قدوت السالکین، زبدت العارفین،
امام الواصلین، سند الاولیا حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کا نام نامی
کسی تعارف کا محتاج نہیں- نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ پوری روئے زمین پر
اولیاء حق کے سربراہ و سرخیل اور پیشوا کی حیثیت سے جانے مانے جانے والی
بزرگ ترین ہستی، جنہوں نے ساری زندگی اللہ کی وحدانیت اور رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کا علم سر بلند رکھا- جنہوں نےامن و
آشتی اور انسان دوستی کے آفاقی پیغام سے انسانیت کا سر فخر سے بلند کیا- جن
کے حضور نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر غیر مسلم بھی اپنی
گردنیں ادب سے خم کرتے ہیں، جن کی عظمت کا اعتراف آسمانوں پہ فرشتوں کی
صفوں میں بھی کیا جاتا ہے، وہ محسن انسانیت جس نے اس ظمت کدہ ہند کو خیرات
شعور و عرفان بخشی- جن کی سعی جمیلہ کے باعث آج ہم خود کو مسلمان کہلواتے
ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں- شرافت جس کے دروازہ فیض رساں سے معتبر ہوئی، عظمت
و رفعت جس کے حضور سر بہ خم ہے-
افسوس صد افسوس آج کسی ظالم بلکہ فطری و ازلی سفاکانہ خصلت کے حامل درندہ
صفت وحشی، جس کا ناپاک اور غلیظ وجود انسانیت کے ماتھے کا کلنک ہے ، نے
اپنی سفاکی کے باعث حرم گاہ پیر ہجویری کے تقدس مآب بام و در کو معصوم اور
بے گناہ زائرین کے لہو سے آلودہ و رنگین کر دیا- وا حسرتا! مقام مرگ ہے اور
لعنت ہے ہماری حکومت وقت پر، جس کی نا اہلی اور غفلت نے یا جس کی مفادات
پرستی نے آج یہ دن دکھایا کہ بعد از انبیا اور بعد از آل و اصحاب سب سے
بزرگ ترین ہستی، جس سے کفار بھی شرم کھاتے ہیں لیکن حکومت نے ایسی عظیم
روحانی درگاہ کے تحفظ کا کوئی غیر معمولی اور مؤثر انتظام نہ کر رکھا تھا-
اور اللہ کی سخت ترین لعنت ہو اس شخص پر جو اس خونیں سانحے میں بالواسطہ یا
بلاواسطہ ملوث ہے بلکہ اس وقت نہ صرف ہمارا بلکہ ملت اسلامیہ کا دل خون کے
آنسو رو رہا ہے- اس واقعے کے ذمہ داران کسی صورت بھی فرعون سے کم نہیں-
اللہ انہیں اپنی جانب سے کڑی سزا دے اور غارت کرے ان کے معاونین کو بھی-
آمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم |