آنکھ کیوں نہیں شرماتی؟

کسی معاشرے پر میڈیا کا کتنا اثر ہے اور یہ اثر مثبت ہے یا منفی؟ یہ معمہ عرصہ داز سے زیر بحث ہے۔ ٹی وی پر پیش کیے جانے والے ڈرامے معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں یا معاشرہ ان سے اثر انداز ہوکر وہی روش اور چلن اختیار کرتا ہے؟ کیا پروگرام معاشرے کی حقیقی ثقافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں؟ ان تمام سوالات کا جواب ناظرین اور ناقدین کے سر ہے۔

کیبل کی آمد کے ساتھ ہی بیرونی دنیا کی ثقافت، اطوار وافکار اور خصوصاً گھریلو طرز معاشرت کس قدر اس ملک کی سوشل زندگی میں گھر گئی ہے، آج کل اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے باوجود اس کے کہ وہ بود وباش کسی بھی طرح اس مملکت کے دیسیوں کی انفرادی، اجتماعی اور بالخصوص عائلی زندگی سے میل نہیں کھاتی، پھر بھی قبولیت کی دہلیز عبور کرجانا کسی قدر تعجب خیز ہے! کیا یہ میڈیا کا اثر ہے یا یہاں کے باسیوں کے میلانات؟

عرصہ دارز سے یہ بات گونج رہی ہے کہ “ہمیں سمجھ نہیں آتا آپ معاشرے کی ہر برائی میڈیا کے سر تھوپتے ہیں، جبکہ ریموٹ تو آپ ہی کے ہاتھ میں ہے، چاہو تو اسلامی یا تحقیقی چینل دیکھو اور چاہو تو گندگی۔“ زرا سی حقیقت شناسی اور زمینی حقائق کے ادراک سے اس کی سطحیت واضح ہوسکتی ہے۔ تو آخر وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے اسلامی، معلوماتی اور تحقیقاتی چینلز کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جو ان خرافات سے لبریز چینلز کو ہوئی ہے؟ کیا یہ ہماری اخلاقی پستی تھی یا ان چیزں کی مؤثر مگر غیر محسوس طریقے سے نشرو اشاعت؟ میرے خیال میں یہ دونوں اسباب ہیں جن کی وجہ سے ہماری ثقافت دیس سے پردیس اور طرززنگی گھر سے بے گھر ہوئی۔ اور اخلاقی اقدار سے تعلق بے تعلق ہوا۔ ہمارے قیافہ شناسوں نے اخلاقی تربیت سے کہیں زیادہ دیسی ثقافت کے نام پر ولایت ثقافت کو اجاگر کیا۔ اور ایک مثبت ذہن سازی کی بجائے زمرہ آزادی میں ہر کس وناکس اور صحیح وغلط چینلز کو لائسنس جاری کیے، ان میں بیشتر چینل ناقص الخیال، فاسد الاخلاق اور خریص المال جیسے موضوعات لیے ہوئے ہیں۔ ان کا طرہ امتیاز محبت کے نام پر وہ خرافات پیش کرنا ہوتی ہیں جن کی شاید عدو محبت میں بھی جگہ نہ ہو؟!

ہمارے معاشرے کے انشا پرداز اس معاشرے کی نشاہ ثانیہ اپنی تشہیری مہم میں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، ہر چیز میں عورت کو گھسیٹا گیا ہے، سینکڑوں مشہوریوں کا مرکزی خیال یہی ہوتا ہے کہ لڑکی کو اپنے دامن لانا چاہتے ہو تو یہ موٹر بائیک خریدیں، اپنی محبوبہ کی ناراضگی دور کرنی ہے تو یہ ٹافی چاکلیٹ، جوس۔۔۔ موبائل۔۔۔۔ وغیرہ خریدیں۔ اگر آپ آگ سے بچ نکلے ہیں تو کیا اس کے دھوئیں سے بھی محفوظ ہیں؟ نیوز یا تحقیقاتی چینلز دیکھنے والوں کو بلامقصد اس تشہیری ریلے سے واسطہ پڑتا ہے جس میں بہت سے مشہوریاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں فیملی میں بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا، مثلاً عورت کے زیر استعمال بعض مخصوص اشیا، مردوں کے لیے مقوی گولیاں اور باڈی اسپرے وغیرہ۔ زرا انصاف کریں کہ ایک لڑکی یا لڑکا جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کو ہیں وہ ان چیزوں کا کس طرح سے اثر لیں گے؟ اور یہ چیزیں کس حد تک ان پر اثر انداز ہونگی؟ زرا دیکھیے تو! پاکستان کے وہ دور دراز علاقے جہاں کے صنف نازک کو سورج نے یا تو مٹی سے کھیلتے دیکھا یا پھر مٹی میں دفن ہوتے، درمیانی عرصہ میں آفتاب بھی اس کی جھلک نہ دیکھ سکا! آج وہاں محبت کی شادی، من چاہی زندگی اور عشق کی پرستاری کے واقعات روز اخبار اور ٹی وی چیلنز کی زینت بنے ہوتے ہیں۔ اور آئے دن اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

ہمارے یہاں اکثر انڈیا کے ڈرامے مقبول ہیں، جن میں مذہبی رسومات کی منظر کشی بہ کثرت ہوتی ہے، کیا ہمارے ڈراموں میں اس طرح مذہبی رسومات کی منظر کشی ہوتی ہے؟ ان جیسا اعتقاد، یقین دیکھایا جاتا ہے؟ جیسے وہ بات بے بات مندر جاتے ہیں، کسی بھی مصیبت میں بھگوان کی پوجا اور خوشی وغمی میں پر اتنا کرتے ہیں، اور کیا یہ چیزیں ہمارے عقائد و نظریات پر اثرانداز نہیں ہونگی؟

آج کے معاشرے کے عکاس (بزعمھم) ڈراموں میں ایک عاشق کا اپنی محبوبہ کی خاطر گھر بار، والدین، عزیزو اقارب اور دوست واحباب چھوڑنا کوئی غیر معمولی کام نہیں، بلکہ یہاں تو ماں کی سرپرستی میں محبت کا کھیل کھیلا جاتا ہے، ایک مرد شادی شدہ ہوتے بھی کسی دوسرے سے پینگیں بڑھاتا ہے، اور بیوی ازراہ محبت اس کے اس تعلق کو نہ صرف ویلکم کرتی ہے بلکہ ان کے مابین بندھن باندھنے کی بھی کوشش کرتی ہے! یہی صورت حال بیوی کی ہو تو خاوند فلسلفہ محبت کے تحت اس کو خاطر خواہ تعلق جوڑنے کی اجازت دینے سے نہیں کتراتا۔ پھر وہ عورت فٹ بال کی طرح کبھی اس گول میں ہوتی ہے اور کبھی اس گول میں!

آج کا معاشرہ ساز ہمیں ماں کی ممتا کی ایک نئی قسم سے متعارف کروا رہے ہیں، جس میں ماں مال ومتاع کی لالچ میں گھری ہوئی ہے۔ خاوند سمیت تمام اہل خانہ کی جمع پونجی ہڑپ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے؛ چنانچہ وہ اس مقصد کے لیے اپنے بیٹے کا چور، قاتل اور بیٹی کا طوائف کی صورت میں استعمال کرنے سے قطعاً گریز نہیں کرتی!

زرا تصور تو کریں! اس گھر کا ماحول کیسا ہوگا جس میں یا تو ہر کوئی مال کی بھاگ دوڑ میں ہے، یا سب کے سب نام ونمود اور شہرت کی جنگ میں لپٹے ہوئیں، یا عشق ومحبت کا لبادہ اوڑھ کر اخلاقی اقدار، انسانی اصول اور عائلی قوانین ورسوم کی پامالی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے پر تلے ہوئے ہیں؟

ان ڈراموں میں پیش کیے جانے والے شرمناک مناظر کی ان صفحات پر منظر کشی کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے، قلم میں از حد ارتعاش آنے لگتا ہے اور ان صفحات ان نقوش پر بلبلا اٹھتے ہیں مگر سینکڑوں گھرانوں کی آنکھیں ان مناظر کو ایک ساتھ بیٹھ دیکھنے سے کیوں نہیں شرماتیں؟!
habib salih
About the Author: habib salih Read More Articles by habib salih: 9 Articles with 21370 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.