ایک چاند اور منافع خوری!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
چاند دیکھنا بھی کیسا دلکش عمل ہوتاتھا،
گاؤں کی کھلی جگہ پر لوگ جمع ہو جاتے تھے، خواتین اور بچے کچے پکے مکانوں
کی چھتوں پر چڑھ جایا کرتی تھیں۔ چاند نظر آجانے کی صورت میں مبارکبادی کا
شور اٹھتا تھا اور نظر نہ آنے پر ایک خاموشی ہوتی یا پھر کچھ سرگوشیاں،
رمضان المبارک یا عید کو ایک دن کے لئے ملتوی کردیا جاتا تھا ۔ ہر شہر ہر
گاؤں میں لوگ چاند دیکھ کر مذہبی ایام و شعار کا اہتمام کرتے تھے، ایک سے
زیادہ عیدیں اور دیگر مذہبی تہوار ہوتے تھے، کہ کہیں چاند دکھائی دے دیا
کہیں ایسا نہ ہوسکا۔ پھر حکومت نے ایک عدد رویت ہلال کمیٹی بنا دی ، عوام
کی وہ چاند دیکھنے کی صدیوں کی روایت ’’رویت کمیٹی‘‘ نے چھین لی، بس کمیٹی
چاند دیکھے گی اور ہم روزہ رکھ لیں گے، وہ کہے گی تو عید پڑھ لیں گے۔ یہی
ہوتا رہا، کمیٹی دوربین لگا کر چاند دیکھتی، پھر اس کا اجلاس ہوتا، طویل
کاروائی ہوتی اور رات گئے اعلان کیا جاتا۔ بات پھر بھی نہ بن سکی، کمیٹی پر
بھی کچھ لوگ راضی نہ ہوئے۔ پشاور اور فاٹا کے علاقوں میں ایک یا دوروز قبل
ہی عید ہو جاتی، کمیٹی کا وجود تو قائم تھا مگر وہ اپنی افادیت کھو چکی تھی۔
یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
گزشتہ دنوں مذہبی امور کے وفاقی وزیر وزیر پشاور تشریف لے گئے، مقصد یہ تھا
کہ پاکستان بھر میں ایک دن ہی رمضان المبارک شروع ہو اور ایک دن ہی عید ہو،
اس سلسلہ میں مسجد قاسم خان کے خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی سے ملاقات کی
جانی بھی مقصود تھی ،کیونکہ یہی وہ مفتی صاحب ہیں ہیں جو ہر سال اپنا الگ
چاند دیکھتے اور ایک روز قبل ہی روزہ اور عید کا اہتمام کرتے ہیں۔ ملاقات
تو ہوگئی، مگر ثمرآور ثابت نہ ہوسکی، مفتی صاحب کا یہی جواب تھا کہ اگر
مجھے کوئی شہادت ملی تو میں اس کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور ہوں گا۔ وزیر
صاحب امید وبیم کی صورت میں واپس آئے۔ چند ہی روز بعد رمضان المبارک کا
چاند دیکھنے کا موقع آگیا۔ قوم نے یہ خوشخبری بھی سن لی کہ مفتی صاحب نے
ایک روز پہلے اپنی شہادتیں اکٹھی کرنے کے لئے اجلاس ہی طلب نہ کیا۔ یوں
پاکستانیوں کو ایک دن رمضان المبارک کا آغاز کرنے کا موقع میسر آگیا، امید
ہے عید پر بھی یہی اظہار یکجہتی ہوگا اور آنے والے دیگر چاند بھی مل جل کر
ہی دیکھے جائیں گے ۔
رمضان المبارک کی آمد سے قبل جہاں چاند کو دیکھنے کے مراحل ہوتے ہیں، وہاں
اور بھی بہت سی سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ رمضان
المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے، اﷲ تعالیٰ مسلمانوں پر خاص نظر کرم فرماتا
ہے، قرآن پاک بھی اسی مہینے نازل ہوا، شبِ قدر بھی اسی میں ہے، اور نیکیوں
کا اجر بھی حد وحساب سے زیادہ ہوتا ہے۔ لوگ تراویح میں قیام کرتے، قرآن پاک
کی تلاوت کرتے اور عبادات میں رات دن گزارتے ہیں اور راہِ خدا میں خرچ کرکے
افطاریاں کرواکے بھی نیکی کمائی جاتی ہے۔ جب اجروثواب کی حدوحساب نہیں
ہوتی، تو اپنا تاجر طبقہ بھی ایکشن میں آجاتا ہے، اس کا فارمولا بھی یہی ہے
کہ اگر نیکیوں کے اجر میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے تو کیوں نہ اشیائے ضرورت
کی قیمت میں بھی بے حساب اضافہ کردیا جائے؟ یہی ہوتا ہے، جوتی کپڑے سے لے
کر خواتین کے بناؤ سنگھار تک، آلو پیاز سے لے کر آم او ر سیب تک، ہر چیز کی
قیمت میں من مانا اضافہ کیا جاتا ہے۔ تصور کیا جاتا ہے کہ سال بھر کی آمدنی
اسی ماہِ مبارک میں ہی وصول کی جانی ہے۔
تمام تر نیکیوں اور منافعوں کے باوجود معاشرے میں ایک بڑا تضاد پایا جاتا
ہے، یہی نیکیاں سمیٹنے والے تاجر جب اپنی دکان پر بیٹھے ہوتے ہیں تو ناجائز
منافع کے حصول کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان میں سے بہت سے ایسے
بھی ہیں جو عمرے کرتے اور روزے حرمین شریفین میں رکھتے ہیں، بڑی بڑی
افطاریاں کرتے ہیں، ادارے اور کمپنیاں بڑے ہوٹلوں میں مہنگی افطاریوں کا
اہتمام کرتی ہیں۔ ان کی نگاہ ذخیرہ اندوزی یا ناجائز منافع خوری پر نہیں
ہوتی، وہ اپنی نیکیوں پر فخر کرتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ وہ عوام کی ضرورت کی
چیزوں کی قیمت کم کرکے ثواب حاصل نہیں کرتے ، بلکہ زیادہ قیمت وصول کرکے
عمرے کے ذریعے ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں، جس میں کسی دوسرے کا کوئی فائدہ
نہیں ہوتا۔ کاش ہمارا یہ طبقہ رمضان میں ہر چیز کا منافع عام دنوں سے بھی
کم کرکے اورعوام کو ریلیف دینے کا اہتمام کرکے ثواب دارین کا حقدار قرار
پائے، نہ کہ لوٹ مار کے ذریعے اﷲ اور عوام کے ہاں گرفت میں آئے۔ |
|