رہنمائے رمضان

ڈاکٹر مولانا محمد عبدالسمیع ندوی

روزے کی اہمیت :روزہ ضبطِ نفس اور روح کی بالیدگی کے لئے خاص طور پر مفید اور مؤثر ہے۔ انسان کی غلط روی اور غلط کاری کا ایک بہت بڑا سبب اُس کی شکم سیری ہوتا ہے۔ جب پیٹ خالی ہو تو کمر بھی خمیدہ ہوتی ہے اور گردن بھی جھکی ہوئی۔ اسلام نے روزے کو فرض قرار دے کر نفس کی اس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا : الصِّیَام جُنَّۃٌ (ترمذی) روزے ڈھال ہیں۔ روزے کی اس اسپرٹ کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ انسان چھوٹی بڑی تمام لغزشوں سے بچ سکے ، ورنہ اگر روزے کے باوجود وہ نفس پر قابو نہ رکھے تو وہ روزہ نہیں فاقہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کو یہ عبادت کتنی پسند ہے ، اس کا اندازہ اس حدیث قدسی سے ہوتا ہے۔ الصَّوْمُ لِی وَأنَا أجزِیُٔ بِہِ (بخاری و مسلم) روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔
سحری :
صبح صادق سے پہلے جو کچھ کھایا پیا جائے اُسے سحری کہتے ہیں۔ سحری کھانا سنت ہے۔ خواہش نہ ہونے کے باوجود بھی سحری کی نیت سے کچھ نہ کچھ کھا پی لینا چاہئے تاکہ سنت کے ثواب سے محرومی نہ رہے۔ رسولﷺ خود بھی سحری کھاتے تھے اور صحابہ کرامؓ کو بھی سحری کھانے کی تاکید فرماتے تھے۔ حضورﷺ نے فرمایا : ’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں بڑی برکت ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم) ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں یہی فرق ہے کہ ہم سحری کھاتے ہیں اور وہ سحری نہیں کھاتے۔ (مسلم)
روزہ کی نیت : نَوَیْتُ بِصَوْمِ غَدٍ لِلّٰہِ تَعَالیٰ مِنْ رَمَضَانْ۔
روزے کے مفسدات :
جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے انھیں مفسداتِ صوم کہتے ہیں۔ مفسدات صوم کی دو قسمیں ہیں۔ (۱) وہ مفسدات جن سے روزوں کی قضا واجب ہوتی ہے مگر کفارہ عائد نہیں ہوتا۔ (۲) وہ مفسدات جن سے روزے کی قضا واجب ہوتی ہے اور کفارہ بھی عائد ہوتا ہے۔
وہ مفسداتِ روزہ جن سے صرف قضا واجب ہوتی ہے :
(۱) کوئی ایسی چیز کھا لینا جس کا شمار غذا یا دوا میں نہ ہو ۔ جیسے لوہا ، کنکر وغیرہ یا کوئی ایسی چیز کھا لینا جو غذا کے حکم میں ہو ، مگر وہ غذا کی طرح استعمال نہ کی جاتی ہو جیسے کچا چاول ، آٹا وغیرہ۔ (۲) کھجور یا گوشت کا کچھ حصہ دانتوں کے بیچ میں رہ گیا اور اسے کھا لیا۔ اگر اُس کی مقدار چنے کے برابر ہے تو قضا واجب ہوگی اور اگر چنے سے کم ہے تو روزہ فاسد نہ ہوگا۔ (۴) اگر کلی کرتے وقت یا ناک میں پانی ڈالتے وقت قصداً پانی حلق میں پہنچ جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔ (۵)خشک بادام ، اخروٹ ، انڈا خول سمیت ، انار چھلکے سمت نگل لینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا ، صرف قضا واجب ہوگی۔ کفارہ لازم نہیں آئے گا۔ (۶) کان میں تیل ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ (۷) سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد یہ سمجھ کر کھا پی لیا کہ ابھی سحری کا وقت ہے بعد میں معلوم ہوا کہ سحری کا وقت ختم ہوچکا تھا تو اس سے قضا واجب ہوگی۔ (۸) بھولے سے کھا پی لیا پھر یہ سمجھ کر کہ اب تو روزہ ٹوٹ گیا ، کچھ کھا پی لیا تو اس صورت میں بھی روزے کی صرف قضا واجب ہوگی۔
وہ مفسدات روزہ جن سے قضا اور کفارہ دونوں لازم آتے ہیں :
نوٹ : صرف رمضان کا روزہ بلاعذر توڑ دینے سے کفارہ اور قضا واجب ہوتا ہے۔ رمضان کے علاوہ کسی دوسرے روزے کے توڑنے پر کفارہ واجب نہیں ہوتا۔
(۱) اگر کسی نے جان بوجھ کر کچھ کھا پی لیا یا مباشرت کرلی تو قضا بھی واجب ہوگی اور کفارہ بھی دینا ہوگا۔ (۲) روزے میں کوئی کام کیا مثلاً سرمہ لگایا ، تیل کی مالش کی اور یہ سمجھا کہ روزہ ٹوٹ گیا ، اس لئے قصداً کھا پی لیا تو قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوں گے۔ (۳) اگر ایک ہی رمضان میں کئی روزے توڑ دیئے تو سب کے لئے ایک ہی کفارہ ہوگا۔ ہر روزہ کے لئے الگ الگ کفارہ واجب نہیں۔
کفارہ کیا ہے ؟
کفارہ یہ ہے کہ مسلسل ۶۰ دن تک روزے رکھے اور درمیان میں کوئی روزہ نہ چھوڑا جائے ورنہ پھر ازسرنو مسلسل ۶۰ روزے رکھنے ہوں گے۔ اگر روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ۶۰ مسکینوں کو صدقہ فطر کے برابر غلہ یا اس کی قیمت ادا کرے۔
جن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا :
(۱) بھولے سے کچھ کھا پی لیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (۲) اگر کلی کرتے وقت حلق میں پانی چلا گیا اور اس وقت روزہ یاد نہیں تھا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ (۳) اگر دانتوں میں کھانے کی کوئی چیز لگی رہ گئی اور وہ نگل لی اور اس کی مقدار چنے سے کم ہے تو روزہ فاسد نہ ہوگا۔ (۴) آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (۵) اگر کوئی ایسی چیز جو غذا یا دوا سے تعلق نہ رکھتی ہو ، غیراختیاری طور پر حلق کے اندر چلی جائے تو روزہ فاسد نہ ہوگا جیسے مکھی ، مچھر یا گرد و غبار وغیرہ۔ (۶) اگر آنکھ سے آنسو نکلنے لگیں اور ایک دو قطرے منہ میں چلے جائیں تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ، لیکن اگر زیادہ مقدار میں آنسو کا پانی منہ کے اندر چلا جائے اور روزہ دار نگل لے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ (۷) بلا ارادہ منہ بھر قئے کرنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا بشرطیکہ قئے اس کے حلق میں واپس نہ پہنچے۔
افطار : سورج ڈوبنے کے بعد روزہ کھولنے کو افطار کہتے ہیں۔
دعائے افطار : اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ فَتَقَبَّلْ مِنّی۔
افطار میں جلدی کرنا سنت ہے۔ جب سورج ڈوبنے کا یقین ہو جائے تو فوراً روزہ افطار کرلینا چاہئے۔ خوامخواہ دیر کرنا مناسب نہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا : ’’دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہے رہیں گے۔ کیونکہ یہودونصاریٰ افطار میں تاخیر کرتے ہیں۔ (ابن ماجہ)
افطار کس چیز سے کرنا چاہئے :
ہر جائز و حلال چیز سے افطار کرسکتے ہیں۔ البتہ چھوہارے اور کھجور سے افطار کرنا مستحب ہے اور اگر یہ چیزیں میسر نہ ہوں تو پانی سے افطار کرنا مستحب ہے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نماز مغرب پڑھنے سے پہلے چند کھجوروں سے افطار کرتے اور اور کھجوریں نہ ہوتیں تو چھوہاروں سے افطار کرتے اور اگر چھوہارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ نوش فرماتے۔ (ترمذی)
افطار کرانے کا اجر و ثواب :
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر کوئی شخص رمضان میں کسی کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کی مغفرت اور دوزخ سے چھٹکارے کا سبب ہے اور اس کے لئے اتنا ہی اجر ہے جتنا روزہ دار کے لئے ہے اور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی بھی واقع نہیں ہوگی۔
اے روزہ دار بھائیو ! خوب اچھی طرح جان لو۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا بدل کوئی دوسری عبادت نہیں ہوسکتی۔ اس لئے ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ بڑے ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ روزے رکھے اور کسی شدید بیماری یا عذر شرعی کے بغیر کبھی روزہ نہ چھوڑے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جس شخص نے کسی بیماری یا شرعی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑا تو عمر بھر کے روزے رکھنے سے بھی اُس ایک روزہ کی تلافی نہ ہوسکے گی۔‘‘ (ترمذی) چونکہ روزوں کے فرضیت کی غرض و غایت ہی انسان کی زندگی کو پاکیزہ بنانا ہے ، اس لئے ہر حال میں عموماً اور روزہ کی حالت میں خصوصاً ہر برائی سے دور رہنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو اپنی زبان سے کوئی بے حیائی اور بے شرمی کی بات نہ نکالے اور نہ شور ہنگامہ کرے اور اگر کوئی اس سے گالی گلوج کرنے لگے یا لڑائی پر آمادہ ہو تو اس روزہ دار کو سوچنا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں (بھلا میں کیسے گالی کا جواب دے سکتا ہوں یا لڑ سکتا ہوں۔) (بخاری و مسلم) مزید برآں حضورﷺ نے فرمایا : ’’جس شخص نے روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہتا ہے۔ (بخاری)
تراویح :
۲۰رکعت تراویح سنت مؤکدہ ہے۔ حضرت عمرؓ کا اکابر صحابہؓ کی موجودگی میں ۲۰ رکعات تراویح جاری کرنا صحابہ کرام کا اس پر نکیر نہ کرنا اور عہدِصحابہ سے لے کر آج تک شرقاً و غرباً ۲۰ رکعات تراویح کا مسلسل معمول رہنا اس عمل کی دلیل ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ دین میں داخل ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمْ الَّذِیْ اِرْتَضَی لَھُمْ (اﷲ تعالیٰ خلفائے راشدین کے لئے اُن کے اس دین کو قرار و تمکین بخشیں گے جو اﷲ تعالیٰ نے اُن کے لئے پسند فرما لیا ہے۔)
اسد بن عمر و امام ابویوسفؒ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام ابوحنیفہؒ سے تراویح اور حضرت عمرؓ کے فعل کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے اور حضرت عمرؓ نے اس کو اپنی طرف سے اختراع نہیں کیا۔ نہ وہ کوئی بدعت ایجاد کرنے والے تھے ، انھوں نے جو حکم دیا وہ کسی اصل کی بناء پر تھا ، جو ان کے پاس موجود تھی اور رسول ﷺ کے کسی عہد پر مبنی تھا۔ حضرت عمرؓ نے یہ سنت جاری کی اور لوگوں کو ابی بن کعب پر جمع کیا ، پس انہوں نے تراویح کی جماعت کرائی۔ اس وقت صحابہ کرامؓ کثیر تعداد میں موجود تھے۔ حضرت عثمانؓ ،حضرت علیؓ ، حضرت ابن مسعودؓ ،حضرت عباسؓ ،حضرت ابن عباسؓ ، حضرت طلحہؓ ، حضرت زبیرؓ، حضرت معاذؓ اورحضرت ابی بن کعبؓ سب موجود تھے ، مگر ایک نے بھی اس کو رد نہیں کیا بلکہ سب نے حضرت عمرؓ سے موافقت کی اور اس کا حکم دیا۔
جیسا کہ مذکورہ بالا باتوں سے معلوم ہوچکا ہے کہ ۲۰ رکعات تراویح تین خلفائے راشدین کی سنت ہے اور سنت خلفائے راشدین کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : اِنَّہُ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَیْ اِخْتِلَافًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ تَمَسَّکُوْا بِھَا وَعَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ وَاِیَّا کُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ (رواہ احمد و ابوداؤد و الترمذی و ابن ماجہ ، مشکوۃ ۔ ص۳۰) جو شخص تم میں سے میرے بعد جیتا رہا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت کو اور خلفائے راشدین مہدیین (جو راہِ راست پر اور راہ یاب ہیں) کی سنت کو لازم پکڑو ، اسے مضبوط تھام لو اور دانتوں سے مضبوط پکڑو اور نئی نئی باتوں سے پرہیز کرو کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
ا س حدیث پاک سے سنت خلفائے راشدین کی پیروی کی تاکید معلوم ہوتی ہے اور یہ کہ اس کی مخالفت گمراہی ہے۔تراویح کی رکعتوں کی تعداد کے سلسلوں میں دونوں فریقوں کا اپنے مسلک کو مبنی برحق اور فریق مخالف کو غلط ٹھہرانا غلط ہے۔ کیونکہ ہر فریق کے پاس جو دلیل ہے وہ برحق ہے۔ اختلاف و انتشار بری بات ہے۔ اتحاد امت کی خاطر اپنے اپنے مسلک پر رہتے ہوئے اتحادی عمل جو فرض ہے اُس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔رہی بات ۲۰ رکعتوں کی، وہ زیادہ بہتر اس لئے معلوم ہوتی ہے کہ ماہِ رمضان عبادت کے لئے موسم بہار کی حیثیت رکھتا ہے جس میں ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ۷۰ فرضوں کے برابر ہو جاتا ہے۔جو لوگ سرے سے تراویح نہیں پڑھتے انھیں عبادت کے لئے مسجد میں نہ لانا ، اور جو لوگ ۲۰ رکعت پڑھتے ہیں انھیں یہ کہنا کہ آٹھ رکعت پڑھو اور گھروں کو جاؤ ، تو کیا یہ بات معقول اور دانشمندی کی ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔
تراویح میں تیز رفتار حافظ کے پیچھے قرآن سننا :
تراویح کی نماز میں عام نمازوں کی بہ نسبت ذرا تیز پڑھنے کا معمول تو ہے مگر ایسا تیز پڑھنا کہ الفاظ صحیح طور پر ادا نہ ہو اور سننے والوں کو سوائے یعلون تعلمون کے کچھ سمجھ میں نہ آئے ، حرام ہے۔ ایسی تراویح کی بجائے ’’الم ترکیف‘‘ سے تراویح پڑھ لینا بہتر ہے۔
دو تین راتوں میں مکمل قرآن کر کے بقیہ تراویح چھوڑ دینا :
تراویح پڑھنا مستقل سُنّت ہے اور تراویح میں پورا قرآن سننا الگ سُنّت ہے ۔ جو شخص ان میں سے کسی ایک سُنّت کا تارک ہوگا وہ گنہگار ہوگا۔
عورتوں کی تراویح :
کوئی حافظ محرم ہو تو اُس سے گھر پر قرآن کریم سن لیا کریں او رنامحرم ہو تو پس پردہ رہ کر سنا کریں۔ اگر گھر پر حافظ کا انتظام نہ ہوسکے تو : ’’الم ترکیف‘‘ سے تراویح پڑھ لیا کریں۔
اعتکاف :
حضرت حسینؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں (آخری دس دن کا اعتکاف کیا) اُس کو دو حج اور دو عمرہ کا ثواب ہوگا۔ (بیہقی و ترغیب) حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جس نے اﷲ تعالیٰ کی رضاجوئی کی خاطر ایک دن کا بھی اعتکاف کیا ، اﷲ تعالیٰ اُس کے اور دوزخ کے درمیان ایسی تین خندقیں بنا دیں گے کہ ہر خندق کا فاصلہ مشرق و مغرب سے زیادہ ہوگا۔ رمضان المبارک کے آخری دس دن مسجد میں اعتکاف کرنا بہت ہی بڑی عبادت ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم)
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت کفایہ ہے ۔ اگر محلے کے کچھ لوگ اس سنت کو ادا کرے تو مسجد کا حق جو اہل محلہ پر لازم ہے ادا ہو جائے گا اور اگر مسجد خالی رہی اور کوئی شخص بھی اعتکاف میں نہ بیٹھا تو سب محلے والے لائق عتاب ہوں گے اور مسجد کے اعتکاف سے خالی رہنے کا وبال پورے محلے والوں پر پڑے گا۔
جس مسجد میں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو اُس میں اعتکاف کے لئے بیٹھنا چاہئے اور اگر مسجد ایسی ہو جس میں پنج وقتہ نماز نہ ہوتی ہو اُس میں نماز باجماعت کا انتظام کرنا اہل محلہ پر لازم ہے۔
عورت اپنے گھر میں ایک جگہ نماز کے لئے مقرر کر کے وہاں اعتکاف کرے۔ اس کو مسجد میں اعتکاف کرنے کا ثواب ملے گا۔ اعتکاف میں قرآن مجید کی تلاوت ، درودشریف ، ذکر و تسبیح ، دینی علم سیکھنا و سکھانا اور انبیاء کرام ، صحابہ کرام اور بزرگانِ دین کے حالات پڑھنا ، سننا اور سنانا اپنا معمول رکھے ، غیرضروری بات کرنے سے پرہیز کریں۔
زکوۃ :
زکوۃ ایک مالی عبادت ہے۔ صورۃً اگرچہ یہ ایک طرح کا ٹیکس معلوم ہوتی ہے مگر نماز ، روزہ کی طرح ایک فرض عبادت اور اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ نماز اور زکوۃ دین میں اتنا اہم مقام رکھتے ہیں کہ جس نے ان دونوں کو اچھی طرح ادا کرلیا۔ اس نے گویا پورے دین پر عمل کرنے کی پکی ضمانت اور عملی شہادت فراہم کردی۔ وہ اس طرح کے دین کے احکام کی اصولی تقسیم دو طرح کی ہوسکتی ہے۔ ایک قسم اُن احکام کی ہوگی جن کا تعلق اﷲ کے حقوق سے ہے۔ دوسری قسم اُن احکام کی ہوگی جن کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے۔ نماز حقوق اﷲ کا مغز ہے اور زکوۃ حقوق العباد کا۔ جس طرح اگر کوئی شخص واقعی نماز کا حق ادا کردے تو ممکن ہی نہیں وہ بندگانِ خدا کے حقوق پامال کرتا رہے۔ قرآن کریم بار بار اس حقیقت کی تلقین کرتا ہے کہ دین و ایمان میں زندگی اسی وقت آسکتی ہے جب اﷲ کی محبت ہر دوسری محبت پر غالب اور آخرت کی طلب ہر دوسری طلب پر مقدم ہو۔ نماز اور زکوۃ انسان کو ایسا ہی خداپرست اور آخرت پسند بنانے کی سب سے زیادہ مؤثر تدبیریں ہیں۔ نماز انسان کو خدا اور آخرت کی طرف لے جاتی ہے اور زکوۃ اُس کو دنیا کی طرف لڑھک جانے سے محفوظ رکھتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کا راستہ کٹھن اور چڑھائی کا راستہ ہے ، تو یہ دونوں چیزیں اس راستے پر سفر کرنے والے انسانی عمل کے دو انجن ہیں۔ نماز کا انجن اسے آگے سے کھینچتا ہے اور زکوۃ کا انجن اسے پیچھے سے ڈھکیلتا ہے اور اس طرح گاڑی آگے بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔
زکوٰۃ کی مقدار :
زکوٰۃ کی قانونی و لازمی مقدار مختصراً حسب ذیل ہے۔ پیداوار : ٭زرعی پیداوار اگر آبپاشی کی ضرورت پیش آئی ہو تو ۵فیصد اور آبپاشی کی ضرورت پیش نہ آئے بلکہ بارش سے سیراب کی گئی ہو تو ۱۰فیصد ۔ ٭ جمع شدہ رقم : زیورات اور مالِ تجارت پر ۵ء۲ فیصد ۔ (2.5% ) ٭ جنگل کے چارے پر پلنے والے جانوروں پر ۵ء۱ تا ڈھائی فیصد (1.5% تا 2.5% ) ٭ معدنیات اور دفینوں میں ۲۰ فیصد (20%) ۔
اتنی زکوٰۃ ادا کرنا تو ہر صاحب نصاب مالدار انسان پر فرض ہے لیکن اسلام کی تلقین یہ ہے کہ اس قانونی حد پر رکا نہ جائے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھنے کی رضاکارانہ طورپر کوشش کی جائے ، جو مقدار قانونی طور پر متعین کردی گئی ہے۔ اسے زکوۃ کہتے ہیں اور اس سے آگے اپنے طور پر جو کچھ خرچ کیا جائے اسے صدقہ یا انفاق فی سبیل اﷲ (یعنی اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا )کہتے ہیں۔
زکوٰۃ کے مصارف :
l فقراء : یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس کچھ مال تو ہو مگر ان کی ضروریات کے لئے کافی نہ ہو، تنگدستی میں گذربسر کرتے ہوں اور کسی سے مانگتے نہ ہوں۔
l مساکین : یہ بہت تباہ حال لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔ بعض صحابہ کرام ایسے لوگوں کو بھی مساکین کے زمرے میں پیش کرتے ہیں جو کمانے کی طاقت تو رکھتے ہوں مگر انھیں روزگار نہ ملتا ہو۔
l صیغۂ زکوۃ کے کارکن : ان سے وہ لوگ مراد ہیں جنھیں حکومت زکوہ وصول کرنے کے لئے مقرر کرے۔ ان کو زکوہ کی مد سے تنخواہیں دی جائیں گی۔
l مؤلفۃ القلوب : ان سے وہ لوگ مراد ہیں جن کواسلام کی حمایت کے لئے یا اسلام کی مخالفت سے روکنے کے لئے روپیہ دینے کی ضرورت پیش آئے۔ اگر کوئی نومسلم اپنی قوم کو چھوڑ کر آنے کی وجہ سے بیروزگار ہوگیا ہو تو اس کی مدد بھی زکوۃ کی رقم سے کی جاسکتی ہے۔
l غلامی سے رہائی دلانے کے لئے : اگر کوئی شخص غلامی کے بندھن سے نکلنا چاہتا ہو تو اسے زکوۃ دی جاسکتی ہے تاکہ وہ اپنے مالک کو روپیہ دے کر اپنی گردن چھڑالے۔ آج کل غلامی کا رواج نہیں ہے ، البتہ وہ بے قصور نوجوان جو فرضی مقدمات اور دہشت گردی کے الزام میں قیدوبند کی صعوبتوں سے دوچار ہیں انھیں قانونی طریقہ سے رہائی کے لئے کی جانے والی کوششوں میں خرچ کی جانے والی رقم میں اپنی زکوۃ دی جاسکتی ہے۔
l قرض دار : جس شخص پر اتناقرض ہو کہ اسے ادا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب سے کم مال بچتا ہو اسے بھی زکوۃ دی جاسکتی ہے۔
l فی سبیل اﷲ : یہ لفظ تمام نیک کاموں کے لئے استعمال ہوتا ہے ، لیکن اس سے مراد اسلام کی سربلندی کے لئے جدوجہد میں مالی اعانت کرنا ہے۔دینی مدارس؟ اور یتیم خانے اس کے بہترین مصارف ہیں۔
l مسافر : مسافر کے پاس اُس کے وطن میں کتنا ہی مال کیوں نہ ہو لیکن دورانِ سفر اگر محتاج ہوگیا ہو تو اُس کی زکوۃ کی رقم سے مدد کی جاسکتی ہے۔
زکوۃ کے اہم مسائل :
٭ اگر کسی شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے (گرام) چاندی یا ساڑھے سات تولہ (گرام) سونا ہے یا اتنی مالیت کا نقد روپیہ ہے یا پھر اتنی مالیت کا مالِ تجارت ہے تو اس پر زکوۃ فرض ہے۔
٭ اگر کسی شخص کے پاس کچھ چاندی ہو ، کچھ سونا ہو یا کچھ روپیہ یا کچھ مالِ تجارت ہو اور ان سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو تو اس پر بھی زکوۃ فرض ہوگی۔یا اتنا سونا ہو جس کی قیمت میں ساڑھے باون تولے چاندی آجاتی ہو تو یا اسی کے بقدر روپیہ پیسہ ہو تو بھی زکوۃ فرض ہوگی۔
٭ کارخانے اور فیکٹری وغیرہ کی مشینوں پر زکوۃ نہیں، لیکن ان میں جومال تیار ہوتا ہے اس پر زکوۃ ہے۔ اسی طرح جو خام مال کارخانے میں موجود ہو اس پر بھی زکوۃ ہے۔
٭کارخانوں اور ملوں کے حصص پر بھی زکوۃ واجب ہے جبکہ اِن حصص کی مقدار بقدر نصاب ہو یا دوسری قابل زکوۃ چیزوں کو ملا کر نصاب بن جاتا ہو۔ البتہ مشنری اور فرنیچر وغیرہ استعمال کی چیزوں پر زکوۃ نہیں ہوگی اس لئے ہر حصہ دار کے حصہ میں اس کی جتنی قیمت آتی ہے اس کو مستثنیٰ کر کے باقی رقم کی زکوۃ ادا کرنا ہوگی۔
٭ سونا چاندی ، مال تجارت اور کمپنی کے حصص کی جو قیمت زکوۃ کا سال پورا ہونے کے دن ہوگی اس کے مطابق زکوۃ ادا ہوگی۔
٭ سال کے اول و آخر میں نصاب کا پورا ہونا شرط ہے۔ اگر درمیان میں رقم کم ہو جائے تو اس کا اعتبار نہیں۔ مثلاً ایک شخص سال شروع ہونے کے وقت ۹۰۰۰ روپے کا مالک تھا۔ تین مہینے اس کے پاس ۴۵۰۰ روپے رہ گئے۔ چھ مہینے بعد ۵۰۰ ۱۰روپے ہوگئے اور سال کے ختم پر بارہ ہزار روپے کا مالک تھا تو سال پورا ہونے کے وقت اس پر بارہ ہزار روپے کی زکوۃ واجب ہوگی۔ درمیان سال میں اگر رقم بڑھتی رہی ، اس کا اعتبار نہیں۔
نوٹ : موجودہ زمانے میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کیا ہوتی ہے معلوم کرلیں۔
٭ جو آدمی ایک بار نصاب کا مالک ہو جائے تو جب اس نصاب پر ایک سال گذرے گا تو سال کے دوران حاصل ہونے والے کل سرمایہ پر زکوۃ واجب ہوگی۔ ہر رقم پر الگ الگ سال گذرنا شرط نہیں۔ اس لئے رمضان المبارک میں آپ پر اس کل رقم کی زکوۃ واجب ہوگی جو اس وقت آپ کے پاس ہو۔
٭ پراویڈنٹ فنڈ پر وصولیابی کے بعد زکوۃ فرض ہے۔ وصولیابی سے پہلے سالوں کی زکوۃ فرض نہیں۔
٭ صاحب نصاب اگر پیشگی زکوۃ ادا کردے تب بھی جائز ہے لیکن سال کے دوران اگر مال بڑھ گیا تو سال ختم ہونے پر زائد مال کی زکوۃ ادا کرے۔
٭ زیورات اگر بیوی کی ملکیت ہے تو زکوۃ اسی کے ذمہ واجب ہے اور زکوۃ نہ دینے پر وہی گناہگار ہوگی۔ شوہر کے ذمہ اُس کا ادا کرنا لازم نہیں۔ بیوی یا تو اپنا جیب خرچ بچا کر زکوۃ ادا کرے یا زیورات کا ایک حصہ زکوۃ میں دے دیا کرے ۔ لیکن شوہر اگر اس کے کہنے پر زکوۃ ادا کردے تو زکوۃ ادا ہو جائے گی۔
٭ اگر لڑکی کو زیورات کی مالکہ بنا دیا تو جب تک وہ لڑکی نابالغ ہے اس پر زکوۃ نہیں۔ بالغ ہونے کے بعد لڑکی کے ذمہ زکوۃ واجب ہوگی جبکہ یہ زیورات یا اس کے ساتھ کچھ نقدی نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے۔ صرف یہ نیت کرنے سے کہ یہ زیورات لڑکی کے جہیز میں دیئے جائیں گے۔ زکوۃ سے مستثنیٰ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ جب تک کہ لڑکی کو اس کا مالک بنایا جائے اور لڑکی کو مالک بنا دینے کے بعد پھر اُن زیورات کی زکوۃ خود لڑکی کے ذمہ ہوگی۔
پلاٹ پر زکوۃ :
اگر پلاٹ خریدنے کے وقت یہ نیت تھی کہ مناسب موقع پر اُس کو فروخت کردیں گے تو اس کی مارکیٹ ویلیو کی قیمت پر زکوۃ واجب ہے اور ذاتی استعمال کی نیت سے خریدا تھا تو زکوۃ واجب نہیں ۔
٭ پلاٹ خریدتے وقت تو فروخت کرنے کی نیت نہیں تھی لیکن بعد میں فروخت کرنے کا ارادہ ہوگیا تو جب تک اس کو فروخت نہ کردیا جائے اس پر زکوۃ واجب نہیں۔
٭ جو پلاٹ رہائشی مکان کے لئے خریدا گیا ہو اس پر زکوۃ نہیں۔
٭ اگر پلاٹوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا جائے اور فروخت کرنے کی نیت سے پلاٹ خریدا جائے تو پلاٹوں کی حیثیت تجارتی مال کی ہوگی ، اُن کی کل مالیت پر زکوۃ ہر سال واجب ہوگی۔
٭ جو زمین ، مکان یا پلاٹ فروخت کرنے کی نیت سے خریدا ہو ، اس پر ہر سال زکوۃ واجب ہے۔ ہر سال اس کی جتنی قیمت ہو اس کا چالیس واں حصہ( یعنی 2.5 حصہ) زکوۃ نکالنا ضروری ہے۔
٭ کسی شخص نے اگر حج کے لئے رقم جمع کر رکھا ہے اور وہ کسی وجہ سے حج کو نہ جاسکا ہو اس پر زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے۔
صدقۂ فطر کے مسائل :
٭ صدقۂ فطر ہر مسلمان پر جب کہ وہ بقدر نصاب مال کا مالک ہو واجب ہے۔
٭ جو شخص صاحب نصاب ہو اُس کو اپنی طرف سے اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اور اگر نابالغوں کا اپنا مال ہو تو اس میں سے ادا کیا جائے۔
٭ جن لوگوں نے سفر یا بیماری کی وجہ سے یا ویسے ہی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے روزے نہیں رکھے تو صدقۂ فطر ان پر بھی واجب ہے جبکہ وہ کھاتے پیتے صاحب نصاب ہوں۔
٭ جو بچہ عید کی رات صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے پیدا ہوا ہو اس کا صدقۂ فطر بھی لازم ہے اور اگر صبح صادق کے بعد پیدا ہوا ہو تو لازم نہیں۔
٭ عید کے دن عید کی نماز کو جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کردینا بہتر ہے لیکن اگر پہلے نہیں ادا کیا تو بعد میں بھی ادا کرنا جائز ہے اور جب تک ادا نہیں کرے گا اس کے ذمہ واجب الادا رہے گا۔
٭ ایک آدمی کا صدقۂ فطر ایک سے زیادہ فقیروں ، محتاجوں کو دینا بھی جائز ہے اور کئی آدمیوں کا صدقۂ فطر ایک فقیر محتاج کو بھی دینا درست ہے۔
٭ صدقۂ فطر کی مقدار پونے دو سیر گیہوں یا اس کی قیمت ہے۔
٭٭٭
 
syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 46290 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.