صوم (کغات واصطلاحات)
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
سوال : صوم کا لغوی،اصطلاحی اور عُرفی معنی
ارشاد فرمائیے۔(محب اللہ فضل غنی ،من المدینۃ المنورۃ )۔
جواب: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ اللہ
تعالی فرماتے ہیں:
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي، وَانَا
اجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا کَانَ يَوْمُ صَوْمِ
احَدِکُم،فلَاَ يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ احَدٌ اوْ
قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَاءِمٌ. وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ
بِيَدِهِ! لَخُلُوفُ فَمِ الصَاءِمِ اطْيَبُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ رِيْحِ
الْمِسْکِ. لِلصَّاءِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُھُمَا(اَی یفرح بہما):إِذَا
افْطَرَ فَرِحَ، وَإِذا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْ مِهِ.(بخاری فی
الصحیح، کتاب: الصوم، ۲/۶۷۳، حدیث: ۱۸۰۵)
’’ابن آدم کا ہر عمل اسی کے لئے ہے سوائے روزہ کے۔ روزہ صرف میرے لیے ہے
اور میں ہی اس کا اجردیتا ہوں۔ روزہ (گناہوں سے بچنے کے لئے) ڈھال ہے اور
جس روز تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ لڑائی جھگڑے
میں پڑے اور اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑے تو وہ یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے
ہوں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہء قدرت میں محمد مصطفی ﷺ کی جان ہے! روزہ
دار کے منہ کی بُو اللہ کو مشک سے زیادہ پیاری ہے۔ روزہ دار کے لئے دو
خوشیاں ہیں، جن سے اسے فرحت ہوتی ہے: ایک (فرحتِ افطار) جب وہ روزہ افطار
کرتا ہے، اور دوسری (فرحتِ دیدار کہ) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ
کے باعث خوش ہو گا۔‘‘
صوم:صام یصوم صَوماً،عربی لغت میں روزے کو صوم ج :صیام کہا جاتا ہے جس کا
معنی کسی فعل سےقصداً و اختیاراً باز رہنا اور رک جانا ہے۔
علامہ ابن منظور لسان العرب میں ’’صوم‘‘ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کسی چیز سے رکنا اور چھوڑ دینا صوم ہے۔ روزے دار کو صائم اس لئے کہتے ہیں
کہ وہ کھانے، پینے اور عمل ِتزویج سے اپنے آپ کو روکے رکھتا ہے۔(لسان العرب
۱۲/۳۰۱)
قرآن حکیم نے بات چیت چھوڑ دینے کے لئے بھی لفظ صوم استعمال کیا ہے ارشاد
باری تعالی ہے:اِنِّيْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا.’’میں نے اللہ کے لئے
بات نہ کرنے کی نذر مان لی ہے’’۔(مريم:۲۶)۔
فقہاء اور مفسرین نے روزے کا اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیا
ہے:الامساک عن المُفطِرات مع النیۃ بہ من طلوع الفجر الی غروب الشمس۔
’‘روزے کی نیت کے ساتھ طلوع سحر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور
ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے رکے رہنے کو صوم کہا جاتا ہے‘‘۔(علام ة جلال
الدين خوارزمی، الکفاية مع فتح القدير: ۲/۲۲۳، تفسير القرطبی،۱:۲۷۳)۔
اور"رمضان" کا مادہ " ر م ض" ہے۔ اس کے بھی دومعنی ہیں۔ایک معنی ہے انتہائی
سخت گرمی اور محققین کا خیال ہے کہ جب عربی کلینڈر کو اسلامی بنایا گیا تو
اس ماہ کو رمضان اس لئے کہا گیا کہ یہ انتہائی سخت گرمی میں آتا تھا۔پھر جب
کیلنڈر کو سورج کی بجائے چاند کی گردش سے منسوب کیا گیا تو مہینوں کے نام
تو وہی رہے البتہ کیلنڈر کا حساب چاند کی گردش کے مطابق کیا جانے
لگا۔(تفصیل کیلئے رشید نعمانی کی لغات القرآن دیکھئے) رمضان کے دوسرے معنی
تلوار کی دھار کو تیز کرنا بھی ہیں۔
اسلام میں دن بھر تمام کھانے، پینے کی اشیاء سے اور دیگر چند کاموں سے
مخصوص وقت تک خود کو اپنی مرضی سے روکے رکھنے کا نام روزہ ہے۔مسلمانوں پر،
اسلامی مہینے رمضان میں پورا مہینہ روزے رکھنا فرض ہے۔روزہ ہر دور میں دنیا
کے مختلف خطوں میں مذہبی یا توہماتی نظریات کی وجہ سے رکھا جاتا رہا ہے۔ ہر
قسم کے کھانے، پینے اور جماع کرنے سے رکنے کا روزہ اس وقت صرف اسلام میں
ہے، باقی مذاہب میں مخصوص ایام میں ہی روزہ رکھا جاتا ہے، اور اس میں کچھ
چیزوں کی پابندی ہوتی ہے کچھ کی اجازت۔مسیحیت میں روزہ ایک اختیاری چیز
ہے۔قدیم جنگلی قبائل میں بھی ایک مخصوص دورانئے کے لئے کھانے پینے سے
اجتناب کی روایت ملتی ہے۔ قدیم مذاہب میں روزہ رکھنے کا یہ رواج عموماً
مذہبی پروہتوں تک محدود ہوتا تھا اور اسے دیوتا تک رسائی کا ایک ذریعہ
سمجھا جاتا تھا۔ کچھ قدیم مذاہب میں یہ نظریہ بھی رائج تھا کہ دیوتا اپنا
آفاقی پیغام خواب میں صرف اس وقت ظاہر ہو کر پروہت کو منتقل کرتا ہے جب کہ
خواب دیکھنے والا روزے کی حالت میں ہو۔ کچھ قبائل میں روزہ رکھنے کی روایت
زرخیزی کے دیوتا کو بہار کی آمد پر نیند سے بیدار کرنے کے لئے رائج تھی
۔قدیم یونان کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کھانا کھانے سے شیطانی قوتیں جسم میں
داخل ہو جاتی ہیں، شائد اسی نظریے نے ان میں کھانے پینے سے اجتناب یعنی
روزہ رکھنے کو رواج دیا۔اسلام کی آمد سے پہلے بھی عرب قبائل میں روزہ رکھنے
کا رواج موجود تھا اورعرب بت پرست کم وبیش اسی نمونے پر روزہ رکھتے تھے
جیسے کہ مسلمان۔ عراقی صابی بھی روزہ رکھتے تھے ۔ روزہ صرف یہودیت، عیسائیت
اور اسلام کا حکم نہیں، بلکہ زمانہ قدیم سے رائج ہے۔روحانیت کے حصول کے لئے
روزے کو ایک ذریعہ مانا جاتا تھا۔ تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زیادہ
تر مذاہب اپنے پیروکاروں پر کسی قسم کی پابندی لاگو نہیں کرتے تھے اور یہ
ماننے والے کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا تھا کہ آیا وہ روزہ رکھنا
چاہتا ہے یا نہیں۔ مزید برآں روزوں کے مہینے، اوقات اور تعداد کا تعین بھی
کم ہی مذاہب میں کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کا روزہ عیسائیو ں یا ہندووں کے روزے
سے اس طرح بھی مختلف ہے کہ اسلام کے برعکس ان مذاہب میں حالت روزہ میں
کھانا پینا مکمل طور پر نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ صرف مخصوص اشیا کا استعمال
ہی ترک کیا جاتا ہے۔یوں مسلمانوں کا روزہ باقی مذاہب کی نسبت نہ صرف الگ
ہے، بلکہ ہر بالغ مرد و عورت پر یکساں فرض ہے اور اس کے قضا ہونے کی صورت
میں خدا کی طرف سے سخت عذاب کی وعید بھی سنائی گئی ہے۔
روزہ اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ روزہ ہر عاقل اور بالغ مسلمان پر اسلامی مہینے
رمضان المبارک میں فرض ہے. روزے کا وقت صبح صادق کے طلوع ہونے سے لے کر
غروبِ آفتاب تک ہے. صبحِ صادق کے طلوع ہونے سے پہلے کھانا کھانے کو سحری
کہا جاتا ہے. روزے کی نیت یہ ہے : وَبِصَومِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ
رَمَضَانَ. ترجمہ : " میں نے کل کے ماہِ رمضان کے روزے کی نیت کی۔ " افطار،
یعنی روزہ کھولنے کی دعا : اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ
وَعَلَيْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ. ترجمہ : ’’اے ﷲ! بے
شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ
کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کیا ۔‘‘ |
|