادی میری مرضی سے ہوگی۔ مگر میری پسند کا آپ کو کوئی خیال نہیں ، میری زندگی کا اتنا اہم فیصلہ میری مرضی کے بغیر کیسے کرسکتے ہیں ( یہ جملے لڑکے کے ہوتے ہیں) اور عموماً والدین یہ کہہ کر اپنا فیصلہ صادر کردیتے ہیں کہ یہ ہمارا متفقہ فیصلہ ہے ، ہم تمہارے بارے میں تم سے بہتر سوچتے ہیں۔ اولاد اپنی پسند کی شادی پر بضد ہوتی ہے جبکہ والدین یہ حق اپنے پاس رکھنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک اہم ،نازک اور حساس مسئلہ پر اختلاف کا دروازہ کھل جاتا ہے جو ہنستے بولتے گھرانے میں تلخیاں گھول دیتا ہے۔

اس طرح کے حالات پیدا ہو جانے کی صورت میں جہاں والدین کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ ٹھنڈے دل و دماغ سے لڑکے کی بھلائی کی خاطر فکرمندی سے کام کریں وہیں لڑکے ، لڑکیوں کو بھی ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ جوش کی بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ اپنے ناتجربہ کاری اور جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو ان کے لئے مستقبل میں تباہی و بربادی ، ناکامی و نامرادی کا سبب بنے۔

شوہر اور بیوی کا رشتہ نہایت حساس ، نازک ،خوبصورت اور پائیدار رشتہ ہوتا ہے۔ ایسارشتہ جس کا تقدس ہر مذہب ، ہر آئین اور ہر ملت نے قبول کیا ہے۔ ازدواجی زندگی کا تصور مرد و عورت دونوں کے لئے بڑا دلکش اور رنگین ہوتا ہے ، شادی جیسا اہم فیصلہ کرتے وقت ہر باشعور لڑکا ہو یا لڑکی خود سے یہ سوال کرتا ہے کہ اس کا شریک حیات کیسا ہو؟ اِس کا عموماً یہی جواب ہوتا ہے کہ ’’ایسا جیون ساتھی جو سچی محبت اور ہمدردی رکھتا ہو‘‘ جو صرف اچھے لمحات میں ساتھ نہ دے بلکہ کٹھن لمحات میں بھی مددگار ہو ، جو مایوسیوں کی تاریکیوں میں اپنی ہمت اور تعاون سے میرے وجود کو سہارا دے سکے۔

آخر میں صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ شریک حیات کے انتخاب میں پسند یقینا اپنی ہونی چاہئے ، مگر مرضی تو صرف اور صرف والدین ہی کی ہو کیونکہ وہ زندگی کے نشیب و فراز ، اتارچڑھاؤ اور ماحول سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف تجربہ کار بلکہ جہاں دیدہ بھی ہوتے ہیں اور وہ اپنی اولاد کے حق میں انتہائی نرم ، ہمدرد اور خیرخواہ ہوتے ہیں۔ ٭٭٭
 
syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 46275 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.