مختصر کہانی: ام شافعہ،کراچی
موسیقی کی دھنوں پر تھرکتا وجود ،آخری دھن یہ تھما تو اردگردکھڑے تماشہ بین
اٹھ اٹھ کر داد دینے لگے ۔۔پیچھے کی طرف کرسیوں پہ براجمان لڑکیوں نے چیخ
چیخ کر تالیاں بجا کر رقاصہ کو داد پیش کی۔ میک اپ سے لھتڑے مصنوعی چہرے ،دوپٹے
سے بے نیاز خواتین ،نازو انداز کے کرشمے اور مر د وں کی بے باک نظریں ،یہ
منظر پاکستانی مشہور ٹی وی چینل کے صبح کے پروگرام کا تھا۔ تالیوں اور
سیٹیوں کا شور و غل ذرا تھما تو پروگرام کی میزبان اٹھلاتی آگے بڑھی اور
رقاصہ کو ملک کی بیش قیمت اثاثہ قرار دیا اور اس کا پاکستانی عورت ہو نے
فخر کر نے لگیں ۔ داد و تحسین سے ایک بار پھر سماں گونج اٹھا۔ بے شرمی کی
ایسی ہڑبونگ مچی کے ،اپائج شرم و حیا، نے اپنے وجود کو وہاں سے گھسیٹ کر
نکل جانے میں ہی عافیت جانی ۔جی بالکل شرم و حیا تو عورت کا زیورہے ۔۔ایک
عورت اس کے بغیر نامکمل ہے۔معاشرے کی عورت پاکیزہ ہے ،با پردہ ہے ،جھکی
آنکھوں والی ہے تو اک پاکیزہ معاشرہ جنم لے گا اور ویسے بھی تو ہمارے
پیغمبر ﷺ نے حیا کو ایمان کی ایک شاخ قرار دیا ۔ماہ رمضان کی ٹرانسمیشن کے
مصنوعی نورانی ماحول میں یہ گفتگو جاری تھی ۔مرد و زن کے آزادانہ احتلاط سے
بھرا سٹوڈیوں تالیوں سے گونج اٹھا ۔۔ایک طرف مولانا صاحب نظریں جھکائے ہاں
میں ہاں ملاتے نظر آئے ۔دوسری طرف اوپر کی طرف بیٹھی شیڈ پہ کچھ نعت خواں
حضرات نے اتنی خوبصورت بات پہ داد طلب نظروں سے دیکھا ۔باریک دوپٹے کو سر
کے آخری سرے پن سے بمشکل چپکائے میزبان خاتون تو واہ واہ کے نارے لگانے لگی
۔۔اور ایک بار پھر مہمان خصوصی ،ملکی بیش قیمت اثاثہ ،کو شرم و حیا کی
فضیلت پہ روشنی ڈالنے کے لئے کہا گیا ۔۔جسے قبول کیا گیا اور ٹی وی سکرین
کے اس پار بیٹھے عقیدت مند ناظرین حالت روزہ میں ،بنا پلکیں جھپکائے اس پر
نور محفل کا نظارہ دیکھنے میں مشغول ہو گئے ۔ انتیسواں روزہ تھا ،جیسے ہی
عید کا اعلان ہوا ہر طرف مبارک باد کی صدائیں گونج اٹھیں۔ مٹھائیاں ،مسکرائٹیں
،بٹنے لگیں ۔۔بروز عید رمضان پروگرام کی مہمان خصوصی ،سٹیج پہ ناچتے بدن کے
ساتھ قوم کو شرم و حیا کا ایک نیا درس دے رہی تھیں ۔۔جیسے بھولی عوام
آنکھیں پھاڑے ،منہ کھولے دیکھنے میں مصروف تھی۔ |