خودکشی ۔ خدا کے اختیارات میں مداخلت

اﷲ تعالیٰ نے جب تخلیق کائنات کی اور زمین کو منتخب فرمایا اپنی سب سے حسین تخلیق یعنی زندگی کے لیے تو اس نے اس سیارے پر بے انتہا توجہ کی اﷲ کہتا ہے کہ اُس نے چھ دن میں اس زمیں و آسمان کی تخلیق کی۔ پھر اللہ نے اس زمین پر کروڑوں سال کبھی برف کی تہہ جمائی اور کبھی سورج کی گرم شعاعیں مرکوز رکھیں اور کبھی گردوباد کے طوفان اٹھے جب یہ زمین ہر قسم کے موسم اور نرمی وسختی کی عادی ہوئی تو بڑی محبت سے زندگی کو تخلیق کیا اور جب زندگی نے پھل پھول کر سیارہ زمین کو خوشگوار بنایا تو اﷲ نے اپنی معتبر ترین تخلیق اشرف المخلوقات انسان کو بنایا اور اس زمین پر اتارا۔ یوں سوچئیے اﷲ نے انسان کی زندگی کی حفاظت کو انسان کے اہم ترین فرائض میں داخل کیا۔ چاہے اپنی زندگی ہو یا دوسرے کی۔ اسی حقیقت کو سورہ المائدہ کی آیت نمبر 32میں بڑی خوبصورتی سے بیان فرمایا “ جو شخص کسی کو ناحق قتل کرے گا یعنی بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کا قتل کیا اور جو اُس کی زندگانی کا مؤجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا مؤجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لاچکے ہیں“. یعنی انسانی زندگی کو کس قدر اہم اور قابل قدر سمجھا گیا۔

اب ذرا آج کے حالات کی طرف آتے ہیں جس میں انسان کی زندگی کو دنیا کی ارزاں ترین شے سمجھ لیا گیا ہے. ہر روز دھماکے، دہشت گردی کی خبریں تو اتر سے آنا ایک معمول بن گیا ہے۔ 2002ﺀ سے ہمارا ملک جس قسم کی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اُس میں سب سے خوفناک خودکش دھماکے ہیں۔ جس نے بے شمار انسانوں کو خاک وخون میں نہلا دیا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ حملے مسلمان مسلمانوں کی خلاف کرتے ہیں اگرچہ اس بات پر یقین کرنے کو دل نہیں کرتا کیونکہ جن لوگوں سے اِن دھماکوں کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خود کو بہترین مسلمان کہتے ہیں اور دھماکہ کرنے والا خود کو شہادت کے درجے پر فائز سمجھتا ہے۔ حالانکہ دنیا کے کسی بھی معاشرے یا مذہب میں اگر خودکشی ناپسندیدہ ہے تو اسلام میں حرام ہے اور اس کی سختی سے ممانعت ہے۔ چاہے اسے جو بھی کرے اور جس نیت سے بھی کرے اﷲ تعالیٰ سورۃالنسائ آیت 29میں صاف صاف فرماتا ہے. ۔۔۔۔۔۔ “اور اپنے آپ کو ہلاک مت کرو کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے“. یعنی خودکشی عین خدا کا عذاب ہے۔ دراصل زندگی اور موت کے اختیار کو اﷲ نے خالصتاً اپنے لیے محدود رکھا ہے اور وہ اس میں انسان کی مداخلت کو کسی قیمت پر پسند نہیں کرتا۔ قضاوقدر کا مالک وہ ہے اﷲ نے انسان کو محدود اختیارات کے ساتھ زمین پر بھیجا ہے۔ جب ایک انسان کسی دوسرے انسان کو قتل کرے تو اُس نے گویا خدا کے اختیار میں مداخلت کی اور اُس نے خود کو مار دیا تو اُس نے نہ صرف خدا کی ناشکری کی بلکہ اُس کے اختیار کو چیلنج کیا۔“ کہ اے خدا اگر تو نے مجھے زندگی دی ہے تو مجھے نہیں چاہیئے اور تو دیکھ کہ میں نے اسے ختم کر دیا ہے “. بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان حالات کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کرلیتے ہیں اور مظلوم سمجھ لئے جاتے ہیں۔ خودکشی کی وجوہات میں ذہنی تناؤ، دباؤ، تنہائی، بے وفائی، برے مالی حالات، بیماری اور معذوری وغیرہ کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اور آج کل خودکش حملوں میں استعمال ہونے والے نوجوانوں کے بارے میں یہی باور کیا جاتا ہے کہ یہ حالات کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے ہیں جن کو مذہب کے نام پر بلیک میل کرلیا جاتا ہے ان کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف ان حالات سے دنیا میں نجات پالیں گے بلکہ جنت بھی کمالیں گے کیونکہ وہ ایک گمراہ حکومت کے خلاف جہاد میں اپنی جان دیں گے جو بھی اِن نوجوانوں کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں اور جو بھی طریقہ کار استعمال کرتے ہیں اﷲ کی حدود کو توڑتے ہیں جہاں تک حکومت کی گمراہی کا تعلق ہے اس پر باز پرس اور تنقید ضروری ہے لیکن بغاوت یا نقص امن کی اجازت تب تک نہیں دی گئی جب تک حکومت صاف کفر نہ کرنے لگے۔

صحیح بخاری میں حضرت جنادہ بن ابی امیہ نے حضرت عبادہ بن صامت (رض)سے حدیث روایت کی ہے کہ “ ایک مرتبہ نبی کریم (ص) نے ہمیں بلایا اور ہم نے آپ سے بیعت ﴿عہد﴾ کی آپ (رض) نے بیان کیا کہ جن باتوںکا آنحضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے عہد لیا تھا اُن میں یہ بھی تھا کہ ہم خوشی وناگواری، تنگی اور کشادگی اور اپنے اوپر ترجیح دیئے جانے میں اطاعت وفرمانبرداری کریں اور یہ کہ حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے بارے میں اس وقت تک جھگڑا نہ کریں جب تک صاف کفر نہ دیکھ لیں جس کے لیے ہمارے پاس دلیل وبرہان ہو“. اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکمرانوں کی رائے یا طرز حکمرانی سے اختلاف نہ کیا جائے ضرور کیا جائے لیکن اس کے لیے ان سے بھی بڑے گناہ یعنی خودکشی کا ارتکاب کہاں کا طریقہ ہے وہ بھی خدا، رسول اسلام اور جنت کے نام پر۔

اسلام میں خودکشی قطعاً حرام ہے اس کے لیے کسی بھی توجیہہ کو قبول نہیں کیا جا سکتا. یہاں تک کہ شدید بیماری کی حالت میں بھی۔ حضرت ایوب(ع) نے برسہا برس بیماری کی شدت میں گزارے لیکن صبر اور اس یقین کے ساتھ کہ جس خدا نے انہیں بیمار کیا وہی شفا دے گا اور اسی صبر کے بدلے میں شفا پائی۔

ایک شخص ایک غزوے میں بہت بہادری سے لڑا لیکن جب زخمی ہوا تو اُس نے تنگ آکر خودکشی کرلی “حضرت جندب(رض) سے روایت ہے کہ اﷲ نے فرمایا کہ میرے بندے نے اپنے اوپر موت میں جلدی کی سو میں نے اُس کے لیے جنت کے دروازے بند کر دیئے“. یعنی نہ تو اُس کی بہادری کام آئی اور نہ اس کی شجاعت۔ بلکہ خودکشی نے اس کے سارے اعمال ضائع کردیئے یہاں تک کہ اُس کا جہاد بھی۔

جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن اس میں بھی اﷲ نے حدود کی پابندی کرنے کا حکم دیا ہے. جہاد کی فرضیت کے حکم کو اس حکم اور تاکید کے ساتھ نازل کیا کہ “جو لوگ تم سے لڑتے ہیں اُن سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا“﴿سورۃ البقرہ آیت 190 ﴾۔ حکم جہاد کے تسلسل میں ہی اسی سورۃ کی آیت193 میں پھر تاکید کی ۔۔۔۔ “ ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیںِ﴿ کرنی چاہیے﴾“.پھر جس مذہب نے حکم جہاد کو اتنی احتیاط کے ساتھ نازل کیا وہ اس میں ﴿یعنی جہاد میں﴾ خودکشی کے حرام فعل کو حلال قرار دے سکتا ہے. ہر گز نہیں۔

خودکشی ایک ایسا فعل ہے جس کی اسلام نے بہر صورت ممانعت فرمائی ہے اور ایسا کرنے والے کو سخت سزا کی وعید سنائی ہے اور حدیث نبوی کی رُو سے جس نے خود کو جس طرح ہلاک کیا دوزخ میں اُسی طریقے سے مارا جائے گا. چناچہ ارشاد نبوی ہے جس نے خود کو لوہے کے ٹکڑے سے مارا اُسے دوزخ میں اسی لوہے کے ٹکڑے سے مارا جائے گا۔

اب خدا جانے ہمارے ملک کے ان نوجوانوں اور معصوم بچوں کو کون دین، مذہب، خدا اور جہاد کے نام پر خودکشی پر آمادہ کررہا ہے۔ اپنے آپ کو بہت بڑے علما اور دین اور مذہب کے ٹھیکیدار سمجھنے والے کیا اسلام کی ان تمام تعلیمات سے بے خبر ہیں اگر ایسا ہے تو انہیں دیندار بننے سے پہلے اسلام کا مطالعہ ضرور کر لینا چاہیئے اور اگر وہ یہ سب جانتے ہیں تو وہ تہرا گناہ کما رہے ہیں ایک، اپنے لوگوں کو دین سے گمراہ کرنے کا اور دوسرا دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنے کا اور تیسرا خودکشی اور قتل کا. اور یوں وہ اسلام کو وہ ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں جو شاید غیر مسلم بھی نہ پہنچا سکیں. اگرچہ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ یہ سب کچھ کروانے میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ان کے آلہ کار بننے والے خود کو مسلمان بلکہ مردان مومن کہتے ہیں اور اپنے ہر فعل کو عین اسلام سمجھتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں. اکثر یہ سننے میں آتا ہے جو کہ ظاہراً درست بھی ہے کہ ان حملہ آوروں کو روکنا ممکن نہیں کیونکہ یہ جان سے گزر جانے والے لوگ ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ واقعی جان سے گزر جانے والے لوگ ہیں لیکن یہ وہ کم علم یا بے علم لوگ ہیں جو اسلام کی اصل روح اور تعلیمات سے قطعاً واقف نہیں اور اسی لیے ان کو دین کے نام پر استعمال کر لیا جاتا ہے۔

اب یہ ہمارے علمائے کرام، خطیب حضرات اور مدارس کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ ہر کسی پر کفر کا فتویٰ لگا دینا اور جہاد کا اعلان کر دینا تو آسان ہے لیکن تمام عوامل کو سامنے رکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے اور اگر اﷲ کے سامنے جوابدہی ذہن میں ہو تو اور مشکل تر۔ اگر اسلام کو صحیح معنوں میں پیش کیا جائے تو کیا اس سے بہتر اور سچا مذہب  بھی دنیا میں کوئی ہوگا۔ اسلام تو مسلمان ملک کے غیر مسلم شہریوں کی جان ومال کا محافظ بھی حکومت اور مسلمانوں کو قرار دیتا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمر(رض) سے روایت ہے “جس نے کسی اسلامی حکومت کے غیر مسلم شہری کی جان لی وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے آنے لگتی ہے“ اور یہاں ہم ہیں کہ مسلمان بھی مسلمان کے ہاتھ سے محفوظ نہیں۔

خودکش حملوں کو روکنا ممکن ہے اگر اس کام کو مشن سمجھ کر کیا جائے اور جتنی محنت خودکشی پر آمادہ کرنے والے کرتے ہیں ان ہی یا اُس سے کچھ کم محنت معاشرے کے پڑھے لکھے اور دین کو سمجھنے والے افراد اور خاص کر ہمارا میڈیا کر لے اور اس عزم کے ساتھ کریں کہ لوگوں میں اﷲ پر یقین پیدا کیا جائے اس بات کا یقین کہ ہمارے مسائل کا حل خدا کے لیے مشکل نہیں اور وہ اسے پرامن طریقے سے حل کرے گا اگر ہم اس کی لیے پر امن کوشش کریں۔ جب اﷲ چلنے کو کہے تو چلو دوڑو مت اگر دوڑو گے تو بھی اﷲ کے نافرمان بنو گے. نہ اپنی جان کی ہلاکت کا گناہ اپنے سر لو اور نہ ان بے شمار معصوم لوگوں کے خون سے اپنی گردن بھاری کرو جو تلاش رزق میں اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور جب ان کے گھر والے کھانے پر اُن کے انتظار میں بیٹھتے ہیں تو لاش ان کے پاس پہنچائی جاتی ہے اور کبھی وہ اپنے گھر کے کسی چشم وچراغ سے محروم ہوجاتے ہیں اور کبھی خاندان کے واحد کفیل سے اور ان سب کی مصیبت اور تکلیف کا گناہ بھی اسی مرنے والے خودکش اور اسکو اس ہلاکت پر آمادہ کرنے والے کے سر چلا جاتا ہے. حضرت عبداﷲ(رض) سے روایت ہے کہ “مسلمان کو گالی دینا فسق اور اُس کو قتل کرنا کفر ہے“. میں ایک بار پھر اس بات پر زور دوں گی کہ ہمارے علما اور میڈیا اس کام کو جس خوبی سے کر سکتے ہیں کوئی اور نہیں. اسلام کی صحیح تعلیمات کو لوگوں تک پہنچائیں پھر کوئی کسی کو خودکشی پر آمادہ نہیں کر سکے گا. امید اور خدا پر یقین یہ ایسے پر امن ہتھیار ہیں کہ جو انسان کو ایک اچھی زندگی جینے کی امنگ دیتے ہیں اور اﷲ کی ذات پر یقین اور امید ہی عین اسلام ہیں۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 558459 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.