مسلم معاشرے میں خلع اور طلاق کے رجحان میں اضافہ

وجوہات اور اُن کا حل
ڈاکٹر مولانا محمد عبدالسمیع ندوی

یوں تو دنیا کے سارے لوگ حضرت آدمؑ کے باواجان اور بی بی حواؑ کے اماں جان ہونے کے ناطے آپس میں بھائی بھائی ہیں مگر حقیقی رشتہ داری کچھ اور ہوتی ہے اور دو مختلف خاندان کے لوگ آپس میں رشتہ دار ہو جاتے ہیں ، اس وقت جبکہ ایک خاندان کی لڑکی دوسرے خاندان میں بیاہی جائے۔ ا س طرح شادی خانہ آبادی ایک ایسا وسیلہ ہے جس سے لڑکا اور لڑکی ہی شریک مسرت اور لطف اندوز نہیں ہوتے بلکہ دونوں طرف کے لوگ اس خوشی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں بلکہ ان دونوں کے افراد خاندان میں الفت و محبت کے نئے رشتے قائم ہوجاتے ہیں۔

شادی ایک ایسا مقدس اورپاکیزہ فریضہ ہے جو مذہب ، قانون اور معاشرتی رہن سہن اور سماج کی روشنی میں مردوعورت کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کر کے ایک دوسرے کو شریکِ حیات بنادیتا ہے۔ خوشگوار ماحول اور پائیدار شادی کے لئے ماؤں کا رول نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ماں چاہے لڑکے کی ہو یا لڑکی کی، ماں اگر دینی تربیت اور اسلامی ماحول کی تربیت یافتہ ہو ، دینداری ، سمجھداری اور خوفِ خدا رکھتی ہو تو رشتۂ نکاح سے لے کر شادی بیاہ کے امور انجام دیئے جانے تک اور پھر گھرگرہستی کے سبھی معاملوں تک سارے معاملے بحسن و خوبی انجام پاتے ہیں۔ غیرضروری رسوم و خرافات سے بچتے ہوئے ایک دوسرے کے ہر معاملے میں ہر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتی ہیں اور آسانیاں پیدا کرتی ہیں ۔ بہو کو بہو نہیں لڑکی سمجھتی ہیں ، نندیں اُسے بھابھی نہیں بہن سمجھتی ہیں تو پھر یہ نئی نویلی دلہن ساس کو ساس نہیں ماں سمجھتی ہے ، نند کو نند نہیں بہن سمجھتی ہے اور ہر ساس اپنی بہو کی معمولی غلطیوں پر مواخذہ اور گرفت نہیں کرتی بلکہ نظرانداز کرتی ہے اور بہو اپنی ساس کا حکم دیئے بغیر اُس کی منشاء اور مرضی کے مطابق کام انجام دیتی ہے ۔ وہ بڑوں کی خدمت اور اُن کی عزت کرتی ہے اور چھوٹوں پر شفقت کرتی ہے تو گھر کا سارا ماحول خوشگوار ، مسرت کن اور جنت نشاں بن جاتا ہے۔ بڑے بھی اُس سے راضی رہتے ہیں اور چھوٹے بھی خوش۔ دین دنیا ہر کسی کی کامیاب و کامران گزرتی ہے۔

شادی کے سلسلے میں سب سے اہم چیز ہے وہ شریک حیات کے انتخاب کا مرحلہ جو بڑا ہی کٹھن اور دشوارکن معلوم ہوتا ہے اور یہاں صحیح عقل و دانش سے لیا ہوا فیصلہ ہی آئندہ کی خوشحال اور آسودہ زندگی کی ضمانت ثابت ہوتا ہے اور اس اہم موقعہ پر معمولی سی غفلت ذرہ برابر کی کوتاہی بڑے سے بڑے خطرے کا سگنل ثابت ہوسکتی ہے۔

ہندوستانی سماج میں چند دہائیوں قبل تک ایسا ہوا کرتا کہ والدین اپنے بچوں کی شادیاں زیادہ تر اپنے ہی رشتہ داروں یا ذات برادری ہی میں کیا کرتے ، لیکن آج کل تعلیم اور آمدنی میں فرق کی وجہ سے والدین آپس میں رشتے ناطے کرنے کے بجائے اپنے سے اونچا معیار زندگی رکھنے والوں یا کم از کم برابر کے معیار کے لوگوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔

مذہب اسلام اس سلسلہ میں ہر زاویہ سے ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ نوجوانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ نظروں کی حفاظت اور شرم گاہوں کی حفاظت کے لئے شادی کا راستہ اختیار کرے۔ لڑکے والوں کو یہ رہنمائی دی جاتی ہے کہ عام طور پر لڑکیوں میں شادی کے لئے چار چیزیں پیش نظر ہوتی ہیں ، حسب نسب ، حسن و جمال ، مال و دولت ، اخلاق و کردار اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم اخلاق و کردار کو ترجیح دو دنیا و آخرت میں کامیاب وکامران رہو گے۔ اِسی طرح لڑکی والوں کو یہ رہنمائی دی گئی کہ اگر تمھاری طرف کسی ایسے لڑکے کا پیغام نکاح آئے جس کے دین و اخلاق سے تم خوش ہو تو اپنی لڑکی کا بیاہ اُس سے کردو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد برپا ہوجائے گا۔ لیکن موجودہ صورتحال کا سرسری جائزہ لینے کے بعد یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہر طرف سے احکامات الٰہی اور اسوۂ رسولؐ کو نظر انداز کردیا گیا اور اِس سلسلہ میں من مانی ، نفسانی خواہشات کو مدنظر رکھ کر شادی کے امور کو انجام دیا گیا۔نتیجتاً خلع ، طلاق جیسے چیزوں کا رجحان ہمارے معاشرے میں اضافہ کرتا چلا جارہا ہے۔ یہاں اِس کاحل سوائے اِس کے کچھ نہیں کہ ہم اپنی تمام تر خواہشات حضور ﷺ کے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کردیں۔

اکثروبیشتر لڑکیوں کے والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیاں بڑے گھرانوں میں بیاہی جائیں۔ اسی طرح تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے والوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی والے بہت زیادہ مال و دولت اور پراپرٹی و جائیداد کے مالک ہوں ، ساتھ ہی لڑکی حورپری سے کچھ کم نہ ہو ، گویا ہر دو طرف سے یہی خواہش ہوتی ہے کہ سامنے والی پارٹی اسٹرونگ یعنی تگڑی ہو۔ اب تو اس مادہ پرست دور میں ہر دو جانب کے لوگ نہ تو صورت کی پرواہ کررہے ہیں اور نہ سیرت کی۔ اگر کوئی چیز پیش نظر ہے تو وہ ہے صرف دولت۔ شاید یہی وہ اہم وجہ ہے کہ رشتوں میں پائیداری نظر نہیں آتی۔شوہر اور بیوی میں الفت و محبت قائم نہیں ہوپاتی اور موجودہ حالات کے تناظر میں جو واقعات دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں اگر اس کی اصل وجہ کا پتہ لگائیں گے تو جہاں اور بے شمار اسباب ملیں گے وہیں یہ چیز بھی ضرور بضرور نظر آئے گی کہ لڑکے والوں کی طرف سے ہنڈہ طلب کیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جہیز کی فرمائش ہوتی ہے اور بعض لڑکیاں بھی یہی چاہتی ہیں کہ ان کے والدین انھیں زیادہ سے زیادہ جہیز دیں۔ اس لئے درحقیقت لڑکیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے لالچی لوگوں کی شریک حیات بننے سے انکار کردیں کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ لالچی شخص ہر وقت گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتا ہے۔ شروع میں وہ مصلحتاً کم مانگتا ہے لیکن جب بیوی مچھلی طرح جال میں پھنس جاتی ہے تو یہ مانگیں روز بروز بڑھتی ہی جاتی ہیں۔ اس لئے ہونا تو یہی چاہئے کہ لالچی آدمی کے لئے اپنا دروازہ نہیں کھولنا چاہئے کہ اگر کھل گیا تو پھر سختی سے بھی بند نہ ہوگا۔

اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جوں جوں سائنس ترقی کرتی جارہی ہے تعلیم زور پکڑ رہی ہے ،ویسے ویسے بداخلاقیاں ، بیہودگیاں اور جہیز جیسی لعنتیں سر اٹھا رہی ہیں اور بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج جہیز کے خلاف جتنی آوازیں بلند کی جارہی ہیں ، لوگ اسی قدر بے حیائی پر اتر کر جہیز کے طلبگار ہوتے جارہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج جہیز نے مہلک مرض کینسر جیسا روپ اختیار کرلیا ہے اور اس نے سماج کو لاعلاج درد و کرب میں مبتلا کردیا ہے۔ جہیز ایک ناگ ہے ، جہیز کو منہ کھولے اژدہے سے تشبیہ دی جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ جہیز نے ہمارے معاشرے کی اکثروبیشتر ہنستی کھیلتی بچیوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ آج جہیز کی وجہ سے نہ جانے کتنی معصوم لڑکیاں اپنے مجبور ماں باپ کے لئے دردِسر اور وبال جان اور بوجھ بن چکی ہیں۔ جہیز ایک ایسی لعنت ہے جو آج معصوم دوشیزاؤں کی نوجوانی کی گلا گھونٹ رہی ہیں اور اس نے معصوم لڑکیوں کو عمربھر اپنے والدین کے ساتھ سسک سسک کر زندگی گذارنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ تو ہوا ان دوشیزاؤں کا حال جو شادی جیسے جیسے حسین دور ، مقدس ارمان کو اپنے دلوں میں دبائے ہوئے ہیں۔ آج ہمارے سماج میں ہزاروں ایسی لڑکیاں موجود ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ، مہذب ، شائستہ اور امورخانہ داری میں اچھی طرح ماہر ہونے کے باوجود جہیز کے زہریلے ناگ نے ان کو رفیق حیات سے محروم کردیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جہیز کی آگ ستی کی آگ سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوگئی ہے کیونکہ اُس وقت تو چتا کے ساتھ عورتوں کو صرف چند منٹ ہی تکلیف جھیلنی پڑتی تھی لیکن آج جہیز کے لالچی انسانوں کے چنگل میں کئی معصوم دوشیزاؤں کی زندگی سال دو سال کے لئے دوبھر نہیں بلکہ ساری زندگی ان مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان معصوموں کو ان کی زندگی کے حقیقی لطف سے محروم رہنا پڑتا ہے۔

دوسری طرف وہی لڑکیاں جو اس بندھن میں بندھی ہوئی ہیں ، وہ دوشیزائیں جن کی پرورش شاہی گھرانوں میں بڑی ناز و نعمت سے ہوئی ہو ، جب ان کی شادی ہوتی ہے تو ان کے دولتمند والدین اپنی بیٹی کو عیش و عشرت کے لئے جہیز کے نام پر بیشمار سازوسامان اور قیمتی زیورات دے کر رخصت کرتے ہیں تاکہ ان کی لاڈلی بیٹی سسرال جا کر آرام سے زندگی گذارے ، اور اس پورے سازوسامان جہیز کی نمائش کرتے ہیں۔لیکن اس وقت اونچے طبقے کے یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ کسی غریب پر اُس کا کیا اثر پڑے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ریا و نمود اور نمائش کے لئے رکھا گیا سامانِ جہیز دیکھ کر دیگر لڑکے والے اسی طرح کا سسرال تلاش کرتے رہتے ہیں اور تلاش کرنے میں کافی وقت بھی لگتا ہے ، اِس طرح وہ اس فریضہ کی ادائیگی میں تاخیر بھی کرجاتے ہیں۔ والدین جو اپنی بیٹی کو اِس قدر جہیز دینے کے لائق نہیں ہوتے ۔ ان کی بیٹی جب سسرال میں قدم رکھتی ہے تو یا تو پھر طرح طرح کے طعنے سننے پڑتے ہیں یا پھر مختلف تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر ان کی مانگیں پوری کرنے کی کوشش کرنا پڑتا ہے۔ اگر ان کی منہ بھرائی ہوجائے تو معاملہ ٹھیک رہتا ہے اور اگر لڑکی والے ان کی منہ بھرائی کرنے سے مجبور ہو جائے تو یا تو خلع ، طلاق کی نوبت آتی ہے یا پھر انھیں لقمہ اجل بننا پڑتا ہے یا وہ جلا دی جاتی ہیں اور پھراخباروں کی سرخیوں میں وہ اس طرح پیش ہوتی ہیں کہ اسٹو یا گیس سلنڈر کے بھڑکنے سے جھلس گئی اور بعد میں اس نے دم توڑ دیا۔
٭٭٭
 
syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 52285 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.