غزوہ بنی قریظہ
23ذی القعدہ 5ہجری کو پیش آیا
غزہ خندق (احزاب) کا شکست خوردہ لشکر مایوسی کے عالم میں مدینہ سے بھاگ
گیا، خندق کھودنے اور بیرونی دشمنوں سے مقابلہ کرنے میں ہفتوں کی مسلسل اور
انتھک کوشش کے بعد مسلمان اپنے گھروں کو لوٹے تاکہ آرام کریں لیکن مدینہ
میں ابھی پورے طریقہ سے اطمینان برقرار نہیں ہونے پایا تھا کہ رسول خدا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے وحی کے ذریعہ اطلاع ملنے کے بعد حضرت بلال رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو جمع کرنے کے لئے اس طرح عام اعلان
کریں کہ جو خدا اور رسول کا پیرو ہے وہ نماز عصر قلعہ بنی قریظہ کے پاس
پڑھے۔ اسی دن عصر کے وقت رسول خدا 3 ہزار جانبازوں کے ساتھ بنی قریظہ کے
قلعہ کی طرف چل پڑے۔ لشکر اسلام کے آگے آگے مجاہدین اسلام کے علم کو اٹھائے
علی علیہ السلام چل رہے تھے۔ چنانچہ آپ بقیہ مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی
چند افراد کے ساتھ قلعہ کے پاس پہنچ
گئے۔
لشکر اسلام نے قلعہ بنی قریظہ کا محاصرہ کرلیا جو 15 روز تک جاری رہا۔ اس
مدت میں چند بار تیر اندازی کے علاوہ کوئی حملہ نہیں ہوا۔ بنی قریظہ کے
یہودی سمجھ گئے کہ لشکر اسلام سے مقابلہ کرنے کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں
ہوگا اس لئے انہوں نے اپنا نمائندہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس
بھیجا اور آپ سے اس جگہ سے کوچ کرنے اور اپنے مال و اسباب کو اپنے ساتھ لے
جانے کی اجازت مانگی، رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی پیشکش کو رد
کردیا۔ انہوں نے دوبارہ درخواست کی کہ ان کو مدینہ ترک کرنے اور اپنے اموال
سے صرف نظر کرنے کی اجازت دی جائے لیکن رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
جانتے تھے کہ اگر بنی قریظہ کے یہودیوں کو بھی بنی قینقاع اور بنی نضیر کے
یہودیوں کی طرح آزاد چھوڑ دیا گیا تو وہ مسلمانوں کے چنگل سے نکلتے ہی
دیہاتی اعراب کو بھڑکا کر مسلمان اور اسلام کے خلاف نئی سازشوں کا آغاز کر
دیں گے۔ جس طرح بنی قینقاع کی تحریک پر جنگ احد کی آگ بھڑکی اور بنی نضیر
کی تحریک پر خندق (احزاب) کی ہمہ جانبہ سازش ہوئی۔ اس وجہ سے پیغمبر نے اس
پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کیا اور فرمایا کہ تم بغیر کسی قید و شرط کے
اپنے کو ہمارے حوالے کردو۔ (طبقات ابن سعد ج۲ ص ۷۴)
ایک مسلمان کی خیانت
ایک طرف تو یہودی محاصرہ کی وجہ سے تنگ آچکے تھے اور دوسری طرف ان کے دل
میں خوف و وحشت بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے دیرینہ دوست اور ہمسائے
”ابولبابہ“ کے متعلق رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ
ابولبابہ کو مشورہ کے لئے ہمارے پاس بھیجے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے یہ درخواست قبول کرلی اور ابولبابہ کو اجازت دے دی کہ وہ قلعہ بنی قریظہ
جائیں۔ جب ابولبابہ وہاں پہنچے تو یہودیوں نے ان کے گرد حلقہ بنالیا، ان کی
عورتوں اور بچوں نے رونا شروع کر دیا۔ ان کی آہ و زاری نے ابولبابہ کو
متاثر کیا۔ ان کے مردوں نے ابولبابہ سے سوال کیا کہ کیا اس میں صلاح ہے کہ
ہم بلاقید و شرط اپنے کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کر دیں یا
صلاح نہیں ہے۔؟
ابولبابہ اپنے احساسات سے بہت زیادہ متاثر تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہاں،
لیکن انگلی سے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا کہ تم اپنے کو ان کے حوالے کردو
گے تو تمہاری گردن اڑا دی جائے گی۔
ابولبابہ اپنی اس بات سے جس کے ذریعہ یہودیوں کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے حوالہ کرنے سے منع کیا تھا۔ خدا اور رسول کی بارگاہ میں بہت بڑی
خیانت کے مرتکب ہوئے تھے۔ ناگہان ان کو پتہ چلا کہ وہ تو بہت بڑے گناہ کے
مرتکب ہوگئے۔ فوراً قلعہ سے باہر آئے، چونکہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کا سامنا کرتے ہوئے انہیں شرم آرہی تھی۔ اس لیے سیدھے مسجد میں پہنچے
اور اپنے آپ کو مسجد کے ایک ستون سے رسی کے ذریعہ باندھ دیا کہ شاید خدا ان
کی توبہ قبول کرے۔ ابولبابہ کے واقعہ کی خبر لوگوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کو دی، آپ نے فرمایا کہ اگر مسجد جانے سے پہلے وہ میرے پاس آتے
تو میں خدا سے ان کے لئے استغفار کرتا اب اسی حالت پر رہیں۔ یہاں تک کہ خدا
ان کی توبہ قبول کرلے ابولبابہ کی خیانت کے بارے میں آیت نازل ہوئی کہ”اے
ایمان لانے والے لوگوں دین کے کام میں خدا اور رسول سے خیانت نہ کرو اور
اپنی امانت میں خیانت نہ کرو، درآں حالیکہ تم جانتے ہو۔“ (انفال:۲۷)
ابولبابہ چھ دن تک، دن میں روزہ رکھتے نماز کے وقت ان کی بیٹی ستون سے ان
کے ہاتھ پیر کھول دیتی۔ طہارت اور فریضہ کی ادائیگی کے بعد ان کو دوبارہ
مسجد کے ستون سے باندھ دیتی تھی۔ یہاں تک کہ پیک وحی، بشارت کے ساتھ آن
پہنچا کہ ابولبابہ کی توبہ قبول ہوگئی ان کی توبہ کے بارے میں آیت نازل
ہوئی کہ”ان میں سے ایک دوسرے گروہ نے اپنے گناہ کا اعتراف کرلیا اور نیک و
بد اعمال کو باہم ملا دیا ہے۔ شاید خدا ان کی توبہ قبول کرلے خدا بخشنے
والا اور مہربان ہے۔“ (توبہ: ۱۰۲)
لوگوں نے خوشی میں چاہا کہ ابولبابہ کی رسیوں کو کھول دیں لیکن انہوں نے
کہا کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میری رسیوں کی گرہیں کھولیں گے جب
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے ان
کی رسی کی گرہوں کو کھول دیا۔ الولبابہ تمام عمر نیکی اور اچھے عمل پر باقی
رہے اور پھر کبھی بھی محلہ بنی قریظہ میں قدم نہیں رکھا۔
بنی قریظہ کا اپنے آپ کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کرنا
یہودیوں سے مذاکرات اور گفتگو کسی منزل تک نہ پہنچ سکی۔ کچھ دن تک انہوں نے
اپنے آپ کو حوالے کرنے سے انکار کیا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
لشکر اسلام کو آمادہ رہنے کا حکم دیا تاکہ حملہ کر کے ان کے قلعہ کو فتح
کیا جائے۔ یہودیوں نے سمجھ لیا کہ لشکر اسلام کی کامیابی یقینی ہے، بھاگنے
کا کوئی راستہ باقی نہیں، مجبوراً قلعہ کے دروازوں کو کھول دیا اور بلاقید
و شرط خود کو لشکر اسلام کے حوالے کردیا۔ (مغازیج۲ ص ۵۰۹)
حضرت علی علیہ السلام اپنے لشکر کے ساتھ قلعہ میں داخل ہوئے اور ان سے مکمل
طور پر ہتھیار رکھوا لیے۔ پھر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں کو
قید خانہ میں منتقل کرنے کا حکم صادر فرمایا اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری
محمد بن مسلمة کے سپرد کی، عورتوں اور بچوں کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے حکم کے مطابق دوسری جگہ نگرانی میں رکھا گیا۔
سعد بن معاذ کا فیصلہ
بنی قریظہ کے یہودی چونکہ قبیلہ اوس کے ہم پیمان تھے لہٰذا انہوں نے پیشکش
کی کہ ان کے بارے میں سعد بن معاذ فیصلہ کریں وہ لوگ اس فکر میں تھے کہ
شاید گزشتہ دوستی کی بدولت سعد بن معاذ ان کی سزا میں تخفیف کے قائل ہو
جائیں گے۔
قبیلہ اوس کے لوگوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے نہایت اصرار کے
ساتھ یہ درخواست کی کہ اس گروہ کو آزاد کردیں، وہ لوگ قبیلہ خزرج سے رقابت
کی بنا پر اپنی بات پر اصرار کر رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر نے
بنی قینقاع کو عبداللہ بن ابی خزرجی کی خواہش پر آزاد کر دیا تھا۔ رسول خدا
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں سے بھی فرمایا کہ کیا تم اس بات کے لئے
تیار ہو کہ تمہارے بزرگ سعد بن معاذ ان کے بارے میں فیصلہ کر دیں۔ سب نے
کہا کہ ہاں اے اللہ کے رسول ہم بھی ان کے فیصلہ کے سامنے سر جھکا دیں
گے۔(ارشاد مفید ص۵۸)
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سعد بن معاذ کو بلانے کے لئے آدمی
بھیجا۔ اس وقت وہ ہاتھ کی رگ کٹ جانے سے زخمی حالت میں بستر پر اس ”رمیدہ“
نامی عورت کے خیمہ میں لیٹے تھے جس نے مجروحین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی
وقف کر دی تھی۔ اوس کے جوانوں نے ان کو چارپائی پر لٹایا اور رسول خدا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے چلے۔ راستہ میں انہوں نے سعد سے درخواست
کی کہ اپنے ہم پیمان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ
سعد کے لئے وہ زمانہ آن پہنچا ہے کہ جس میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت
سے سعد ڈرنے والا نہیں ہے۔
جب سعد لشکر گاہ میں پہنچے تو حضرت نے فرمایا کہ تم اپنے بزرگ کے احترام
میں کھڑے ہو جاؤ، حاضرین اٹھ کھڑے ہوئے۔ سعد نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے مبنی بر عدالت حکم کے بعد مہاجر و انصار سے یہ عہد لیا کہ وہ جو حق
سمجھیں گے اس کا اجراء ہوگا اور بنی قریظہ کے یہودیوں نے بھی اس کو قبول
کیا۔ اس کے بعد سعد نے بہ آواز بلند اعلان کیا کہ یہودیوں کے مرد قتل کر
دیئے جائیں عورتیں اور بچے اسیر بنالیے جائیں اور ان کے اموال کو ضبط کرلیا
جائے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سعد نے قانون الہی کے
مطابق فیصلہ کیا ہے۔
سعد کے فیصلہ کی دلیلیں
یہودیوں کی دینی کتاب (توریت) کا فیصلہ جو بلاشک و شبہ یہودیوں کو قبول
ہوگا۔ اس لیے کہ توریت میں آیا ہے کہ جب تم جنگ کے ارادہ سے کسی شہر کا قصد
کرو تو پہلے ان کو صلح کی دعوت دو اگر وہ لوگ جنگ کو ترجیح دیں تو شہر کا
محاصرہ کرو اور جب شہر پر تسلط ہو جائے تو تمام مردوں کو تہ تیغ کردو اور
عورتوں، بچوں، جانوروں اور جو کچھ بھی شہر میں ہو اس کو مالِ غنیمت میں
شامل کرلو۔(تورات سفر تثنیہ فصل30)
مدینہ میں وارد ہونے کے بعد پیغمبر کا یہودیوں سے جو معاہدہ ہوا تھا اس کی
ایک دفعہ یہ تھی کہ جب یہود پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کوئی قدم
اٹھائیں یا اسلحہ اور سواری ان کے دشمنوں کو دیں تو پیغمبر کو ان کا خون
بہانے ان کے اموال کو ضبط کرنے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرنے کا
حق حاصل ہوگا۔
سعد اور سارے دور اندیش مسلمان اس بات کو جانتے تھے کہ اگر وہ لوگ اس مہلکہ
سے جان بچا کر نکل گئے تو قینقاع کے یہودیوں کی طرح کہ جنہوں نے اپنی تحریک
پر احد کی جنگ چھیڑ دی تھی اور بہت سے لوگوں کی شہادت کا سبب بن گئے تھے
اور بنی نضیر کی طرح کہ جنہوں نے جنگ احزاب کا فتنہ کھڑا کر دیا اور قریب
تھا کہ اسلام کی بنیاد کو اکھیڑ دیں۔ یہ لوگ بھی اسلام کے خلاف عظیم اتحادی
لشکر بنالیں گے اور ان خطرناک عناصر کا زندہ رہنا اسلامی تحریک کے لیے مفید
نہیں تھا۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اسیروں کےساتھ اچھا سلوک کیا
جائے۔ اس لیے زیادہ مقدار میں ٹھنڈا پانی ان کے سامنے رکھا گیا۔ پھر آنحضرت
کے حکم کے مطابق خندق کھودی گئی اور 700بدبخت جنگجو یہودیوں کو جو صلح و
آشتی، جیو اور جینے دو، کے خصوصی سلوک کے باوجود پیمان شکنی کے ذریعہ
مسلمانوں کو نیست و نابود کر دینے کا قصد رکھتے تھے۔ مولا علی علیہ السلام
اور حضرت زبیر نے فنا کے گھاٹ اتار دئیے، کچھ لوگ قبیلہ اوس کے افراد کے
ذریعہ ہلاک ہوئے۔ جی ہاں۔ عہد شکنی کرنے والا ضرور کیفر کردار تک پہنچتا
ہے۔ قتل کئے جانے والوں میں ایک وہ عورت بھی تھی جس نے محاصرہ کے دنوں میں
قلعہ کے اوپر سے پتھر گرا کر خلاد بن سوید کو شہید کر دیا تھا۔(مغازی ج۲ ص
۵۱۳)
اس گروہ کے خاتمہ کے بعد مدینہ خائن عناصر کے وجود اور مسلح داخلی ریشہ
دوانی کرنے والے اس گروہ سے پاک ہوگیا جو ملک میں رہ کر دوسروں کے مفاد میں
کام کرتے تھے۔ بنی ریظہ سے جو مال غنیمت ہاتھ لگا تھا اس میں
1500تلواریں،300 زرہیں، 2000 نیزے، دھات اور چمڑے کی بنی ہوئی 1500 سپر،
بہت زیادہ لباس برتن اور گھر کے سامان، نیز بہت زیادہ شراب تھی جس کو زمین
پر بہا دیا گیا۔(بحارالانوار ج۲۰ ص۲۱۲)۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
مالِ غنیمت کا خمس نکالنے کے بعد بقیہ مال مجاہدین کے درمیان تقسیم کردیا۔
پھر آپ نے سعد بن عبادة کو بنی قریظہ کے اسیروں کے ساتھ شام، بھیجا تاکہ ان
کو بیچنے کے بعد سپاہ اسلام کے لئے گھوڑے اور اسلحہ مہیا کیا جائے ۔ یہ
جنگ8 ذی الحجہ 5ہجری کو تمام ہوئی۔
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی |