مسالک کے بعد فکری اور تنظیمی تشدد
(Altaf Hussain Nadvi, India)
ذرا سنبھل جاؤ تیری بے خبری میں کوئی اجھاڑ
نہ ڈالے تیرا وطن
جب کسی قوم کے اصول بدل جاتے ہیں تو پھر ان کے فکری سوتے بھی خشک ہونے لگتے
ہیں ۔شفاف خیالات اور پاکیزہ تصورات کے برعکس بد بودار علم سے پوری ملت حتیٰ
کہ انسانیت بھی متاثر ہو جاتی ہے ۔ایک نسل ان غلط خیالات سے لڑتی ہے اس کے
بعد دوسری نسل لڑنے کے برعکس ’’اظہارِنفرت‘‘کرتی ہے اور تیسری نسل ان کو
قابل برداشت مانتے ہو ئے آگے بڑھنے کی بات کرتی ہے جبکہ چوتھی انھیں قبول
کرکے مخالفین کو ’’اپنوں کے بجائے غیر‘‘تصور کرتے ہو ئے پہلے مباحثہ اور
مناظرے کا آغاز کرتے ہو ئے ہمنوا بنانے کی کوشش کرتی ہے ناکامی کی صورت میں
انہیں دشمن قرار دیکر ان سے باضابط جنگ کا آغاز کرتی ہے ۔یہی کچھ ہمیں’’
مسالک کے تاریخی سفر ‘‘میں نظر آتا ہے ۔نبی کریمﷺ کے دور مبارک کے بعدکئی
سو برس تک مسلمانوں میں مسالک کی کوئی نظیر نظر نہیں آتی ہے ۔اختلافات بے
شک تھے مگر انھوں نے مسالک یا فرقوں کی شکل اختیار نہیں کی تھی سوائے اہل
تشیع اور اہل سنت والجماعت کے ۔ابتداء میں انھیں علماء مسالک کے برعکس
مکاتب فکر خیال کرتے تھے مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ مکاتبِ فکر پہلے
فرقے پھر باضابط مسالک بن گئے اور اب معاملہ اسے بھی گمبھیر دکھائی دیتا ہے
۔
ٹھنڈے پیٹوں غور و فکرکے بعد جب آپ شیعہ سنی مسئلہ کے آغاز پر غور کریں گے
تو آپ کو صاف صاف یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ چند شوریدہ سر افراد نے سیدنا
حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں مدینہ میں ’’اہل بیت کی محبت کا دم
بھرتے ہوئے‘‘ایسا طوفان برپا کردیا کہ پھر امن قائم ہو جانا ایک ناممکن
خواب بن گیا۔مسئلہ خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ اورخلیفہ چہارم سیدنا
حضرت علی المرتضیٰؓ کے ’’حقِ خلافت‘‘سے شروع ہوا مگر بعد میں اس نے ایسا
خوفناک رُخ اختیارکرلیا کہ اب تک جنگ جاری ہے ۔اس اختلاف کی ایسی صورت خود
ان بزرگوں کے دور میں نہیں تھی جیسی بعد والوں نے کتابیں لکھ لکھ کر بنا دی
اب تو معاملہ ’’تفضیل صحابہؓ‘‘سے نکل کر علماء اور قلمکاروں نے ’’کفرواسلام‘‘کا
بنا دیا ہے ۔اس کے چند حیرت انگیز رُخ ملا حظہ فرما لیجیے ۔حضرت علی
المرتضیٰ ؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے بیچ جنگ چھڑ گئی جو نبی کریمﷺ کی پیشن
گوئی کے عین مطابق سیدناحضرت امام حسن مجتبیٰؓکی حکومت سے دستبرداری پر رُک
گئی ۔پھر امن و امان قائم ہوا یہاں تک کہ ’’سانحہ کربلا‘‘پیش آیا اس حادثہ
فاجعہ نے اُمت کو ہر پہلو اور ہر سطح پر مجروح کردیا اس لئے کہ یہ معاملہ
خانوادہ محمدیﷺ کا تھا جن سے متعلق آپؐ نے پہلے ہی باخبر کیا تھا کہ خبردار
میرے اہل بیت کو تکلیف نہ دینا۔
بنو اُمیہ کے بعد بنو عباس پھر بنو فاطمہ نے حکومتیں قائم کر کے مسلمانانِ
عالم کے لئے بے مثال رفاعی کام انجام دئیے مگر مسلمانوں کے آپسی اختلافات
کے خاتمے کے لئے کوئی سنجیدہ کام کرنے کے بجائے ہر مخالف پر تلوار سونت لی
یہاں تک کہ نفرتیں بڑھیں اور عداوتوں نے ملکوں اور سلطنتوں کو تاراج کردیا
۔ہر فرقے نے اپنے فرقہ اور مسلک کو دین کی شکل دینے کی بھرپور کوشش کی یہاں
تک کہ اپنے آپ کو برحق اور مخالف کو برباطل ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث
سے چیزیں مستعار لیکر ان میں مکمل معنوی تحریف کی گئی ۔حد یہ کہ اسی دورمیں
احادیث گھڑنے والوں کا ایک بڑا طبقہ وجود میں آیا جو حاکم وقت سے داداور
مال وصولنے کے لئے اس کے اور اس کے آباء کے لئے جھوٹیں بشارتیں بیان کرتے
تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہر فکر کے حامی اور مخالفین کا ایک وسیع طبقہ وجود
میں آگیا اور ان کی پشت پر حکومتیں قائم ہوئیں تو نتیجہ یہ نکلا کہ ہر فکر
،ہر فرقہ اور ہر مسلک نے اپنی اپنی جگہ ’’دین‘‘کا روپ دھار لیا ۔پھر جس نے
بھی ان مسالک و فرق پر تنقید کرنے کی جرأت کی اس کے خلاف کفر کا فتویٰ لگ
جانا یقینی امر تھا اس بد تمیزی نے ہر مسلک و فرق کوایک دوسرے سے دور کر کے
ایسی خلیج پیدا کردی جیسی کفار اور مسلمانوں کے بیچ بھی روا اور جائز نہیں
ہے کہ معاملہ ترکِ کلام سے بڑھکر سوشل بائیکاٹ تک بھی پہنچ جاتا تھا ۔پھر’’
متشددعلماءِ ‘‘سامنے آکر جلتی آگ پر پیٹرول چھڑکتے تھے وہ توسع کے بجائے
تنگی اور نرمی کے بجائے شدت پیدا کر کے فتوؤں کا طوفان برپا کرتے تھے اور
بسااوقات ’’حکمِ کفر سے بہت آگے نکل کر ارتداد کا فتویٰ‘‘ صادر کرتے تھے۔
پہلے دو بڑے مسلک شیعہ اور سنی اور پھران دونوں کی کوکھ سے کئی اورمسالک نے
جنم لے لیا ،شیعہ سنی مسالک کے بیچ خلیج پاٹنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب
نہیں ہو پائی ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کی کوئی اُمید نظر آتی ہے اس لئے
کہ یہ دوریاں صدیوں پرانی ہیں ۔عقائد سے لیکر اصول تک جگہ جگہ ایسی گہری
کھائیاں نظر آتی ہیں جن کو عبور کرنے کی ہمت کسی سے بھی ممکن نہیں ہو سکتی
ہے اور اگر کسی نے کبھی کسی سنجیدہ کوشش کا آغاز کر بھی لیا اُس کو بہت
بدنام کیا گیا یا اس کویہودیوں اور عیسائیوں کا ایجنٹ قرار دیدیا گیا۔ شیعہ
سنیوں میں دوریاں پیدا کرنے کے لئے ایک ’’متشدد طبقہ‘‘ہر دور میں پیدا ہوا
بلکہ انہی متشددین کی پشت پناہی حکومتوں نے بھی کی ۔ان کو خوب مال و زر سے
نوازا گیا ۔ان متشددین کی حمایت میں علماء کا ایک طبقہ بھی ہر دور میں پیش
پیش رہا ہے جن کے علم کا حاصل صرف ایسا ’’فتویٰ جاری کرنا ‘‘ہوتاہے جس میں
تاویل وتطابق کی گنجائش تو ہوتی ہے پر وہ جان بوجھ کر ایک ایسی جہت متعین
کرتے ہیں جہاں سے خون کا سمندر بہہ سکتا ہے اور پھر جب جنگ رُک جاتی ہے تو
سوائے پشیمانی کے کچھ بھی ہاتھ میں نہیں آتا ہے ۔
2010ء میں ’’بہارِعرب‘‘کے بعد جس طرح متشددین نے عرب دنیا کو ایک خوفناک
مصیبت میں ڈالدیا ہے نے گذشتہ تمام ریکارڈ مات دئیے ۔شام ،عراق اور یمن کی
مخلوط شیعہ سنی آبادیوں کو ایک دوسری کی گردنیں کٹانے پر جو شرمناک رول
باہر کے ’’بدمعاشوں‘‘کا رہا وہ ہر ایک کے سامنے ہے ۔اپنے حقیر مفادات کے
خاطر تین سرسبزوشاداب مسلم ممالک کو مکمل طور پرتباہ کردیا گیا ہے جہاں اب
صرف لاشیں اور ان کو نوچتے جانور نظر آتے ہیں جن شیاطین نے عرب دنیا میں
عوامی جائز مطالبے کو بندوق کی بھینٹ چڑھا کر اپنے حقیر مفادات کے لئے
’’شیعہ سنی جنگ‘‘شروع کرادی انھیں جان لینا چاہیے کہ ساڑھے تیرہ سو برس میں
صرف ہمارے حصے میں لاشیں اور قبرستان آئے مگر نہ کسی سنی نے سنیت اور نہ ہی
کسی شیعہ نے شیعت چھوڑی بلکہ دونوں میں اس قدر شدت اور نفرت پیدا ہوئی کہ
پھر صرف وقت ہی اس کا مرہم کر پایانہ کہ کوئی حکمران یا عالم ۔میں نے حال
ہی میں ہندوستان کے ایک متبحراور جید عالم جن کا میلان ’’شیعہ اثنا اشعری
کے کفر ‘‘کی طرف زیادہ ہے سے یہ سوال پوچھا کہ شام وعراق کی خونین جنگ سے
ہمیں لاشیں ہی ملی مگر شیعت و سنیت اپنی جگہ قائم ہیں اور دوریاں خوفناک حد
تک پیدا ہو چکی ہیں ، لکھے پڑھے لوگ علماء کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں
تو آپ کے نزدیک اب اسکا حل کیا ہے؟کافی دیر خاموشی اور غور وفکر کے بعد
انھوں نے مایوس کن جواب دیا کہ شیعہ سنی مسئلے کو اس حد تک نہ بڑھایا جائے
کہ آپس میں جنگ وجدال کا بازار گرم ہو میں نے عرض کیا جناب’’ فتویٰ
کفروارتداد‘‘ آنے سے پہلے اگر توسع سے کام لیا جاتا تو شاید ہمیں یہ دن نہ
دیکھنے پڑتے اس پر وہ خاموش ہوگئے اور مجھے ان کی طویل خاموشی نے رخصت لینے
پر مجبور کردیا ۔
شیعہ سنی مسالک تو اپنی جگہ ایک قدیم حقیقت ہے مگر اب ان کی کوکھ سے ایسی
متشدداور ایک دوسرے سے نفرت کرنے والی نسل جنم لے چکی ہے کہ اعتدال پسند
مسلمانو ں کو بھی چاروناچار ایک طرف اپنا وزن ڈالنا پڑتا ہے۔ مسلکی منافرت
کے پسِ منظر میں ان کے بطن سے ایسی متشدد تنظیمیں جنم لے چکی ہیں کہ دونوں
ایک دوسرے کا علاج تلوار اور گولی قرار دیتے ہیں ۔حال ہی میں ایک کتاب دیکھ
کرمیں ششدر رہ گیا جس میں شیعہ تو درکنار ’’جہادی سنی‘‘ حضرات اپنے لوگوں
سے متعلق ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے چند
نمونے قارئین بھی ملاحظہ فرمائیں :’’غیر شرعی افغان طالبان ،افغان طالبان
یعنی امارات اسلامیہ افغانستان کی موجودہ قیادت دین سے انحراف کر چکی ہے
،مرتد سابقہ اخوانی حکومت ،ناپاکستان کی مشرک و بدترین کافر و مرتد
افواج‘‘۔یہ باتیں اور فتوے کوئی نئی بات نہیں ہے اس لئے کہ پہلے بھی لوگوں
نے ایسے ایسے گل کھلائے ہیں کہ ایک عام قاری الفاظ پڑھ کر دہل جاتا ہے میں
یہاں سنی علماء کے ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ کی ایک جھلک پیش کروں گا تاکہ
یہ بات معلوم ہوجائے کہ آج پوری مسلم دنیا میں پھیلی تکفیری تنظیمیں اور
گروہ ان کے واعظین اور علماء جو کچھ کرتے ہیں یہ وہی پرانے فتوے اور جملے
ہیں جن کو نئے اسالیب یا قالب میں ڈال کر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا
رہا ہے ۔میں یہاں جان بوجھ کر مصنفین اور کتابوں کے حوالے نہیں دے رہا ہوں
تاکہ ہماری تحریر کسی مزید بد مزگی کا باعث نہ بنے البتہ یہ بات معلوم ہو
جائے کہ مسالک کی کوکھ سے جنم لینے والی تنظیمیں اور مختلف مکاتب فکر ایک
دوسرے کے متعلق کیا کیا لکھتے رہتے ہیں اور یہ کہ ان کے ہاں ’’کفر کا
فتویٰ‘‘داغ دینا کتنا سستا ہے ۔مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی اور جماعت
اسلامی سے متعلق فتویٰ ،ملاحظہ فرمائیں مگر نعوذ باﷲ پڑھکر: ’’مودودی صاحب
کی تصنیفات کے اِقتباسات کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان کے خیالات اِسلام کے
مقتدیان اور انبیائے کرام کی شان میں گستاخیاں کرنے سے مملوہیں۔ ان کے ضال
اورمضل ہونے میں کوئی شک نہیں۔ میری جمیع مسلمانان سے اِستدعا ہے کہ ان کے
عقائد اور خیالات سے مجتنب رہیں اور ان کو اسلام کا خادم نہ سمجھیں اور
مغالطہ میں نہ رہیں۔حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اصلی
دجّال سے پہلے تیس دجّال اَور پیدا ہوں گے ۔ میری سمجھ میں ان تیس دجّالوں
میں ایک مودودی ہیں‘‘۔’’میں آج یہاں پریس کلب حیدر آباد میں فتویٰ دیتا ہوں
کہ مودودی گمراہ کافر اور خارج از اسلام ہے۔ اس کے اور اس کی جماعت سے تعلق
رکھنے والے کسی مولوی کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز اور حرام ہے اس کی جماعت
سے تعلق رکھنا صریح کْفر اور ضلالت ہے‘‘۔مولانا احمد رضا خان اور بریلوی
مکتبہ فکر سے متعلق فتویٰ’’یہ سب تکفیریں اور لعنتیں بریلوی اور اس کے
اتباع کی طرف لَوٹ کر قبر میں ان کے واسطے عذاب اور بوقت خاتمہ ان کے موجب
خروج ایمان و ازالہ تصدیق و ایقان ہوں گی ‘‘۔سلفی جنہیں یہاں عرف عام میں
ہم اہلحدیث کہتے ہیں سے متعلق فتویٰ’’تقلید کو حرام اور مقلّدین کو مْشرک
کہنے والا شرعاً کافر بلکہ مْرتد ہوا، اور حکامِ اہلِ اسلام کو لازم ہے کہ
اس کو قتل کریں اور عْذر داری اس کی بایں وجہ کہ ’’مجھ کو اس کا عِلم نہیں
تھا’’ شرعاً قابلِ پذیرائی نہیں بلکہ بعد توبہ کے بھی اس کو مارنا لازم ہے۔
یعنی اگرچہ توبہ کرنے سے مسلمان ہو جاتا ہے لیکن ایسے شخص کے واسطے شرعاً
یہی سزا ہے کہ اس کو احکامِ اہلِ اِسلام قتل کر ڈالیں‘‘۔غیر مقلدین جہنم کے
کتے ہیں۔ رافضیوں کو ان سے بدتر کہنا رافضیوں پر ظلم اور ان کی شان خباثت
میں تنقیض ہے۔ "کفر میں مجوس یہود و نصاریٰ سے بدتر ہیں، ہندو مجوس سے بدتر
ہیں۔ اور وہابیہ ہندوؤں سے بھی بدتر ہیں‘‘۔دیوبندیوں حضرات سے متعلق
فتویٰ’’ ’’وہابیہ دیوبندیہ اپنی عبارتوں میں تمام اَولیاء انبیاء حتّٰی کہ
حضرت سَیدالاوّلین و آخرین صلی ااﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اور خاص ذاتِ باری
تعالیٰ شانہ، کی اہانت وہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مْرتد و کافر ہیں اور ان
کا اِرتداد کْفر میں سخت سخت سخت اشدّ درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جو ان
مْرتدوں اور کافروں کے اِرتداد و کْفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہیں
جیسا مْرتد اور کافر ہے اور جو اس شک کرنے والے کے کْفر میں شک کرے وہ بھی
مْرتد و کافر ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل ہی مْحترز، مْجتنب
رہیں۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز
نہ پڑھنے دیں اور نہ اپنی مسجدوں میں گھسنے دیں۔ نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور
نہ ان کی شادی غمی میں شریک ہوں۔ نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں۔ یہ بیمار ہوں
تو عیادت کو نہ جائیں۔ مریں تو گاڑنے میں شرکت نہ کریں۔ مسلمانوں کے
قبرستان میں جگہ نہ دیں۔ غرض ان سے بالکل احتیاط و اجتناب کریں۔۔۔۔۔۔پس
وہابیہ دیوبندیہ سخت سخت اشدّ مْرتد و کافر ہیں ایسے کہ جو ان کو کافر نہ
کہے خود کافر ہو جائے گا۔ اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو
اولاد ہو گی وہ حرامی ہو گی اور از رْوئے شریعت ترکہ نہ پائے گی‘‘
ان چند نمونوں سے آپ کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ مسلمانان عالم میں بہت پہلے
جو تقسیم بندی مختلف مسالک کی شکل میں ہوچکی ہے وہ اب مختلف مکاتب فکر اور
تنظیموں کی شکل میں بھی جاری ہے ۔ہم ایک دوسرے کو کافر اور مرتد قرار دینے
میں جس بے باکی کا مظاہرا کرتے ہیں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم میں عدم
برداشت کس حد تک پیدا ہوچکا ہے اور پھر جب معاملہ مذہب کے ترجمانوں کی بے
صبری کا ہوتو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معاملہ کس قدر گمبھیر رُخ اختیار
کر چکا ہے ۔المیہ یہ کہ مختلف مسالک و مکاتب فکر نے تنقید و تنقیص کا دائرہ
اس قدروسیع کردیا ہے کہ صحابہ کبارؓ،اہلِ بیت طہارؓ،تابعین عظام ؒ،مجتہدین
ِاسلامؒ اور اولیاء کرامؒ تک کو بھی نہیں بخشا جاتا ہے بلکہ بعض حضرات نے
کمینگی کی آخری حدیں عبور کرتے ہو ئے باضابط اس غلیظ مہم کے دفاع کے لئے
ضخیم کتابیں لکھی ہیں ۔ حیرت یہ کہ اس کے نتائج سے مذہبی طبقہ بڑی حد تک بے
خبر خانقاہوں اور مدارس میں بے فکر ہو کر بیٹھ چکا ہے حالانکہ یہ فتوے یا
تو مختلف مسالک ومدارس کے ہیں یا مسال ومدارس اسلامیہ سے وابستہ علماء کے ۔
ایک اہم بات جو یہاں بتانا ضروری ہے کہ بسااوقات کسی کے غلط عقائد،نظریات
اور افکار پر تنقید کرتے ہو ئے صحیح بات بیان کرنا یا امت تک پہنچانا
ناگزیر ہوتا بلکہ یہ اہم ترین دینی اُمور میں سے ایک اہم امر قرار پاتا ہے
۔اسلام شائستگی کے ساتھ ’’اختلاف اور تنقید‘‘سے منع تو نہیں کرتا ہے مگر وہ
بد زبانی ،فحش اور مجروح کردینے والے الفاظ کے استعمال سے سختی سے منع کرتا
ہے ۔فتویٰ کے وقت مناسب الفاظ کا انتخاب ہر ایرے گیرے کا کام نہیں ہوتا ہے
الفاظ سے حکم بدل بھی جاتا ہے اور بسااوقات اثرات ہی زائل ہوتے ہیں ۔ہر ایک
کا کام فتویٰ دینا بھی نہیں ہے مصیبت یہ کہ جن سے سلیقے کی امید کی جاسکتی
تھی انھوں نے ہی شرافت کا گریبان بیچ چوراہے پر چاک کرڈالا ہے ۔ہم نے سات
سو سال پہلے ’’گلشن اسلام ‘‘کے ’’چمنستانِ سائنس بغداد‘‘کو اجڑتے ہو ئے
دیکھا ہے ،اس کے بعد 2003ء میں ہم نے پھر اس کو تباہ ہوتے دیکھا ہے ،ہم نے
فلسطین کو یہودیوں کی کوکھ میں گرتے دیکھا،ہم آج شام و عراق کا قتل عام سر
کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ،ہم نے یمن کو تباہ ہوتے دیکھا ہے ، ہم نے
افغانستان کو پہلے روس اور اب امریکہ کے ہاتھوں برباد ہوتے دیکھا ہے ۔ہم نے
ماضی قریب میں بودھ بھکشوں کے ہاتھوں برمامیں خوفناک قتل عام کا منظر بھی
دیکھا ہے ،ہم نے پاکستان کی مساجد اور امام باڑوں میں معصوم بچوں کے اڑتے
چھیتڑوں کا مشاہدہ کیا ہے ،ہم نے گجرات میں نیزوں پر اچھالے گئے معصومین کی
سوختہ لاشیں بھی دیکھی ہیں اور ہم کشمیر میں روز مرتے ہیں مگر اس سب کے
باوجود ہمیں ایک دوسرے سے لڑ جھگڑنے کی خوب فرصت میسر ہے خدا جانے ہم کس
مٹی کے بنے ہیں ۔
اختلاف برا ہے نہ تنقید۔مگر اس راستے سے ایک دوسرے کو ذلیل کرنا ،کافر
،مرتد اور واجب القتل قرار دینا کیا معنی رکھتا ہے ؟کہیں ہم اپنے طرز عمل
سے نئی نسلوں کو غلط پیغام تو نہیں دیتے ہیں ؟کہیں ہم انہیں جانے یا ان
جانے غیروں کی جانب دھکیل تو نہیں دیتے ہیں !کہیں ہم مذہب ہی کے نام پر
خلاف مذہب کام تو نہیں کرتے ہیں ؟کہیں مسلمانان عالم ایک معمولی سی جنگ میں
الجھ کر کشمیر سے لیکر فلسطین تک اصلی دشمن کو نظر انداز تو نہیں کرتے
ہیں،مجھے یقین ہے اور اﷲ نہ کرے میرا یہ یقین سچ ثابت ہو کہ دراصل ہم نے
’’غیروں میں دعوت‘‘کا کام ترک کردیا ہے اور اپنوں کی اصلاح سے غافل ہو چکے
ہیں اور ہمارا سارا زوراور توجہ نعروں پر رہتی ہے اس غفلت کے نتیجے میں اﷲ
ہم سے ناراض ہوا ہے اور اس کے غضب نے ہمیں ایک دوسرے سے ہی الجھا دیا ہے
۔ہمارا دشمن ہماری اس کمزوری سے بہت اچھی طرح واقف ہے ۔وہ جانتا ہے کہ
مسلمان شاہرائے مستقیم سے ہٹ چکا ہے اور مقصدِ حیات بھول چکا ہے یہ میرے
لئے تر نوالہ ہے لہذا میں اس کو جیسے چاہوں الجھا سکتا ہوں ۔ہماری غلط
ترجیحات نے ہمیں ایک دوسرے سے لڑاتے لڑاتے فنا کے قریب پہنچا دیا ہے ۔ہم کو
کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے ہم خود اپنے بہت بڑے دشمن ہیں ۔ہمارے بیچ
یہودیوں اور عیسائیوں کو ایجنٹ بنانے کی بھی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ ہم
خود ہی ان کا کام بلا کسی معاوضے کے انجام دیتے ہیں۔دینی تحریکات عالم
مدہوشی میں بس ’’اجتماعات اور تقاریر‘‘میں مصروف ہیں یہ سمجھے بغیر کہ جب
معاملہ اور بگڑ جائے گا تو پھر ان کی باری بھی آجائے گی اور آج جس طرح شام
و عراق مصر سمیت لبرل اور سیکولر ازم کی راہ پر رواں دواں ہیں عالمی
استعمار پورے عالم اسلام کو اسی راستے پر چلانے کا متمنی ہے ۔غفلت کی انتہا
یہ کہ فرض کیا جا چکا ہے کہ کشمیر میں یہ آگ نہیں پھیلے گی یہ مکمل بے حسی
اور بے خبری ہے اگر ہم نے آج ہی ہوش کے ناخن نہیں لئے تو بہت جلد یہ آگ
یہاں بھی وحشتانک روپ میں ظاہر ہوگی پھر معاملہ اردو ضرب المثل کے مصداق
ہوگا ’’جب چڑیا چکھ گئی کھیت پھر پچھتاوے کیا ہوت‘‘۔ |
|