اے میری عالمات بہنو!

جدید فاضلات کے نام کچھ گذارشات
پیاری فاضلات! اللہ نے آپ کو جو علم عطا کیا ہے یہ کوئی معمولی علم نہیں ہے بلکہ نوری علم کا حصہ ہے ۔اس تعلیم کے ذریعے آپ ماشاء اللہ وارثین ِ انبیاء علیہم السلام میں شامل ہوگئیں ۔اللہ آپ کو اس علم کی قدر کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسکی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین

اس علم کے حصول کے بعد ہماری سب سے پہلی اور ضروری ذمہ داری اسکی کلی طور پر حفاظت ہے۔ورنہ یہی علم جس کا حصول ایک عام اور گناہ گار سے انسان کو وارثین انبیاء علیہم السلام کے قافلے سے جوڑنے کا سبب ہے آخرت میں وبال اور ذلت و رسوائی کا سبب بن کر قعرِجہنم میں جھونکنے کا ضامن بن سکتا ہے۔اعاذنا اللہ منہ

اس علم کی حفاظت کے لئے ہمارے اساتذہ کرام کی نصائح کے ساتھ ساتھ بزرگوں کے معمولات بھی قابل غور ہیں جن میں سے ایک غالبا حضرت امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے جو کسی کے اس سوال پر دیا گیا کہ آپ اتنی احادیث کے حافظ ہیں تو کس طرح یاد رکھ لیتے ہیں ؟ فرمایا کہ بہت آسان طریقے سے یاد کرتا ہوں جو دل و دماغ میں نقش ہوجاتی ہے ، ایسے کہ جو حدیث مبارکہ پڑھتا ہوں اسکو فورا ہی عمل میں لے آتا ہوں بس اس طرح وہ کبھی ذہن سے نکلتی ہی نہیں ۔ یہ بہت ضروری ہے کہ جو علم ہم حاصل کرچکے اس پر عمل کرنا اپنی ذات پر واجب کرلیں ۔ایک عام انسان سے فرائضِ اسلامیہ کی پابندی نہ کرنے پر جو پوچھ گچھ ہوگی علماء سے اس سے زیادہ ہوگی ۔ اس لئے معاشرتی و عمومی گناہوں سے بچنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ مسلسل اصلاح و تزکیہ نفس سے تقوی کی اعلی معراج کا حصول ممکن ہے۔ اس ضمن میں ایک بہت ہی اچھا نسخہ ہے جو امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ "احیاء علوم الدین" میں ذکر کرتے ہیں ۔ فرمایا کہ " اصلاح نفس کے چار اصول ہیں ۔
1۔ مشارطہ :- اپنے نفس کے ساتھ شرط لگا لینا کہ کچھ بھی ہوجائے گناہ نہیں کروں گا ۔
2۔ مراقبہ:- یہ سوچنا اور غور و فکر کرنا کہ کہیں گناہ سرزد تو نہیں ہوگیا ۔
3۔ محاسبہ :- سارے دن کے معمولات کا محاسبہ کرے کہ آج کتنے گناہ سرزد ہوئے اور کتنی نیکیوں کی توفیق ملی۔
4۔ مواخذہ :- سارے دن کے معمولات کا محاسبہ کرنے کے بعد اپنے گناہوں پر اپنے نفس کو کچھ سزا دے اور بہتر یہ ہے کہ سزا کے طور پر نفس پر عبادت کا بوجھ ڈالے۔

اسکے ساتھ ہی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ دنیا والوں کی نظر میں تو آپ عالم ہوگئیں لیکن بقول مفتی رفیع عثمانی مدظلہ العالی کہ ابھی علم نہیں ملا بلکہ مطالعہ کی استعداد پیدا ہوئی ہے ۔ اب جتنا مطالعہ ہوگا اتنا علم حاصل ہوگا ۔ اسی طرح ایک اور کتاب "تحفۃ الالمعی" میں ہے کہ" اعلی استعداد والے ذہین طلباء کم سے کم دس سال ، درمیانہ درجے کی استعداد رکھنے والے کم سے کم پندرہ سال اور کمزور استعداد والے کم از کم بیس سال دن رات محنت کریں کتابی کیڑا بن جائیں مطالعہ کو لازم پکڑ لیں تب علم آنا شروع ہوگا "۔ اس وقت آپکو خود بھی معلوم ہوگا کہ واقعی علم تو اب آتا معلوم ہوتا ہے اس وقت تو کچھ نہیں تھا جب دنیا کی نظر میں عالم بنی تھیں ۔ اس سلسلے میں درسی کتب کے ساتھ ساتھ اصلاحی کتب کا مطالعہ بھی لازم پکڑیں حکیم اختر صاحب نور اللہ مرقدہٗ کی "روح کی بیماریاں اور انکا علاج " اور دیگر اصلاحِ نفس کی کتب کے ساتھ ساتھ "تحفۃ العلماء ، ملفوظات حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ " وغیرہ کا بتدریج مطالعہ سود مند رہے گا ،اس سے علم کی ترقی کی منازل طے ہوتی جائیں گی اور ساتھ ہی اصلاحِ نفس بھی ہوگی جو مدرسے کی فاضلات کے لئے زیادہ ضروری ہے ۔ عموما دورانِ تعلیم اصلاح کم اور رٹا زیادہ ہوتا ہے لہٰذا اپنی اصلاح کی بھرپور کوشش بیانات ،کتب اور علماء کی مجالس سے کریں۔ یقینا فائدہ رہے گا ان شاء اللہ۔

پیاری بہنو! اس علمِ نوری کے حصول کے ساتھ ہی ساتھ اس کی قدر کروانا بھی اب آپ کی ذمہ داری ہے ۔ اس کے کچھ طریقے ہیں جن پر سختی سے عمل پیرا ہوکر یقینا علمِ نبوت کی رسوائی و طعنہ زنی کا سبب بننے کے بجائے اس کی طرف عوام الناس کی مزید رغبت، شوق اور عزت کا سبب بنیں گی۔

عمومی طور پر عوام الناس کی رائے عالمات کے بارے میں کافی فکر انگیز ہے جس کا سبب یقینا ہم سب ہیں جنہوں نے عوام کو زبان کھولنے کے مواقع فراہم کئے ۔ ایک غیر عالمہ لڑکی دس غلطیاں بھی کرتی ہے کوئی اسکی تعلیم پر انگلی نہیں اٹھاتا ، جب کہ ایک عالمہ ایک غلطی کرکے بھی مطعون ٹہرتی ہے اسکے علم کا ، اسکی عالمہ ہونے کی سعادت کا، اسکے مدرسے جانے کا ، اسکی پڑھی ہوئی کتب کا نام لے کر طعنہ زنی کی جاتی ہے ۔ بلاشبہ اس طرح کے طعنے دینے والوں کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے کہ وہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے علوم کو حاصل کرنے والی لڑکی کی غلطی کو بشری غلطی سمجھنے کے بجائے عالمہ کی غلطی سمجھ کر مطعون کرتے ہیں ۔اللہ انکو ہدایت نصیب فرمائے ۔ لیکن اس ضمن میں ہماری ذمہ داری بھی ایک عام یعنی غیر عالمہ لڑکی سے زیادہ بنتی ہے ۔ تحصیل علم کی تکمیل کے بعد عموما تمام لڑکیوں کی عملی زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ اس وقت ہمیں نمونہ بننا ہے کیوں کہ سب کی نظروں میں اب ہم صرف ایک عام لڑکی نہیں بلکہ ایک عالمہ بن جاتی ہیں جن سے عوام کی توقعات عام لڑکیوں کی بنسبت زیادہ ہو جاتی ہیں ۔ اسوقت اگر ہم کوئی غلطی کر جائیں تو سب کو بہت کھَلتی ہے کیوں کہ کسی کو توقع نہیں ہوتی کہ ایک عالمہ ایسی غلطی کرسکتی ہے ۔ اور اکثر لوگ تو برملا اسکا اظہار بھی کرتے ہیں کہ عالمات بد زبان ، بدتمیز، پھوہڑ اور نہایت سست ہوتی ہیں ۔ اس چھاپ کو ختم کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔لوگوں کو عملی طور پر ایسا بن کر دکھانا کہ انکے ذہن سے اِن سنی سنائی باتوں کے نقوش مٹ جائیں اور وہ لوگ جو کہا کرتے ہیں ہم بیٹیوں کو عالمہ نہیں بنائیں گے ان کی آراء بدل جائیں یہ ہم اپنے اوپر واجب کرلیں ہے ۔ اگر ہم نے اس پر عمل نہ کیا تو کہیں روز محشر ہم اس جماعت میں نہ کھڑے کردئیے جائیں جو لوگوں کے لئے دین کی طرف راغب ہونے کا سبب بننے کے بجائے اس سے دوری کا سبب بنتے ہیں ۔اس سلسلے میں کچھ گزارشات ہیں جن کا ہم سب کو اپنی عملی زندگی میں ضرور بالضرور سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

پہلی بات تو یہ کہ شادی ہونا مشکل نہیں ہے شادی کو نبھانا مشکل ہے ۔ ایک لڑکی والدین کے گھر جیسی زندگی گزارتی ہے شادی کے بعد کی زندگی اس سے یکسر مختلف ، مشکل اور ذمہ داریوں سے بھرپور ہے بلکہ کسی حد تک تلخ بھی ہے ۔ اس میں کامیابی انسان کی دنیا کے لحاظ سے سب سے بڑی کامیابی ہے اور اسمیں ناکامی بہت سارے مسائل اور مشکلات کو جنم دینے کا سبب ہے۔شادی کو نبھانا جتنا ایک عام لڑکی کے لئے ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ میری عالمات بہنوں کے لئے ضروری ہے ۔ اللہ ہماری قوم پر رحم فرمائے نہ جانے وہ مائیں کہاں چلی گئیں جو بیٹیوں کو شادی کے وقت یہ بات گھول کر پلا دیا کرتی تھیں کہ بس اب آپکا اپنے شوہر کے گھر سے جنازہ ہی نکلنا چاہئیے ۔ یا وہ بیٹیاں ہی ناپید ہوگئیں جو ماؤں کی اس نصیحت کو ایسا پلو میں باندھتی تھیں کہ کچھ بھی ہوجائے طلاق و خلع کو اپنے لئے گالی کی مانند سمجھتی تھیں ۔شوہر کے گھر کو اپنا آخری ٹھکانا سمجھ کر بھرپور خدمت و اطاعت کر کے دل جیت ہی لیا کرتی تھیں۔وہ وقت ہے کہ طلاق اور خلع کو بچوں کا کھیل بنا لیا ہے اور ذرا ذرا سی بات میں صبرو برداشت سے اچھے وقت کا انتظار کرنے کے بجائے فوری حل تلاش کرنے نکل کھڑی ہوتی ہیں ۔

اس ضمن میں سب سے پہلی اور اہم چیز عزت و احترام ہےاور یہی چیز موجب ِاطاعت بھی بنتی ہے۔ شوہر کا رتبہ تو احادیث مبارکہ میں بیان فرمایا ہی گیا ہے جنکا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو وہ شوہر ہوتا جس کے لئے بیوی کو حکم دیا جاتا کہ اسکو سجدہ کرے۔اس سے اور اس طرح کی متعدد احادیث مبارکہ سے شوہر کے رتبے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ لہذا اسکا ادب و احترام اور اسکی اطاعت واجب ہے ۔لیکن ساتھ ہی ساتھ اسکے دل میں جگہ بنانے کے لئے اس کے والدین اور دیگر لوگوں کی بھی عزت کرنا ضروری ہے ۔ ان کی اتنی ہی عزت کریں جتنی آپ اپنے شوہر سے اپنے والدین کی عزت کروانا چاہیں ۔ اور یقینا ہر بیٹی کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکا شوہر اسکے والدین کی ویسی ہی عزت کرے جیسی بیٹی کے خود اپنے دل میں انکی عزت و احترام ہے ،اس کے لئے پہلے آپ کو خود عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا اس کے بعد شوہر اس کا بدلہ دے گا اور آپ کو دیکھ کر آپ کے والدین کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرے گا جیسا آپ اسکے والدین کے ساتھ کرتی ہیں ۔ لہذا انکی عزت و احترام کو اپنا شعار بنالیں اور اطاعت سے انکے دل میں اور انکے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کے دل میں گھر بنائیں ۔

دوسری اہم چیز ہے خدمت ۔اس ضمن میں یاد رکھیں کہ نبی علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے کہ الانسان عبد الاحسان ۔ مفہوم یہ کہ" ہر انسان احسان کا غلام ہوتا ہے "۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بجا و برحق ہے ۔ اناانی فطرت میں بھی یہ بات ہے کہ جس پر کوئی احسان کیا جاتا ہے وہ شخص اپنے محسن کا غیر ارادی و غیر شعوری طور پر بہت زیادہ لحاظ کرنے لگتا ہے ، اس لئے ناممکن ہے کہ آپ سسرال والوں کی خدمت کریں اور وہ ایک وقت آنے پر آپ کے گرویدہ و ممنون نہ ہوں ، لہذا خدمت کو اپنے اوپر لازم کرلیں ۔ اس سوچ کو ذہن و دل سے کھرچ کھرچ کر نکال دیں کہ آپ پر شوہر یا سسرال والوں کی خدمت واجب نہیں ۔ ہمارے معاشرے کا مزاج و ماحول جس طرح کا ہے اس سے اختلاف کرنے کی صورت میں معاشرہ کبھی نہیں بدلے گا البتہ ہماری زندگی مسائل و مصائب سے لبریز ہوجائے گی اور اس سلسلے میں اکثر علماء کے نزدیک عورت کا گھر کے کام کاج نہ کرنے کی صورت میں گھر بگڑنے کا اندیشہ ہو تو خدمت کرنا واجب ہوجاتی ہے۔نیز متعدد احادیث مبارکہ میں گھر کا کام کرنے والی عورت کی فضیلت اس کے اجر و ثواب کی بشارت اور بندوں کی مدد و نصرت اللہ کی مدد و نصرت کے آنے کا سبب ہونے کی ترغیبات پر ہیں لہذا یہ سوچ کریا کہہ کر کہ" ہماری ذمہ داری نہیں " کام کاج اور خدمت نہ کرکے مطعون ٹہرنے اور گھر ٹوٹنے کی نوبت آنے اور زیادہ مسائل کا شکار ہونے سے لاکھ درجے بہتر یہ ہے کہ اس نیت سے خدمت کرکے مخلوق کے دل جیت کر خالق کی بھی محبوب بن جائیں کہ اللہ رب العزت بندوں کو خوش کرنے والے سے بہت خوش ہوتے ہیں ۔یہاں تک کہ ان کبیرہ گناہوں کے مرتکبین کو بھی اس وقت بغیر سزا دئیے بخش دیں گے اور جنت میں داخل فرما دیں گے جب وہ اللہ کی مخلوق کے حقوق معاف کردیں گے ۔ تو محض اس نیت سے خدمت کریں کہ اللہ کریم اپنی مخلوق کی خدمت کے صلے میں ہمیں بخشش عطا فرمادیں اور اس حدیث مبارکہ کی بشارت کو حاصل کرلیں "والله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه"۔ مفہوم: جب تک کوئی بندہ اپنے بھائی کی مدد و نصرت میں لگا رہتا ہے اس وقت تک اللہ رب العزت اپنے اس بندے کی مدد و نصرت میں لگے رہتے ہیں۔

تیسری اہم ترین چیز ہے زبان بندی۔اختلاف یا لڑائی جھگڑے کی صورت میں اپنے اوپر زبان بندی کو واجب کرلیں ۔ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ جب بھی کوئی لڑکی نئی زندگی کی ابتداء کرتی ہے اسکو شروع کے چند سال کچھ مشکلات ضرور پیش آتی ہیں وہی چند سال اسکا کڑا امتحان ہیں جس میں کامیابی صرف دنیا کی ہی نہیں بلکہ ان شاء اللہ آخرت کی بھی سرخروئی کا سبب بنے گی ۔ اس وقت حکمت و مصلحت سے کام لینے کی صورت میں آگے مستقبل میں عزت و محبت ملنے کا سو فیصد یقین رکھیں ۔ بلاشبہ اس موقع پر صبر کچھ مشکل ضرور ہے لیکن اسکا پھل بہت میٹھا ہوتا ہے ، یہ صرف کہاوت نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ بلکہ میرا تجربہ ہے کہ جتنا کڑوا صبر ہوگا اتنا میٹھا اسکا پھل ہوگا ۔اس لئے زبان بندی کو لازم پکڑیں چاہے آپکو الفاظ سے قتل ہی کیوں نہ کردیا جائے پلٹ کر تلخ جواب دینے سے گریز کریں ، یقینا دوران تعلیم آپ نے یہ حدیث مبارکہ بھی پڑھی ہوگی جسکا مختصرا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو سب و شتم کر رہا تھا صدیق اکبر خاموش تھے اور نبی علیہ السلام یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے ۔ بالآخر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کچھ بول پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار کیا اور انکو بتایا کہ جب تک تم خاموش تھے تمہاری طرف سے تمہارا دفاع فرشتے کر رہے تھے ،جیسے ہی تم بولے وہ چلے گئے ۔ تو حقیقت ہے کہ جو شخص کسی جھگڑے یا اختلاف کے وقت محض اللہ کی رضا کے لئے خاموشی اختیار کرتا ہے اسکی طرف سے اللہ تعالی خود جھگڑالو کو کافی ہوتے ہیں ۔تو بس اس نیت سے ہر ایسے موقعے پر خاموشی کو اپنا شعار بنا لیں ۔اوریہ یاد رکھیں جو پریشانی ہمارے لئے لکھی ہے وہ تو آنی ہی ہے اور ہمیں طوعا او کرھا اس کا سامنا کرنا ہی کرنا ہے۔اب یہ ہماری صوابدید پر ہے کہ اس پریشانی کے وقت صبر کرکے مأجور ٹہرتے ہیں یا جزع و فزع کرکے مطعون۔لہذا اگر اپنا بدلہ خود لینے اور اسی وقت حساب برابر کرنے کی کوشش کریں گی تو نہ اللہ کی طرف سے اجر و ثواب اور صلے کی مستحق ہوں گی اور نہ ہی سسرال والوں کے دل میں عزت بن پائے گی۔بلکہ ہمیشہ کے لئے دل برے ہوجائیں گے ۔لہذا اس وقت ذرا سی مصلحت اور کچھ صبر طویل الاثر رہے گا ان شاء اللہ۔

چوتھی اہم چیز یہ کہ اگر آپکو سسرال دین دار نہیں ملا تو ان پر جاتے ہی ایک دم سے احکام نافذ کرنے کی کوشش ہرگز نہ کریں بلکہ بہت سوچ سمجھ کر حکمت و مصلحت کے ساتھ پہلے اس گھر کی فضا کو اپنے حق میں سازگار کریں ۔اپنے تمام معمولات بشمول شرعی پردہ کا اہتمام کریں اس کے بعد اگلے مرحلے میں کچھ وقت گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ سمجھداری سے ذہن بنانے کی کوشش کریں ۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ خود جتنا عمل کریں گی اتنا ہی لوگوں پر اثر ہوگا ۔پہلے خود عملی نمونہ بن کر دکھائیں پھر اوروں کو تلقین و تنبیہ کے بجائے مشورہ کی صورت دین کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں ۔ اس طرح کہ کسی کویہ محسوس نہ ہو کہ آپ وعظ و نصیحت کر رہی ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ ذہن میں رہے کہ جو بات محبت و نرمی سے منوائی جا سکتی ہے وہ تلخی،طنز یا سخت انداز سے کسی صورت نہیں منوائی جا سکتی ۔

آخر میں ایک بہت قیمتی یاد داشت آپ سب تک بھی پہنچاتی چلوں کہ ہماری ختم بخاری کے وقت شیخ الحدیث استاذ العلماء حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے تمام طالبات کو کچھ نصائح سے نوازا تھا ان میں ایک یہ بھی تھی کہ آج سب مجھ سے ساس اور نندوں کو مٹھی میں کرنے کا گر سیکھ لو ۔ دنیا کے تعویذ ،گنڈے ،تدابیر سب کچھ اس عظیم گُر کے آگے ہیچ ہیں وہ یہ کہ زبان بند رکھنا ، خدمت کو اپنا شعار بنالینا، عزت و احترام کو ضروری سمجھنا اور ہر معاملے میں انکی رائے کو اپنی رائے پر مقدم رکھنا ایسا کرنے سے وہ چند ہی سالوں میں آپکی ایسی گرویدہ ہوجائیں گی کہ آپ خود حیران رہ جائیں گی ۔
 
Latafat Naeem Shaikh
About the Author: Latafat Naeem Shaikh Read More Articles by Latafat Naeem Shaikh: 4 Articles with 5704 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.