توحید اور وحدتِ خداوندی۔
(Talib Hussain Bhatti, Vehari)
اللہ تعالٰی اکیلا تھا، اکیلا ہے اور اکیلا
ہی رہے گا۔ دوسرا کوئی سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس کا شریک اور مشیر ہو۔ وہ
اپنی وحدت میں بے مثال ہے۔ اس کی دوگونہ صفات ہیں جمال اور جلال، جن پر اس
نے اپنی تمام مخلوقات کو پیدا فرمایا ہے۔ پہلے جمادات یعنی ہوا،پانی،مٹی
وغیرہ اپنے جمال سے پیدا کیے۔ پھر آگ اپنے جلال سے پیدا فرمائی۔ پھر نباتات
میں سے سایہ دار ، پھلدار درخت اور پھولدار پودے اپنے جمال سے پیدا فرمائے۔
پھر کانٹے دار پودے، جھاڑیاں، کیکر، جھنڈ، غرض تمام زہریلے پودے اپنے جلال
سے پیدا فرمائے۔ پھر حیوانوں میں سے فائدہ پہنچانے والے،یعنی دودھ،مکھن،
گوشت دینے والے جانور اور خوبصورت پرندے مثلَا گائے، بھینس،بھیڑ، بکری،ہرن،
خرگوش، مرغی، کبوتر، چڑیاں، طوطے،بلبلیں، تتلیاں وغیرہ اپنے جمال سے بنائیں۔
پھر نقصان پہنچانے والے جانور مثلَا شیر، چیتے، بھیڑیے، لگڑبگے،سانپ، بچھو،
بھڑیں وغیرہ اپنے جلال سے پیدا فرمائیں۔ پھر انسانوں میں سے نیک،
شریف،مفکر،راہبر، ہمدرد، رحمدل، مخلص، سچائی پر چلنے والے اور حقیقت کو
تلاش کرنے والے انسان اپنے جمال سے پیدا کیے۔ پھر ظالم، جرائم پیشہ، سنگدل
حکمران،چور، شیطان صفت، ڈاکو، قاتل، زانی، شرابی، جھوٹے، فراڈی لوگ اپنے
جلال سے پیدا فرمائے۔
پھر ہر جاندار کا نظامِ تنفس، نظامِ خوراک، نظامِ ہاضمہ اور نظامِ تولید
ہے۔ اور ہر جاندار کا منہ، کان، آ نکھیں، سر،بازو اور پاوَں ہیں۔ اگر
پرندوں کے دو پر ہیں تو اُن کے دو پاوَں بنائے۔پھر انسان کے دو پروں کے
بجائے دو ہاتھ اور دوسرے دو پاوَں بنا دیے۔ اسی طرح جانوروں کے چار پاوَں
بنا دیے۔ پھر کچھ جانور ایسے بھی ہیں جو زیادہ پاوَں رکھتے ہیں۔ کچھ جانور
مثلا سانپ، مچھلی سینے کے بل چلتے ہیں، کچھ چار پاوَں پر اور انسان دو
پاوَں پر چلتا ہے۔ اِسی طرح تمام انسانوں کا خون سرخ ہوتا ہے خواہ ہر انسان
کا اپنا رنگ کیسا ہی ہو۔ پھرتمام انسانوں کی اشکا ل میں مشابہت ہوتی ہے
لیکن اُن کے نین نقش اُنہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ
ہر ایک کی چال ڈھال، آواز الگ ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر ایک کی سوچ کا انداز بھی
مختلف ہوتا ہے۔ یہی ہر انسان کی انفرادیت ہے۔ اللہ تعالٰی نے ہر انسان کو
جداگانہ صورت اور شخصیت دی ہے۔ اور اُس کی روح )یا حکم( ہر ایک چیز میں بھی
ہے اور وہ ہر ایک سے الگ بھی ہے۔ یہی اس کی توحید ہے۔
دیکھو، تمام جاندار یعنی پودے،جانور، پرندے، اور انسان پیدا ہوتے، اپنی نسل
بڑھاتے اور مر جاتے ہیں۔ ماہرینِ فلکیات جانتے ہیں کہ ستارے بنتے اور ختم
ہوتے رہتےہیں۔سو ،حیات اور موت کا چکر یونہی چلتا رہتا ہے۔ اِسی طرح تمام
جمادات جو بنے ہیں، وہ بھی ختم ہوں گے۔ اسی طرح یہ زمین، سورج اور چاند بھی
ایک دن )بروزِ قیامت( ختم ہوجائیں گے۔ ہر چیز فانی ہے۔ بس اللہ تعالٰی کی
ذات ہی لافانی اور ہمیشہ کیلئے باقی رہنے والی ہے۔ وہی اول سے اول، آخر سے
آخر، ظاہر سے ظاہر، اور باطن سے باطن ہے۔ وہی لاتغیر و تبدل ہے, یعنی جیسا
تھا، ویسا ہی ہے، اور ویسا ہی رہے گا۔ یہی اُس کی توحید و وحدت ہے اور زمین
و آسمان میں اُس کی نشانیا ں موجود ہیں۔
دیکھو، تمام مخلوقات، گردشِ لیل و نہار، موسموں کا بدلنا، موت و حیات، عروج
و زوال کے اصول ایک مربوط نظام کے تحت ہیں اور پابندی سے اپنی تفویض کردہ
ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں۔ اور وہ اپنی فرائض کی بجا آوری کے نتیجے میں
پیدا ہونے والی بیماریوں، کمزوریوں اور موت سے نہیں بھاگ سکتے۔ اور نہ ہی
مقررہ وقت سے پہلے مر سکتے ہیں۔ہ اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو اُس سے فریاد
کرتے اور دادرسی پاتے۔ یہ اللہ کی وحدت اور توحید ہی ہے کہ اس کا حکم ہر
ایک پر چلتا ہے اور اس نے ہر انسان کو اس کے لیے متعین کردہ دائرے کے اندر
کچھ اختیار بھی دیا ہے۔بقول شاعر:
ع دکھائی بھی جو نہ دے، نظر بھی جو آ رہا ہے، وہی خدا ہے، وہی خدا ہے۔
دیکھو، کوئی اللہ کی توحید کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ کیونکہ کوئی دوسرا اُس
کے برابر کا نہیں۔ اگر کوئی اُس کے برابر کا ہوتا تو وہ اِس کائنات کے نظام
کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کر تا۔ اگر اب سورج مشرق سے نکلتا ہے تو وہ
مغرب سے نکالتا۔ اب اگر مردے دوبارہ زندہ ہو کردنیا میں واپس نہیں آتے تو
وہ انہیں دوبارہ واپس لاتا۔ اب اگر ہر ایک چیز کو مرنا یا ختم ہونا ہے،تو
وہ ایسا نہ ہونے دیتا۔ بڑے بڑے حاکم، عامل،اورظالم بھاگ کر اس کے پاس پناہ
حاصل کرتے، کبھی بھی نہ مرتے اور ہمیشہ اپنی مرضی چلاتے۔ لیکن ہم جانتے ہیں
کہ ایسا نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ایسا ہوگا۔ یہی اللہ تعالٰی کی یگانگت اور
توحید ہے۔ |
|