فضائل ِ مولود کعبہ امیرا لمومنین امام حضرت علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام قرآن کی نظر میں - آخری قسط

عظمت ِ علی اور فاسقوں کی تذلیل
ترجمہ ”کیا وہ شخص جو مومن ہے اس کی مانند ہے جو فاسق ہے(دونوں ہرگز) برابر نہیں ہیں“۔ (سورئہ سجدہ:آیت18)
تشریح : اس آیت سے مراتب ِعظیم حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتے ہیں اور آپ کا مقام نمایاں ہوتا ہے۔

تمام مفسرین عالی قدر( اہلِ سنت و شیعہ) اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک روز ولید بن عقبہ بڑے غرور اور تکبر سے حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا”خدا کی قسم! میں آپ کی نسبت زبان فصیح تر اور نیزہ تیز تر رکھتا ہوں“(یعنی کلام میں بھی اور جنگ کے ہنر میں بھی آپ سے آگے ہوں)۔

مولا علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا”خاموش ہوجا! تو یقیناً فاسق ہے“۔

اس وقت یہ آیت پیغمبر اسلام پر نازل ہوئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک سے علی کے مقام اور عظمت کو بیان فرمایا اور ولید بن عقبہ کا فسق ظاہر کیا۔

اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر بھی ولید بن عقبہ کا فسق ظاہر کیا ہے۔ سورئہ حجرات کی آیت6 کے ضمن میں یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے ولید بن عقبہ کو قبیلہ بنی المصطلق کی طرف زکوٰة جمع کرنے کیلئے بھیجا۔ جس وقت قبیلہ کے لوگوں کو علم ہوا کہ پیغمبر اسلام کا نمائندہ ان کی جانب آرہا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور وہ اس کے استقبال کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ چونکہ زمانہ جاہلیت میں ولید اور اس قبیلہ کے لوگوں کے درمیان بڑی دشمنی تھی، ولید نے یہ خیال کیا کہ یہ لوگ اسے قتل کرنے کیلئے گھروں سے باہر نکل آئے ہیں، ولید واپس ہوگیا اور پیغمبر اسلام کے پاس واپس آکر بغیر تصدیق کئے ہوئے کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! ان لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا ہے اور وہ سب کے سب مرتد ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر رسولِ خدا کچھ پریشان ہوئے اور ارادہ کیا کہ اس قبیلہ کے لوگوں کو انتباہ کریں۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
ترجمہ:”اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو“۔ (سورہ حجرات آیہ 6)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ولید نے جھوٹ بولا ہے۔

علی سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں
”اور آگے بڑھنے والے، وہ تو آگے ہی بڑھنے والے ہیں(نعمت والی جنتوں میں) مقرّبِ بارگاہ تو وہی ہیں“۔(سورئہ واقعہ:آیت10)
تشریح: علمائے اہلِ سنت اور شیعہ کی متعدد روایات کی روشنی میں جو اس آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں نقل کی گئی ہیں اور مفسرین کے نظریہ کے مطابق یہ آیت حضرت علی علیہ السلام (جو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے اور ایمان لانے والے ہیں)، کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

تفسیر نورالثقلین، جلد5،صفحہ206 اور تفسیر المیزان جلد9،صفحہ134میں ابن عباس سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل نے مجھ سے اس طرح کہا ہے” علی اور ان کے پیروکار شیعہ ہیں جو جنت کی طرف پیشقدمی کرنے والے ہیں اور خدا کے نزدیک جو ان کا مقام اور احترام ہے، اس وجہ سے وہ بارگاہِ الٰہی میں مقرّب ہیں“۔

اس آیت کی تفسیر میں متفقہ طور پر تمام علمائے اہلِ سنت نے اپنی کتابوں میں درج ذیل روایات نقل کی ہیں
1۔ ابن عباس سے آیہ شریفہ سے متعلق روایت ہے”اس امت میں ایمان اور عمل میں سب سے سبقت لے جانے والے علی ہیں۔
2۔ ایک دوسری روایت میں ابن عباس سے روایت ہے”سب سے پہلے جس نے پیغمبر اکرم کے ساتھ نماز ادا کی، وہ علی علیہ السلام ہیں اور یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
3۔ ایک اور روایت میں ابن عباس سے منقول ہے کہ ”یوشع بن نون نے حضرت موسیٰ پر ایمان لانے میں سبقت کی اور یاسین نے حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے میں سبقت کی اور حضرت علی علیہ السلام نے حضرت محمد پر ایمان لانے میں سبقت کی(یعنی سب سے پہلے ایمان لائے)“۔

علی علیہ السلام کے سب سے پہلے اسلام اور ایمان و عمل کے بارے میں بہت سی روایات علمائے شیعہ و سنی نے لکھی ہیں، ان سب کو نقل کرنا یہاں ممکن نہیں۔

سورئہ توبہ میں علی کی دو نمایاں صفات کا ذکر
”کیا تم نے حاجیوں کا پانی پلانا اور مسجد الحرام کا آباد رکھنا اس شخص کے برابر کردیا جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا اور جس نے راہِ خدا میں جہاد کیا۔ اللہ کے نزدیک تو یہ سب برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کی رہبری نہیں فرماتا“۔(سورئہ توبہ: آیت19)
تشریح : اس آیت ِقرآنی میں جو کہ سورئہ توبہ سے ہے، علی علیہ السلام کی دو خصوصی اور نمایاں صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی صفت خدا اور روزِ قیامت پر ایمان لانا اور دوسری صفت راہِ خدا میں جہاد کرنا ہے۔ بہت سی روایات کی بناء پر جن میں سے زیادہ تر اہلِ سنت سے نقل کی گئی ہیں، اس آیت کا شانِ نزول اس طرح سے ہے کہ ایک دن عباس بن عبدالمطلب اور شیبہ حضرت علی علیہ السلام کے مقابلہ میں فخر و مباہات کر رہے تھے اور خود کو علی علیہ السلام سے برتر ظاہر کر رہے تھے۔ عباس بن عبدالمطلب نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا کہ مجھے وہ سعادت ملی ہے جو کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی اور وہ حاجیوں کو پانی پلانے اور ان تک پانی پہنچانے کی ہے۔(یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں حاجیوں کو سیراب کرنا بڑا افضل کام سمجھا جاتا تھا۔ قصی بن کلاب جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد میں سے ہیں، کا یہی شغل تھا اورانہوں نے فوت ہونے کے وقت یہ کام اپنے بیٹے عبد ِمناف کے سپرد کیا۔ پھر یہ کام ان کے فرزندوں میں جاری رہا، یہاں تک کہ عباس بن عبدالمطلب تک پہنچا(تفسیر المیزان، جلد9،ص210)

عباس بن عبدالمطلب کے خطاب کے بعد شیبہ حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہوا اور کہا کہ مجھے بھی ایک بہت بڑی سعادت نصیب ہوئی ہے اور وہ تعمیر مسجد الحرام ہے۔ اس وقت علی علیہ السلام(جو ہمیشہ فخرومباہات کرنے والوں کے مقابلہ میں عاجزی و انکساری سے کام لیتے تھے) بولے” مجھے وہ سعادت اور فضیلت حاصل ہے جو تم میں سے کسی کو میسر نہیں“۔وہ دونوں بولے:”یا علی ! وہ کونسی فضیلت ہے “
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا”میں نے تمہاری ناک پر تلوار ماری ہے، یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے“۔

عباس بن عبدالمطلب یہ سن کر سخت ناراض ہوئے اور غصے میں پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہنچے اور حضرت علی علیہ السلام کی شکایت کی۔ آپ نے علی علیہ السلام کو بلوایا اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں جواب مانگا۔ علی علیہ السلام نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! میں نے ان سے صحیح اور حق بات کی ہے۔ یہ اسے سن کر ناراض ہوں یا خوش ہوں“۔ اس وقت حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا”یا محمد! اللہ تبارک و تعالیٰ آپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان پر اس آیت کی تلاوت کریں۔

اس آیت کو سننے کے بعد عباس بن عبدالمطلب نے تین مرتبہ کہا:”میں نے راضی ہوکر یہ تسلیم کرلیا“۔
آیہ تطہیر پنجتن پاک پراللہ تعالیٰ کی عنایت ِکامل ہے
”اے اہلِ بیت ! سوائے اس کے نہیں ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تم کو ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔(سورئہ احزاب:آیت 33)۔
تشریح: آیہ تطہیر ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل اور پر معنی آیت ہے۔ اس میں پنجتن کی عصمت و طہارت اور عظمت و جلالت کو بڑے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایسی آیت ہے جو ولایت ِعلی علیہ السلام اور آپ کی اولاد کی عظمت و طہارت پر مہر ثبت کرتی ہے۔ اس آیت میں چند بڑے اہم نکات ہیں جو بڑے غور طلب ہیں۔ ان کو خاص توجہ سے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

اس آیت کے شروع میں کلمہ”اِنَّمَا“آیا ہے۔ یہ کلمہ حصر ہے(اسی سے حصار ہے یعنی قلعہ جو پرانے زمانے میں اجنبیوں کو اندر داخل ہونے سے روکنے کیلئے بنایا جاتا تھا) اس کے بعد کلمہ”یرِید“ہے جو اللہ کے ارادئہ تکوینی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ ارادہ جس سے کسی چیز کو وجود میں لانا مقصود ہوتا ہے۔ انسان کا ارادہ اور ہے جو اکثر ٹوٹ جاتا ہے اور خدائے بزرگ وبرتر کا ارادہ اور ہے جس کو کوئی شے نہیں روک سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارادہ حکمِ قطعی کا درجہ رکھتا ہے۔

خاندانِ پیغمبر کو پاک و طاہر رکھنا اللہ کا ارادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ پاک و طاہر رہیں۔ جبر کے وسوسے کو دور کرنے کیلئے اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ معصومین علیہم السلام میں اپنے سلیقہ اعمال کی وجہ سے اور پروردگار کی عنایت ِ خاصہ سے ایسی صفت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں میں نمونہ طہارت و اخلاق ہوتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں وہ اللہ تعالیٰ کی عنایات سے اور اپنے پاک اعمال سے ایسے ہوتے ہیں جو گناہ کرنے کی طاقت و صلاحیت رکھتے ہوئے بھی گناہ کے قریب نہیں جاتے۔

اس سے اگلا کلمہ”رِجس“ہے۔ رجس کے معنی ناپاک چیز کے ہیں، خواہ وہ ناپاکی کسی حکمِ شرع سے ہو یا تابع عقل ہو یا کسی کی طبیعت کی ناپسندیدگی کی وجہ سے۔ المختصر کلمہ رجس کے معنی بہت وسیع ہیں۔ اس کے اوپر الف اور لام کے اضافہ سے اس کے معنی میں ہر قسم کی ناپاکی شامل ہوجاتی ہے۔ کلمہ ” تطہیر“کے معنی پاک رکھنے اور ہر قسم کی ناپاکی سے دوری کے ہیں۔ کلمہ”اہلِ بیت“ سے تمام علمائے کرام اور مفسرین اہلِ بیت ِ پیغمبر اسلام مراد لیتے ہیں۔

اب رہا یہ مسئلہ کہ اہلِ بیت ِ پیغمبر اسلام میں کون کون سے افراد شامل ہیں، اس کیلئے مفسرین اور علمائے کرام کے درمیان بڑی بحث موجود ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اہلِ بیت ِ پیغمبر میں آپ کی ازواج بھی شامل ہیں کیونکہ آیہ تطہیر سے پہلی آیت اور اس کے بعد والی آیت ازواجِ رسول سے متعلق ہیں۔ اس خیال کی نفی تو صرف ایک اہم نکتہ سے ہوجاتی ہے یعنی آیہ تطہیر سے قبل اور بعد میں آنے والی آیات میں ضمیر مونث ہے اور آیہ تطہیر کی ضمیر جمع مذکر ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس آیت کے مفہوم کو پچھلی اور اگلی آیت سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ اس آیت کے مخاطب یقیناً مختلف ہیں۔ شاید اسی واسطے کچھ مفسرین نے اس آیت میں تمام خاندانِ پیغمبر اسلام اور ان کی تمام ازواج کو شامل سمجھا ہے لیکن بہت ہی زیادہ روایات جو اہلِ سنت اور شیعہ حضرات سے نقل کی گئی ہیں، آیت کے اس معنی کی بھی نفی کرتی ہیں۔ روایات کے مطابق اس آیت کے مخاطب صرف پانچ افراد ہیں جنہیں پنجتن پاک کے نام سے یاد کیاجاتا ہے اور یہ ہستیاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام، جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں۔

اس ضمن میں ایک سوال اکثر یہ کیا جاتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ جب بات ازواجِ رسول کے ضابطہ اخلاق کی ہورہی تھی تو درمیان میں ایک ایسی آیت آگئی کہ جس میں ازواج شامل نہیں ہیں۔ اس کا جواب علامہ طباطبائی مرحوم نے اس طرح دیا ہے” ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ آیت”اِنَّمَا یرِید اللہ“باقی ان آیات کے ساتھ نازل ہوئی ہو جن میں ازواج کا ذکر ہے بلکہ روایات کے مطابق یہ آیت ِتطہیر جداگانہ نازل ہوئی ہے اور آیاتِ قرآن کے جمع کرنے کے وقت محض ان آیات کے ساتھ اکٹھی کی گئی ہے۔ علمائے تفسیر کے مطابق اور بہت سی جگہوں پر ایسی آیات نظر سے گزرتی ہیں جن کا موضوع اگلی اور پچھلی آیتوں سے مختلف ہوتا ہے۔ بہت سی روایات کے مطابق یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آیہ تطہیر کے مخاطب پنجتن پاک ہیں۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112007 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More