اقتصادی سروے اور گدھے!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
پاکستان میں بسنے والے انسانوں کی کل
تعداد کتنی ہے؟ اس کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکا، کیونکہ مردم شماری
ہوئے برسوں بیت چکے ہیں۔ تاہم گزشتہ روز پیش کئے جانے والے اقتصادی سروے
میں یہ مسئلہ حل کردیا گیا، معاملہ صرف مردم شماری تک محدود نہ رہا، بلکہ
خَر شماری، گُھڑ شماری کے ساتھ ساتھ بھینسوں، بھیڑوں،بکریوں،اور اونٹوں
وغیرہ کی تعداد بھی بتائی گئی ہے۔ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ پاکستان میں
موبائل فون کی سہولت 13کروڑ 14لاکھ صارفین کو حاصل ہے۔ 19کروڑ سے زائد
آبادی کے ملک میں ایک ہزار اڑتیس لوگوں کے لئے ایک ڈاکٹر کی سہولت ہے۔ ایک
ہزار چھ سو تیرہ لوگوں کے لئے ہسپتالوں میں ایک بستر ہے۔ کُل آبادی میں مرد
عورتوں سے زیادہ ہیں۔ جبکہ بارہ کروڑ کے قریب شہروں میں اور باقی دیہات میں
رہائش پذیر ہیں۔ اقتصادی سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زراعت روبہ زوال
ہے، کپاس کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے، ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے اور
سرمایہ کاری میں بھی۔
اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ ہمیں تو بس یہیں تک سمجھ آیا، تشویش والی خبر یہ
ہے کہ گدھوں کی تعداد اکیاون لاکھ بتائی گئی، یہ تعداد گزشتہ برس پچاس لاکھ
تھی ۔ چونکہ اقتصادی سروے حکومت کا پیش کردہ ہے، وہ بھی جناب اسحاق ڈار نے
بذاتِ خود پیش کیا ہے، اس لئے کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں بچتی۔ ظاہر
ہے حکومت نے اپنے ذرائع سے سروے کروایا ہوگا، ان کے لوگ گاؤں گاؤں گئے ہوں
گے، تب جا کر گدھوں کی گنتی کو آخری شکل دی گئی ہوگی۔ ممکن ہے آؤٹ آف سکول
بچوں کی گنتی کی طرح گاؤں میں کسی ایک گدھے والے کے پاس بیٹھ کر حکومتی
اہلکار نے دیگر گدھا مالکان کا اندازہ لگا لیا ہو، اور فرضی تعداد ہی جمع
کر لی ہو۔ اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، کیوں کہ اپنے ہاں بے شمار معاملات
فرضی ہی ہوتے ہیں۔ پالتو گدھوں کی گنتی نسبتاً آسان ہے، کہ ایک ایک گاؤں
میں گدھا مالکان سے ان کی تعداد لے لی جائے، مگر جو گدھے لاوارث ہی کچرے کے
ڈھیروں پر اپنی خوراک کی تلاش میں دیکھے جاتے ہیں، ان کی گنتی کون کرے گا؟
یا ممکن ہے کسی گاؤں میں پالتو گدھوں کے ساتھ آوارہ گدھوں کی بھی فرضی
تعداد لکھ دی گئی ہو۔
گدھوں کا معاملہ اس لئے تشویشناک ہے کہ گزشتہ برس (2015) میں اس خبر نے
پورا سال تہلکہ مچائے رکھا کہ گدھوں کاگوشت بڑے بڑے ہوٹلوں پر فروخت کیا
جارہا ہے، اس امر کا انکشاف اس وقت ہوا جب جگہ جگہ گدھے کی کھال فروخت ہوتے
دیکھی گئی، کسی جگہ گدھا ذبح کرتے ہوئے لوگ گرفتار ہوئے، تو کسی جگہ گوشت
پکڑا گیا۔ پریشانی اور کراہت نے ہر طرف سے آگھیرا۔ بڑے ہوٹلوں پر کھانا
کھانے والے بڑے لوگ بھی شاید پریشان ہوگئے، ورنہ اس قسم کی چھوٹی موٹی
باتیں ان پر اثر اندا ز نہیں ہوتیں۔ جب یہ تشویش حد سے بڑھ گئی ، تو معاملہ
آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہوگیا، جو گدھے گزر گئے سو گزر گئے، جو بچ رہے وہ
باربرداری اور مزید خواری کے کام آئے۔ بعد ازاں طویل خاموشی چھا گئی ، گویا
یہ ایک ڈرامہ تھا جو کسی خاص مقصد کے لئے رچایا گیا تھا، خاموشی سے اس کا
ڈراپ سین ہوا اور قوم کو بتایا گیا کہ اب گدھوں کے گوشت کے پھیلاؤ پر قابو
پا لیا گیا ہے۔ زیر نظر اقتصادی سروے سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے، کہ گزشتہ
برس سے گدھوں کی کل تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوگیا۔ اگر گزشتہ برس بے
شمار گدھے بڑے ہوٹلوں کے دستر خوانوں کی زینت بن گئے تھے تو اگلے ہی برس ان
کی تعدا د میں ایک لاکھ کا اضافہ کیسے ہوگیا۔ یا وہ بات غلط تھی، یا موجودہ
تعداد غلط ہے۔ خیر ’’گدھا خوروں‘‘ کے لئے خوشخبری ہے کہ اب وہ تسلی سے یعنی
جی بھر کر گدھا خوری کرسکتے ہیں۔ گدھوں کی مہنگی کھال کو برآمد کر کے زر
مبادلہ کے ذخائر میں بھی معقول اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کھال سے مصنوعات
تیار کرکے بھی پاکستانی لیدرکی صنعت کو فروغ دیا جاسکتا ہے، اس ضمن میں
پاکستانی مصنوعات دنیا بھر میں پہلے ہی بہت مقبول ہیں، اگر اب اسحاق ڈار اس
اہم صنعت پر توجہ دیں تو ایک تو گدھوں کی تعداد میں معقول اضافہ کیا جاسکتا
ہے، دوسرا یہ کہ اس کی مصنوعات میں معیار کو بہترکرتے ہوئے برآمدات میں بھی
اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ امید ہے اس اقتصادی سروے کی روشنی میں آنے والے سال
میں گدھوں سے خاطر خواہ منافع حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے گی، جو
حکمرانوں کی مراعات میں اضافے کے کام آئے گا۔ |
|