ہلکا پُھلکا تشدد اور اس کے بعد

ان سارے علما کے منہ میں گھی شکر کہ جنہوں نے فرمایا کہ عورت پر تشدد کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے لفظ ہلکا پھلکا استعمال کیا، مگر جب تشدد ہی کرنا ہے تو کیا ہلکا پھلکا اور کیا بھاری بھر کم، مردوں کو تو عرصہ سے جس جور و ستم کا سامنا تھا وہ انسانی حقوق اور حقوق نسواں والے جس طرح عورتوں کو عرصے سے ہلا شیری دے رہے تھے۔ ہمارے علما نے اپنے ارشادات عالیہ سے مردوں کی صحیح ترجمانی کی ہے اور پچھلی ساری کسر پوری کر دی ہے۔ پچھلے پورے ہفتے اس خوبصورت بیان کا نشہ مجھ پر طاری رہا اور میں بہت خوش رہا۔ مگر اب جانے کیوں وسوسے سے ذہن میں اُبھرنے لگے ہیں۔

مجھے اپنے دوست ہاشمی صاحب یاد آئے۔ میں اور وہ بہت سال ایک کالج میں اکٹھے رہے۔ ایک دن میں پرنسپل آفس میں بیٹھا تھا، ہاشمی صاحب تشریف لائے تو پرنسپل صاحب نے پوچھا کہ آپ کو جو کام چھ دن پہلے کہا تھا، وہ کیا ہے یا نہیں؟ ہاشمی صاحب بلا کے ہڈ حرام تھے، وہ کام کیسے ممکن تھا کہ انہوں نے کیا ہوتا۔ چپ چاپ پرنسپل کو گھورتے رہے، پرنسپل صاحب نے دو تین دفعہ پوچھا، کوئی جواب نہ پا کر چڑھائی کر دی۔ ہاشمی صاحب کی تھوڑی سی بے عزتی ہوئی تو ڈھاریں مار مار کر رونے لگے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا ہوا؟ ۵۰ سالہ آدمی اس طرح روئے تو عجیب لگتا ہے۔ میرے سوال کے جواب میں کہنے لگے بھائی کچھ نہ پوچھو۔ اپنی قسمت ہی خراب ہے، گھر میں ہر وقت بیگم بے عزتی کرتی رہتی ہے اور کالج میں پرنسپل۔ آج ہاشمی صاحب کو علما نے ایک خوبصورت موقع عنایت فرمایا ہے پچھلے بدلے لینے کا، مگر سوچتا ہوں کہ وہ شخص جسے زندگی بھر بے عزتی کھانے اور بے عزتی پینے کی عادت پڑ گئی ہے وہ ایسے حالات میں پچھلی کسر کیسے پوری کرے گا؟

مجھے برادرم وقار سمیع خاں یاد آئے۔ سٹودنٹ لائف میں ہم اکٹھے تھے اور یونین کے عہدیدار بھی تھے۔ ایک دن وقار نے گِلہ کیا کہ تم جسے کہتے ہو فوراً کام کر دیتا ہے، میری بات کوئی مانتا ہی نہیں۔ میں نے کہا کہ جو کام نہ کرے تھوڑی سے بے عزتی کر دو، ٹھیک ہو جائے گا۔ موصوف اگلے دن ایک آفیسر سے ملے، انہیں کوئی کام کہا، جواب میں انکار سن کر آفیسر کو دھمکایا کہ کام کرتے ہو کہ کروں تمہاری بے عزتی۔ آفیسر نے جواب دیا، شرم کرو میں تمہارے باپ کی عمر کا ہوں اور تم مجھ سے اس طرح بات کر رہے ہو۔ لگتا ہے تعلیم نے تم پر کوئی اثر نہیں کیا۔ وقار یہ باتیں سن کر اخلاقی دباؤ میں آ گیا اور بہت پریشان ہوا، مجھے آکر ساری صورت حال بتائی۔ میں نے کہا بھائی کسی کی بے عزتی کرنے کے لئے اس سے اجازت لینی ضروری نہیں ہوتی۔ محسوس کرو کہ وہ شخص بے عزتی کا حق دار ہے تو شروع کر دو۔ چند دن بعد ہم نے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا تو پتہ چلا کہ ہمارے ایک انتہائی محترم اور بزرگ استاد کلاس لے رہے ہیں۔ برادرم وقار وہاں پہنچے اور استاد محترم کی منت کرنے کی بجائے ان سے اُلجھ گئے۔ ساری کلاس نے یہ دیکھ کر وقار صاحب پر چڑھائی کر دی۔ بیچارے منہ چھپا کر واپس آگئے اور مجھے کہنے لگے آئندہ صورت حال تمہیں بتا دیا کروں گا، جو کرنا ہے وہ تم کرو گے۔ مجھے بھی لگتا ہے کہ میرے جیسے ناتجربہ کار اور ڈرپوک خاوندوں کو کسی طر ح بھی اکیلے ایسا خطرہ مول نہیں لینا چائیے اور اگر تشدد کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہو تو مدد کے لئے کسی مولوی کی خدمات حاصل کرنا پڑے گی، مگر اس میں بھی اندیشہ ہے کہ وقتی طور پر مولوی صاحب کی مدد سے مطلوبہ نتائج تو حاصل کر لیں گے، مگر پھر گھر تو واپس آنا ہی ہے۔

سوچ رہا ہوں کہ میرے محترم علما کرام نے حسب عادت ایک مسئلہ بتا تو دیا ہے مگر حسب عادت اس پر عملدرآمد کا طریقہ نہیں بتایا۔ یہ دسویں صدی نہیں اکیسویں صدی ہے۔ آج کے مرد اور آج کی عورتیں پوری طرح علم اور شعور کی دولت سے مالا مال ہیں۔ قرآن حکیم ایک ایسی کتاب ہے کہ جسے رب العالمین نے ہر زمانے اور ہر قوم کے لئے ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔ اسے پوری طرح پڑھنے اور آج کے زمانے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا پیغام آج کے حالات کے مطابق لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے، مگر اس کے لئے قرآن اور جدید علوم دونوں سے واقفیت پہلی شرط ہے۔ ہمارے علما کا کمال ہے کہ وہ جدید علوم سے واقف ہی نہیں اور واقفیت چاہتے بھی نہیں اور ہمارا عام آدمی جو جدید علوم حاصل کرتا ہے قرآن فہمی سے عاری ہوتا ہے۔ ان دونوں علوم میں جب تک ربط نہیں ہوگا، ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے۔

ایک شخص کا گھوڑا بیمار ہو گیا، وہ ڈاکٹر کے پاس گیا دوا لی اور واپس آگیا۔ اگلے دن وہ پھر ڈاکٹر کے پاس تھا کہ گھوڑا بیمار ہے۔ ڈاکٹر نے پوچھا دوائی کھلائی؟ بولا بہت کوشش کی، مگر گھوڑا کھاتا ہی نہیں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ایک بانس لو جو اندر سے کھوکھلا ہو، آر پار نظر آتا ہو، دوائی اس بانس میں ڈالو پھر گھوڑے کا منہ کھولو، بانس منہ میں رکھو اور پھر دوسری طرف سے زور سے پھونک مار دو۔ دوائی گھوڑا کھا لے گا اور ٹھیک ہو جائے گا۔ اگلے دن وہ شخص پھر ڈاکٹر کے پاس تھا کہ گھوڑا سخت بیمار ہے۔ ڈاکٹر نے پھر پوچھا، دوائی کھلائی؟کہنے لگا کیا بتاؤں! آپ نے کہا کھوکھلا بانس لو، میں نے لیا، آپ کی ہدایت کے مطابق اس میں دوائی بھری، اسے گھوڑے کے منہ میں رکھا اور پھونک مارنے کے لئے باہر والے سرے کے ساتھ منہ لگایا۔ جناب کیا بتاؤں گھوڑے نے مجھ سے پہلے پھونک مار دی اور دوائی میں کھا گیا ۔کیا بتاؤں جناب کہ گھوڑ ابھی تک ا سی طرح بیمار ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بیویوں پر ہلکا تشدد کرنے کے شوقین حضرات کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ بہت سے لوگ اس سعی ناکام کے بعد باقاعدہ ہتھیار ڈال کر اور معافی مانگ کر اَمان پا چکے ہیں اور کچھ بیچارے تو گھر سے بے گھر ہونے کے بعد بیچ بچاؤ کے لئے رشتہ داروں اور دوستوں عزیزوں کی مدد کے متلاشی ہیں۔ اس لئے دوستو! احتیاط، بہت احتیاط۔ اپنے علما کے کہنے میں آکر دھوبی کے کتے کی طرح گھر کے نہ گھاٹ کے رہیں گے۔ میرے بہت سے دوست دو دن خوشی منانے کے بعد ہفتہ بھر سے جسم سہلا رہے ہیں۔ انہیں احساس کیا، یقین ہو گیا ہے کہ ان علما کی دی ہوئی خوشی بس وقتی ہوتی ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500736 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More