یہ واقعی حیرت انگیز حقیقت ہے اور دنیا میں
اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی کہ ایک کتاب پروف ریڈنگ کے بغیر منظر عام پر
آئے اور اُس میں املا اور گرامر کی ایک بھی غلطی نہ ہو۔ مزید یہ کہ وہ کتاب
۲۳ سال کے طویل عرصہ میں مکمل ہو ،صاحب کتاب لکھنا پڑھنا نہ جانتے ہوں اور
اس کی کتابت بھی بہت سے لوگوں نے کی ہو۔ دور جدید کی لکھنے پڑھنے کی
سہولتیں، کمپوزنگ کے ذرائع، کمپوٹر، لغات اور دوسری آسانیاں بھی میسر نہ
ہوں اور چودہ صدیاں گذرجانے کے بعد بھی کوئی ایک غلطی یا سہو بھی سامنے نہ
آیا ہو اور نہ اس کی مثل بلکہ چھوٹا سا ٹکڑا بھی کوئی نہ بنا سکا ہو تو
مانا پڑے گا کہ یہ ایں کتاب نیست چیزے دیگرا ست یعنی یہ محض ایک کتاب نہیں
بلکہ کچھ اور ہے ۔ اس جدید دور میں لکھنے پڑھنے کے بہترین ذرائع ہونے کے
باوجود کوئی کتاب پروف ریڈنگ کے بغیر چھپ ہی نہیں سکتی اور یہ بھی ممکن ہے
کہ مصنف کی تمام تر احتیاط کے بعد اورپروف ریڈنگ کرنے والوں کی محنت اور
یہاں تک کہ کمپوٹر کی مدد کے بعد بھی بعض اوقات کتاب میں اغلات موجود ہوتے
ہیں۔ صرف قرآن حکیم واحد مثال ہے جو اس سے مبرا ہے اور منجانب خدا ہونے کے
لیے صرف یہی دلیل کافی ہے۔ قلب نبوی پر جو قرآن اترتا تھا وہ محفوظ ہوتا
جاتا تھا اور کاتبین وحی لکھتے جاتے تھے۔ وہی حتمی اور آخری ورژن تھا اور
کسی کانٹ چھانٹ کا سوال ہی نہیں تھا۔ اس کتاب کاا دبی حسن بھی اپنی مثال آپ
ہے اور اس میں بیان کیے گئے حقائق کے سامنے دور جدید کی سائنسی تحقیق سر
تسلیم خم کرنے پر مجبور ہے۔ نہ اس میں بیان کی گئی پیشین گوئی میں سے کوئی
غلط ثابت ہوئی ہے اور نہ اس میں بیان ہوئے حقائق کو جھٹلا سکا ہے۔ یہ عظیم
کتاب قرآن حکیم ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود خالق کائنات نے لی ہے۔ اس
کا ہر حکم ہر دور کے لئے ہے اور اس کا کوئی حکم معطل یا منسوخ نہیں ہے ۔
خدا نے جو کہنا تھا اس کتاب عظیم میں کہہ دیا اور وحی صرف قرآن حکیم میں ہے۔
یہ بندے اور رب کے درمیان تعلق پیدا کرتی ہے اور انسان کو اس کے مقام سے
آگاہ کرتی ہے۔ مختلف موضوعات اور مضامین بیان کرنے کے باوجود اس میں ربط
بھی ہے انداز بیان بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وہ معجزہ ہے کہ عرب کے اُس دور
کے عظیم شاعر لبید کو بھی کہنا پڑا کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں۔یہ خود نور
ہے اس لیے اسے کسی اور روشنی کی ضرورت نہیں۔یہ اپنی تفسیر خود کرتی ہے ۔ اس
کی سورتیں اور آیات ایک مربوط حسابی نظام کے تحت ہیں۔اس میں دئیے احکامات
بہت واضح اور سمجھنے میں آسان ہیں۔ صاحب قرآن کی پوری زندگی اس کی عملی
تفسیر تھے۔ ارشاد ربانی ہے کہ اسوہ حسنہ تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ قلب
جتنا عشق مصطفےٰ ﷺ کی شمع سے فروزاں ہوگا اسی قدر قرآن سے گہرا تعلق ہوگا
اور زندگی اس کی پیروی میں ہوگی۔
سورہ حم سجدہ کی آخری دو آیات میں کیا زبردست دعویٰ کیا اور وہ بھی اُس وقت
جب مکہ میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہ تھی۔اس وقت کے مخاطبین نے اسے اہمیت
نہ دی لیکن تاریخ نے ثابت کیا ور دور حاضر بھی اس کی سچائی پر گواہ ہے۔
ارشاد ہوتا ہے کہ ہم عنقریب اُن کو نفس انسانی کے اندر اور خارج کی دنیا
میں اپنی نشانیاں دیکھائیں گے کہ اُن پر ثابت ہوجائے کہ قرآن ایک سچی کتاب
ہے۔ یہ لوگ قرآن کی صداقت سے اِس وقت انکار کرتے ہیں لیکن ہم ایسے حالات
پیدا کرتے جائیں گے کہ جب یہ نظامِ عرب سے آگے بڑھ کر اور علاقوں میں پھیل
جائے گا اور ہمارے قانون کی صداقت کی محسوس نشانیاں نظر آجائیں گی۔ حتیٰ کہ
یہ حقیقت ان کے سامنے نکھر کر آجائے گی کہ قرآن نے جو کچھ ان سے کہا تھا وہ
حق پر مبنی تھا۔ جوں جوں علم انسانی بڑھتا جائے گا اور دنیا پر نئے نئے
حقائق منکشف ہوتے جائیں گے، حیاتایات، طبعیات،علم طبقات الارض، نفسیات اور
دوسرے علوم سے حقائق واضح ہوتے جائیں گے اور یوں دنیا رفتہ رفتہ دیکھ لے گی
کہ قرآن کی ہر بات حقیقت پر مبنی ہے۔ یہ اس لئے کہ یہ کتاب اْس خدا کی طرف
ہے جو کائنات کی ہر شے پر نگران ہے۔ لیکن اس کے باوجودکچھ لوگ خدا کے قانونِ
مکافات کا سامنا کرنے کے متعلق شک کرتے ہیں اور اُس کے حضور پیش ہونے پر
یقین نہیں رکھتے ۔ اْس خدا کا علم اور قانون کائنات کی ہر شے کو ہر طرف سے
گھیرے ہوئے ہے۔ان واضح حقائق کے باوجود جو اس کا انکار کرتے ہیں ان کے بارے
میں اسی سورہ کی آیات ۴۱ اور ۴۲ میں ہے کہ و لوگ اس قرآن سے انکار کریں ،جب
وہ ان کے سامنے پیش کیا جائے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے اس انکار
سے قرآن کے قوانین پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ ایک ایسا ضابطہ حیات ہے کہ
آخرالامر اسی کو غالب آنا۔ باطل کی تخریبی قوتیں اس سے براہ راست ٹکراؤ
پیدا کریں یا دَر پر دہ سازشیں کریں اِس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں کیونکہ یہ
اْس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جو بہترین تدابیر کا مالک ہے ۔
قرآن کا رمضان کے ساتھ خصوصی تعلق ہے کیونکہ یہ اس کے نزول کا مہینہ ہے۔
روزہ کے لئے عربی میں صوم کا لفظ آیا ہے جس کا معنی رک جانا ، ضبط کرنا اور
غلط رستوں پر نہ چلنا ہے۔ روزے کے بہت سے طبی اور دوسرے فائدے ہوسکتے ہیں
لیکن قرآن حکیم نے سورہ بقرہ میں تین مقاصد بیان کیے ہیں۔اوّل تقویٰ کا
حصول یعنی اﷲ کے احکامات کی پیروی کے قابل ہوجاؤ، اس کے لئے پختہ عزم پیدا
ہو اور غلط راستوں سے بچنے کی جدوجہد کرو۔ دوم ولتکبروا اﷲ علی ماھدایکم
یعنی ہدایت اور قوانین خداوندی کو سب پر غالب کرسکو اور سوم تشکرون یعنی اس
سے حاصل ہونے والی جدوجہد بھر پور نتائج کی حامل ہو اوراس پر بارگاہ ایزدی
میں شکر ادا کرو۔ اپنے عظیم مقاصد کے لیے یہ روزے فرض کئے گئے ہیں اور جو
قوم سخت گرمی میں بیس گھنٹے سے زائد بھوک اور پیاس کا سامنا کرسکتی ہے وہ
دنیا کا ہر کام کرسکتی شرط یہ ہے کہ وہ اس کی روح سے آگاہ ہو لیکن ہمارا
حال یہ ہے روزے رکھنے کے باوجود اس کے مقصد اور روح سے دور ہیں جیسا کہ
حکیم الامت نے فرمایا تھا کہ
نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہیں ، تْو باقی نہیں ہے
|