پرامن معاشرہ اور پولیس کا نظام

فضل الرحمن اعوان
پاکستان میں 90فی صد جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں بروقت کارروائی سے روکا جاسکتا ہے تاہم پولیس کی روایتی سستی اور پیچیدہ نظام اس کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جب لوگوں نے پولیس پر عدم اعتبار کرکے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور پھر انسانی المیوں نے جنم لیا۔ واقعہ سیالکوٹ جس میں دوبھائیوں کوپولیس کی موجودگی میں ایک مشتعل ہجوم نے بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ اسی طرح لاہور میں مشتعل ہجوم نے قانون کے محافظوں کے سامنے عام شہریوں کو زندہ جلا ڈالا، اسی طرح کے اور بے شمار واقعات ہرروز ہمارے ارد گرد ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے قیام کا اصل مقصدشہریوں کی حفاظت اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر امن مہیا کرنا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی حکمرانی اور قانون نافذکرنے والے اداروں کی تربیت اور اہلیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اس لیے وہاں جرائم کی شرح تھرڈ ورلڈ ممالک کی نسبت انتہائی کم ہے۔

پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایسی کوئی منصوبہ بندی ہے نہ اس جانب توجہ دی گئی۔ بلکہ یہاں عوام کو چوروں‘ ڈاکوؤں‘ راہزنوں‘ عزت کے لٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور جب وہ اپنی کسی گھناؤنی واردات میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ’’قانون کے رکھوالے‘‘ حرکت میں آتے ہیں۔ اس کے بعد صرف مظلوم ہی ان کے ہاتھ آتا ہے جسے مختلف ہتھکنڈوں سے مزید اذیتوں سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ تحقیقات کا سالوں پرانا طریقہ کار اور غیرتربیت یافتہ افراد سیدھے سادھے مسئلے کو الجھاتے چلے جاتے ہیں۔ پھر روایتی طور پر تحقیقات کا دائرہ ایسے معصوم لوگوں تک بڑھا دیا جاتا ہے کہ جن کا واردات میں دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام تھانے یا کسی پولیس اہلکار کی موجودگی میں زیادہ غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔

یہ بات طے ہے کہ جب تک پولیس کے امیج کو درست نہیں کیا جاتا، اس وقت تک پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا تصورتک نہیں کیا جاسکتا۔ پولیس کے پیچیدہ نظام کو جدید بنانے کے علاوہ پولیس افسروں اور اہلکاروں کی تربیت پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ اورانہیں جدید ہتھیاروں سے لیس کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔ پولیس کو سیاستدانوں کے چنگل سے بھی آزاد کرانا انتہائی اہم ہے کیونکہ پولیس کا سیاسی ٹول کے طور پر استعمال اس کی غیرجانبداری کے لیے سب سے زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔

آئین پاکستان میں پاکستان کے شہرپور کو جان و مال کے تحفظ کو یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اس بات کی تاکیدی انداز میں اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ یہاں تو میں مجرموں کو کھلی چھٹی ہوتی ہے۔ پولیس اول تو ان کو گرفتار ہی نہیں کرتی اور مک مکاؤ کے اصول پر کارفرما رہتی ہے اور اگر گرفتار کر بھی لے تو مظلوموں سے بھاری رقم لینے کے بعد ایسا کرتی ہے۔ عموماً تو دونوں اطراف سے ایسا کرتی ہے پھر تفتیشی مراحل میں رشوت لے کر بھاری سقم چھوڑ دیئے جاتے ہیں جن کی بنا پر عدالتوں کو انصاف مہیا کرنے میں بہت سی قانونی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری دانست میں پولیس کے ذمہ داروں کو ایسی تربیت دی جائے کہ وہ اپنے حدود کے علاقے میں کڑی نظر رکھیں اور اپنے اسٹاف کی ایسی تعیناتی کریں کہ جن مقامات پر جرم ہونے کا اندیشہ ہو وہاں سادہ کپڑوں میں ملبوس ڈیوٹی پر مامور پولیس کے افراد موجود ہوں جو حقیقی مجرموں تک پہنچ جائیں۔ علاوہ ازیں پولیس گشت کا نظام انتہائی مربوط اور باہمی رابطے کا نظام تیزی سے کام کرے جہاں کوئی واردات ہونے کا خدشہ ہو وہاں مخبر ذرا سی بھنک پڑتے ہی اطلاع کے ذریعے سارے نظام کو متحرک کردیں۔ اس علاقے میں جہاں افراد جرم کی تیاری میں مصروف ہوں وہاں بروقت کارروائی کرتے ہوئے اُن کو گرفتار کر کے جرم کے ارتکاب کو روکا جا سکے۔ اس سلسلے میں لندن پولیس کی طرز پر نظام کو مربوط بنانے کے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ ہمارے عوام کو گلی گلی قریہ قریہ میں تحفظ کا احساس ہو گا تووہ ملک کی معاشی ترقی اور تہذیبی پروان میں بلاخوف و خطرکام کریں گے ۔ یہ ہی ایک راستہ ہے ملک کو اندھیروں سے نکالنے کا ورنہ ہم پستیوں کے راہی بنتے چلے جائیں گے۔

پولیس کو موثر بنانے کے لیے چند فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ تھانے کی حدود کے اندر 5یا 6 زون بنادیئے جائیں ۔ ان زونز کی ایک ہمہ وقتی ایکشن کمیٹی کے 7سے 12 ممبران ہوں ۔ یہ ممبران اس زون کے دو تاجر‘ دو اساتذہ‘ دو عام غریب شہری دو بزرگ نیک شہری اسی زون کے مستقل رہائشی اور جامع مسجد کے خطیب کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی سطح کے طالب علم بھی اس کاحصہ ہوسکتے ہیں۔ یہ اراکین اپنے زون انچارج سے رابطے میں ہوں۔ جس کی اطلاع پر پولیس کی ایک موبائل ہمہ وقت چوکس ہو۔کمیٹی کام علاقہ میں ہر شخص اور ہر چیز پر کڑی نظر رکھتا ہو اور وہ خالص حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہوکر رضاکارانہ فرائض انجام دے۔ ہمہ وقتی ایکشن کمیٹی کا روزانہ‘ ہفتہ وار اور ماہانہ اجلاس ہو جس میں تحریری رپورٹ متعلقہ تھانہ کے ذریعے ایس پی صاحب ‘ ڈی سی او آفس اور میڈیا تک پہنچائی جائے۔ بلکہ بڑی مشکلات کے لئے خادم اعلیٰ تک رپورٹ جائے۔ علاقہ کے مخیر تاجر حضرات اس میں امن کے قیام کے لئے اگر پولیس کو گاڑیوں اور اسلحہ کی خریداری کے لئے رقم درکار ہو تو مدد کریں اور ان کی ستائش کریں۔

قانون بنانے والے ادارے قانونی پیچیدگیوں کو دور کر کے اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا ہے اور امن ہر صورت قائم کیا جائے اور قائم رہے۔ اگر ہمیں بطور قوم ترقی کرنی ہے تو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی جانب پیش قدمی کرنا ہو گی۔ اربات اختیار کو اب تو سوچنا چاہئے کہ اگر انہیں اپنا اختیار قائم رکھنا ہے تو اس ملک کو امن کا تحفہ دیں تب ہی وہ ارباب اختیار رہ پائیں گے۔ ورنہ بدامنی ان کی کرسی کو دیمک کی طرح چاٹ کھائے گی۔ جس طرح لاقانونیت بڑھ رہی ہے، دہشت گردی کا دور دورہ ہے اور لوگ قانون کو کھلونا سمجھنے لگے ہیں ان حالات میں فوری عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ فوری نتیجہ سامنے آنے لگے عوام کو بھی تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور وہ شعوری طور پر ان اقدامات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ افواج پاکستان پہلے ہی وہ کچھ کر رہی ہیں جو ہماری حکومتوں کو بہت پہلے کر گزرنا چاہئے تھا۔ ہماری افواج کی مسلسل کاوشوں اور قربانیوں نے ہمارے سر فخر سے بلند کر دیئے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امن امان کی بحالی اور قیام صرف افواج پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے ہم سب کو بھی اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ پولیس رولز اور مجموعہ ضابطہ فوجداری میں اس سلسلے میں قانون سازی موجود ہے۔عمل پیہم کی شدید ضرورت ۔سوال یہ ہے کہ اس عمل پیہم کو کب ہمارے ایوان اقتدار اپنائیں گے اور اس سسکتی بلکتی قوم کاکو لاقانویت اور بدامنی کی دلدل سے نکالیں گے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو یقین کیجئے باقی تمام مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔
 
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 39962 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.