گدی والا
(Farheen Naz Tariq, Chakwal)
"نگہت جلدی سے اک کپ چائے کا بنا
دو-"
بھیا نے گھر داخل ہوتے ہی حکم صادر کیا- وہ جی اچھا کہتی کتابیں سمیٹتی اٹھ
کھڑی ہوئی بھابی دوڑی دوڑی آئی اسے چائے پتی خود ڈال کر دی اور اپنے کمرے
میں چلی گئی
" یاجوج ماجوج کی قوم جو سارا دن تھک کر کماتا ہے اسی کے کھانے پینے میں
کنجوسیاں کر رہے ہو تم لوگ سب کچھ چٹ کر جاتے ہو -" بھابی کے چائے پر تنقید
کرنے پر بھیا کو بھی بقیہ چائے کالی لگنے لگی تھی جبھی اٹھا کر دور رکھتے
منہ پھلانے کی کوشش کی گئی
" مگر بھابی آپ نے خودہی تو دودھ پتی ڈال کر دیا تھا-"
" اے لو اب یہ بالشت بھر چھوکری مجھ سے زبان لڑائے گی اور آپ بیٹھے دیکھو
گے-" وہ کف افسوس ملتی آنکھوں میں آنسو بھر لائی جس پر بھیا نے اپنی لاڈلی
بہن کو بے نقط سناتے ہوئے تھپڑ جڑ دیا
********
جمال نے تمام رات جاگ کر نہایت خشوع و خضوع سے نوافل کی ادائیگی میں گزاری
تھی بے شک شب برات کی رات نصیبوں والی ،نامہ اعمال بدلنے والی، قسمت کا
فیصلہ کرنے والی رات ہوتی ہے- تقریبأ ہر مسلمان اس رات اپنے سال بھر کے گنہ
بخشوانے اور اگلے سال کی اچھی قسمت کی دعائیں مانگتا ہے-
برش کی وجہ سے صبح دھلی نکھری شفاف تھی رات دیر تک عبادت کرتے رہنے کی وجہ
سے صبح اسکی آنکھ دیر سے کھلی تھی جبھی وہ فجر کی نماز ادا نہ کر سکا اٹھتے
ہی کچن سے آتی کھٹ پٹ اور منے کی ریں ریں کی آؤازوں نے اس کا موڈ بگاڑ دیا
ابھی اٹھا ہی تھا کی چھوٹی بہن جو سکول جانے کو تیار کھڑی تھی سکول فیس
مانگنے چلی آئی اسکو ڈانٹ پھٹکار کر پیسے دے کر جان چھڑوائی ہی تھی کہ ابا
اپنی دوائی کے لیئے پیسے مانگنے چلے آئے دو تین سخت ست سنا کر انکو فارغ
کیا تو منا عین ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر گلا پھاڑ کر چلانے لگا اسے پچکار کر
بہلا پھسلا کر گود میں لیا مگر اس کا رونا بند نہ ہوتا تھا اسے نگہت کو
پکڑایا کہ اسے گلی میں لے جائے اس نے سکول بیگ رکھتے گھڑی کو بیچارگی سے
دیکھا اور منے کو لے کر بہر نکل گئی سکول سے آج پھر دیر ہونے والی تھی جس
کی سزا میں اسے اگلی تین کلاسز دھوپ میں کھڑے رہنا پڑتا-
"شازیہ بھئی آجاؤ آ کر ناشتا کر لو-" وہ کچن کی طرف منہ کر کے بولا
" کیسے ناشتہ کروں ابھی پورے ٹبر کا ناشتا بنانا ہے"- وہ ساس سسر کے کمرے
کی طرف رخ کر کے ذرا اونچی آؤاز میں بولی-
" تم کیوں بناؤ گی ؟ نگہت یا اماں کیوں نہیں بنا دیتیں؟"
" تمہاری اماں تو سدا کی مریضہ ہیں اور نگہت صاحبہ کے پڑھائی کے چونچلے ہی
نہیں پورے ہوتے وہ مجھے کیا کام کروائے گی سارا دن تمہاری ماں باپ بہن
بھائیوں کی خدمتیں کرنے میں ہی گزر جاتا ہے -" شوہر کی شہہ پاتے ہی وہ
باقاعدہ جہل عورتوں کی طرح ہاتھ نچا کر بولی تیر نشانے پر بیٹھا تھا وہ تن
فن کرتا اٹھا اور سیدھا ماں کے سر پر جا پہنچا -
"اماں میں سارا دن کماتا ہوں تمہارے مشٹنڈے بچوں کو ٹھنسانے کے لیئے بدلے
میں مجھے نہ سہی مگر میرے بیوی بچے کو تو کچھ آرام دو تم لوگ شازیہ بیچاری
دن بھر تم لوگوں کے کام کرتی ہے تم سے اتنا نہیں ہوتا کہ اس کا ہاتھ ہی بٹا
دیا کرو-" وہ شکوہ کر رہا تھا ماں متحیر سی ہو کر اٹھی
" مگر بیٹا تمہارے سامنے ہی تو سارا کام میں اور نگہت کرتے ہیں وہ تو نگہت
کے سکول جانے کی وجہ سے شازیہ نے خود ہی ناشتا بنانے کی ذمہ داری لے لی تھی
ورنہ تو ہم اسے کوئی کام نہیں کرنے کو کہتیں منے کو بھی ہم ہی سنبھالتی ہیں-"
ان کی بات سن کر وہ پل بھر کو گڑبڑایا تھا
" اوہ اچھا تو یہاں کھچڑی پک رہی ہے بیٹے کو بہو کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے
"- شازیہ نے جو شوہر کو خاموش ہوتے دیکھا تو تن فن کرتی اندر داخل ہوئی تھی
-
" اماں خدا کا واسطہ ہے یہ جہل عورتوں والے کام چھوڑو اور بیٹے بہو میں
ناچاقی ڈلوا کر گھر کا ماحول خراب کرنے والے گھٹیا کام مت کرو -" اسے
دوبارہ زبان مل گئی تھی وہ چلایا اماں آنکھوں میں چمکتے آنسو لیئے اپنے
ہاتھوں سے لگائے اس پودے کو کھڑی دیکھتی رہیں - جو تناور درخت بنکر انہیں
سے اپنی سایہ دار شاخیں چھڑوا رہا تھا-
" اور یہ نگہت کی پڑھائی کے چونچلے بند کرو اب - میں اب بال بچے دار آدمی
ہوں اتنے خرچے پورے نہیں کر سکتا کل کو اسکی شادی بھی کرنی ہے شازیہ بھی
اتنا پڑھ لکھ کر گھر اور بچے سنبھال رہی ہے وہ پڑھ لکھ کر کونسے تیر مار لے
گی گھر داری سکھاؤ اسے چائے تک تو بنتی نہیں ہے اس سے - اور اماں تم بھی
کوئی کام دھندا کر لیا کرو یہ گنٹھیا اور کچھ نہیں بس ویلھڑ کے چونچلے ہیں-"
وہ کتا جھکتا بہر نکل گیاتھا یہ جانے بغیر کہ اسکے الفاظ پیچھے ماں کے دل
کو کیسے چیر رہے تھے - وہ تقریبأ بھاگتی ہوئی اٹھی اور جلدی جلدی برتن
دھونے لگی ممتا کا جذبہ بھی برتن دھوتے صابن کے ساتھ گھلتا جارہا تھا اور
پیچھے کچھ رہ گیا تھا تو صرف خوف ، روٹی کا خوف---
"اماں بھیا تو کہتے تھے مجھے بہت سا پڑھائیں گے بھیا کو اب کیا ہو گیا ہے
اماں- " وہ زاروقطار روتے اماں سے فریاد کناں تھی جسکا چہرہ کسی قسم کے بھی
دکھ سے عاری تھا
" وہی جو کئی برس پہلے تیرے ابا کو ہوا تھا جو بہت سال بعد منے کو ہو جائے
گا وہی بیماری لاحق ہوئی ہے تیرے بھیا کو ہر عورت جب بیہ کر آتی ہے تو وہ
خود کو ملکہ سمجھتی ہے سب رشتے پیچھے ہٹا کر خود سب کچھ بن جاتی ہے بے وقف
ہوتی ہے جانتی نہیں زوال تو ہر شے کو ہے کل جب وہی مرد جس کے سر پر وہ
اکڑتی رہی ہے بوڑھا ہو گا اسکی گدی کوئی دوسرا سنبھال لے گا کیونکہ گدی اسی
کی جو ٹک دے اور ملکہ وہی جسکا گدی والا ہو- |
|