دو روزہ انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس اور بیس کیمپ کے انداز

دو روزہ انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس انوکھا تجربہ تھا۔ دو دنوں میں حیرت و استعجاب ، دکھ اور خوشی کے کئی لمحات سے ہم گذرے ۔ سب سے پہلی حیرت تو کانفرنس ہال میں داخل ہوتے ہوئے ہوئی ، جب کشمیر کے نقشے پر نظر پڑی ۔ نقشے میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو ایک مبہم سی نہ دکھائی دینے والی لکیر سے پاکستان سے الگ کیا ہوا تھا ، جو بہت غور کرنے پر دکھائی دیتی تھی ۔ اور کشمیر کے طور پرصرف بھارتی زیرانتظام کشمیر کو دکھایا گیا تھا ۔ نقشے کے معاملے پر کئی لمبی چوڑی بحثیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستا ن کا حصہ دکھانے کے مضمرات کیا ہیں ، پہ بہت گفتگو ہو چکی ہے ، لیکن اتنی بڑی غلطی کی اس کانفرنس میں گنجائش نہیں ہونی چاہیئے تھی ۔

حیرت کا دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب میں نے ساتھ والی نشست پر براجمان ایک لڑکی سے گفتگو شروع کی ، جو مجھ سے اس طرح کے سوالات کر رہی تھی آزاد کشمیر کا کوئی الگ ترانہ بھی ہے کیا ؟ آزاد کشمیر کے صدر بھی الگ ہوتے ہیں؟ امان اﷲ خان کون تھے ؟ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کانفرنس میں کس طرح مدعو ہیں تو کہنے لگیں ، میں سپیکر ہوں ۔ میں نے خوش ہو کر کہا تو آپ کی کشمیر پر کوئی ریسرچ ہے ؟ فرمانے لگیں نہیں مجھے ابو نے تیاری کرنے کو کہا تھا ، میں نے سوچا وہیں جو کچھ سنوں گی بول لوں گی اب اس کو سلام پیش کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی اور لفظ نہیں تھے ، مجھے افسوس ہے کہ میں اس معصوم کے بے دھیانی میں بولے گئے جملوں کو فتنے باز پڑوسن کی طرح بیان کر رہی ہوں لیکن اس سے میرا مقصد یہ ہے کہ سوائے محض دو سپیکرز کے سب کی حالت یہ تھی ، وہ کسی بھی تیاری اور تحقیق کے بغیر وہیں سنی ہوئی باتوں کو دہرا رہے تھے ، کیا یہ ہماری اس انتہائی سنجیدہ مسئلے کے ساتھ غیر سنجیدگی کی انتہا نہیں ہے ؟ مقررین میں بھارتی زیرانتظام کشمیر سے آنے والے وفد کے اراکین کے نوجوان مقررین چھائے ہوئے دکھائی دیتے تھے شاید اس لئے کہ ان کا علم فرسٹ ہینڈ تھا ، ان لوگوں نے سب کچھ آنکھوں سے دیکھا اور جو دیکھا اس کو انتہای خوبصورت انداز میں بیان کر رہے تھے ، بالخصوص شوکت نندہ، توصیف میر ، نصیر قادری ، عرشی جاوید ،سجاد رسول اور فرزانہ ممتاز لیکن ان کے ساتھ آئے ہوئے وفد کے سینئیر اراکین کی تقریروں کا انداز وہی پرانے قصوں کی دہرائی تھا ۔ کانفرنس کا انداز نہ خالص اکیڈمک تھا ، نہ خالص سیاسی ، لیکن سیاستدانوں کی تقریروں نے طبیعت ہی مکدر کی ۔ میں سارا وقت یہ سوچتی رہی کہ ان کو پتہ نہیں ہوتا یا یہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں پھر یہ غنیمت لگا کہ وہاں سیاستدان بھی کم تھے ۔

لیکن سیاستدانوں کا کم ہونا اس لئے تو غنیمت لگ سکتا ہے کہ رٹے رٹائے جملے نہیں سننے پڑے ، لیکن دوسرا رخ دیکھیں تو انتہائی افسوسنا ک ہے کہ دو روزہ کانفرنس میں کشمیر میں سیاست کرنے والی جماعتوں میں کسی بھی جماعت کی صف اول کی قیادت میں سے کوئی بھی دکھائی نہیں دیا ۔ صدر صاحب اور وزیر امور کشمیر برجیس طاہر روٹین پوری کرنے کے لئے تھوڑی دیر کو تشریف لائے اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ اور بھی مصروفیات ہیں ۔ مسئلہ کشمیر سے اہم کئی مصروفیات ہیں ان کی ابھی انتخابات کا موسم ہے اور انتخابی مہم میں ان کا سب سے اہم نعرہ مسئلہ کشمیر ہی ہوتا ہے ۔ نہ ہی میڈیا کے نمایاں ناموں میں سے کوئی ایک بھی دکھائی دیا ، کیا ہم یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ہماری آخری ترجیحات میں بھی نہیں ہے ؟ یہ انتہا سے بڑھ کر افسوسناک تھا ۔ ان میں سے اکثر شخصیات سے جب بات ہوئی تو کچھ کا شکوہ تھا کہ دعوت نامے نہیں ملے ، کچھ نے دعوت نامے ملنے کے باوجود اس اہم ترین کانفرنس کو درخوراعتنا نہیں جانا ۔ ان کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کشمیر نے ہی ان کو نام اور مقام دیا ہے ۔ اور مسئلہ کشمیر کے متعلق اتنا اہم کام جہاں ہو ان کو سر کے بل پہنچنا چاہئے ، گلگت بلتستان سے کوئی ایک شخص بھی شریک نہ تھا ۔ خبر ہے کہ حافظ حفیظ الرحمان اس دن جی بی ہاوس اسلام آباد میں سوئے رہے ہیں ۔نہ صرف انتظامیہ کو مندوبین کی شرکت کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چایئے تھے ، مدعوئین کو بھی اس کو عظیم قومی فریضہ سمجھ کر نبھا نا چاہئے تھا۔ اہم عوامی نمائندوں کے بغیر یہ کانفرنس ادھوری رہی ۔

یورپ سے آئے ہوئے مندوبین نے بھی شرکت کی ، کچھ نے بڑی مدلل اور خوبصورت کارآمد گفتگو کی ، لیکن ایک صاحب جو برطانیہ سے آئے تھے، نے کشمیر کے لئے کی جانے والی اپنی کوششوں کو بہت جارحانہ انداز میں احسان جتا کر ظاہر کیا ۔ بقول ان کے ، انہوں نے کشمیر کے لئے بہت کام کیا ، لیکن ان کا لہجہ اور انداز دیکھ کر دل چاہا کہ ان کو کہا جائے جناب آئندہ نہ کیجئے گا ، ہم میں اتنا دم خم ہے کہ آپ کا احسان لئے بغیر کام کر سکیں یہ ہمارا قومی فریضہ ہے ، اس طرح کی باتیں اختلافات کو جنم دے سکتی ہیں ، ختم نہیں کر سکتیں ۔

قومی خزانے سے ایک خطیر رقم خرچ کی گئی ، کشمیر لبریشن سیل، کل جماعتی حریت کانفرنس اور مسٹ یونیورسٹی جیسے تین ادارے اس کیانتظام میں لگے رہے ، اور چند لوگوں کی لاپرواہی اور غیر سنجیدگی نے اس کو بہت حد تک نامکمل بنا دیا تھا ، کانفرنس میں زیادہ تر گفتگو وادی کشمیر اور جموں کے مسائل کے گرد رہی ۔ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے کسی بھی مسئلہ یا رخ کو کسی بھی جگہ زیر بحث نہیں لایا گیا ۔ آر پار نوجوانوں کا آپس میں ملنا انتہائی خوش آئند ہے ، اس سے ایک دوسرے کے نظریات و خیالات اور مسائل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ لیکن آزاد کشمیر سے مقررین کی لاپرواہی یا لا علمی کے باعث پار سے آنے ولے مندوبین مجھے یقین ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بارے میں اتنے ہی لاعلم رہے ہوں گے جتنے وہ آنے سے پہلے تھے ۔

سب کے باوجود اس کانفرنس کا اہم پہلو یہ ہے کہ منقسم کشمیر کے دونوں اطراف کے لوگوں کو آپس میں ملنے جلنے کا موقع ملا۔ موجودہ ماحول میں کشمیریوں کا باہم ملنا سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ جس سے مسئلہ کی متنازعہ حیثیت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے ۔ اس طرح کی کوششیں پر اثر فورمز سے ہوتی رہنی چاہئیں ۔ اور اس میں سول سوسائٹی کے ہر فرد کو اپنی دلچسپی لینی چاہئے ۔
Danish Irshad
About the Author: Danish Irshad Read More Articles by Danish Irshad: 5 Articles with 3161 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.