جنہیں شیطان کی ضرورت ہی نہیں رہتی

پچیس سال کانوجوان روزے کی حالت میں اپنے درخت کو کاٹنے کے لئے گیا۔وہ درخت جوتیز آندھی اور طوفانی ہوا کے باعث جڑسے اکڑ کر ان کے پڑوسی کی کھیت میں گراتھا۔پڑوسی نے اپنی کھیت میں ٹماٹرکاشت کئے تھے اورممکن ہے درخت گرنے کی وجہ سے وہاں ٹماٹرکے کچھ پودے متاثرہوئے تھے، لیکن یہ توایک اتفاقی حادثہ تھا، جوقدرتی طورپر رونماہواتھا۔نوجوان درخت کاٹنے اورپڑوسی کی کھیت سے باہرنکالنے میں مصروف تھاکہ اس دوران اسکاپڑوسی آیااورآتے ہی نوجوان کے ساتھ تکرارشروع کی۔نوجوان نے اسے کہاکہ درخت قدرتی طورپر اسکی کھیت میں گراہے ، ورنہ انکے کاٹنے اوراسکی کھیت کی میں گرانے کا ارادہ نہ تھا۔تاہم اسکاپڑوسی ایک نہ مانا اورگھرچلاگیا۔کچھ دیراس نے واپس آکر نوجوان پر پستول سے فائرنگ کی اور اسکی زندگی کاچراغ گل کردیا۔

اس سے اگلے روزپشاورصدرمیں سرکاری نمبرپلیٹ والی گاڑی میں بیٹھے ہوئے باپ بیٹے نے سربازار غریب موٹرسائیکل سوارپر ظلم کی انتہاکردی۔ اپنی گاڑی سے بندوق نکال کر اس پردوتین فائرکئے ، جس سے وہ محفوظ رہا۔موٹرسائیکل کی غلطی صرف یہ تھی کہ اس نے مذکورہ شخص کی گاڑی سے اوورٹیک کی تھی۔

اس طرح کے بے شمارواقعات ہمارے معاشرے کامعمول بن چکے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی اورمعمولی باتوں پر طیش میں آکر انسانیت کاقتل کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے۔رمضان المبارک کے مہینے میں یہ سلسلہ اوربھی بڑھ جاتاہے اورملک کے مختلف حصوں میں افطارسے قبل کے اوقات میں شورشرابہ، جنگ جھگڑے اورقتل غارت کے واقعات مسلمانوں کی مجبوری بنی ہوئی ہے۔حالانکہ روزہ بہت بڑی عبادت ہے اوراسکو قائم کرنے کے لئے صبروبرداشت بنیاد ی عنصرہے۔روزہ پاکیزگی نفس اوراﷲ تعالیٰ کے قرب کاذریعہ تب ہی ہوسکتاہے، جب انسان کے اندر اعلیٰ درجے میں صبرموجودہو۔ وہ لوگوں کی باتیں برداشت کریں اوراگرکسی سے کوئی غلطی سرزدہوجائے، تواسکو اﷲ کے لئے معاف کرے، ناکہ معمولی معمولی باتوں پر آپے سے باہرہوں اوراپنے انسانیت سوزکردارکی ساری ذمہ داری روزے پر ڈال دے۔حالانکہ اﷲ تعالیٰ کو ہمارے روزں کی کوئی ضرورت نہ ہے ۔ روزہ ایک فرض عباد ت ہے۔اسکی بے شمارفضیلتیں ہیں اوراﷲ تعالیٰ کی طرف سے انعامات واکرامات کے وعدے ہیں ۔ روزے کی طرح نماز، حج، زکواۃ بھی فرض عبادتیں ہیں ۔اس طرح جہاد، خدمت خلق، والدین کی فرمان برداری، دوسروں کے حقوق کاتحفظ ، صدقہ اورحسن اخلاق ، تلاوت اورذکروغیرہ بھی اﷲ کے قرب کے حصول کے ذرائع ہیں۔اﷲ تعالیٰ کی رضاتب ہی حاصل ہوسکتی ہے ، جب تمام فرض عبادتیں قائم ہوجائے اوراﷲ تعالیٰ کے سارے احکامات ، شریعت محمدی ﷺ کی روشنی میں پورے ہوں۔ہم مسلمانوں کاالمیہ یہ ہے کہ رمضان کے روزے توپابندی کے ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن دوسری عبادات میں کوتاہی کاارتکاب کرتے ہیں۔نمازچھوٹ جائے ، توکوئی المیہ نہیں ہوتا اورروزہ نہ رکھنااپنے لئے باعث شرم سمجھتے ہیں۔ہمارے نزدیک حرام کمانا اورحرام کھاناکوئی فعل قبیح نہیں ، لیکن روزہ نہ رکھنااپنی شان اوراپنے عقیدہ کے خلاف سمجھتے ہیں۔بلکہ میں یوں کہوں گاکہ ہم نے روزے کو عبادت کم اوررسم زیادہ سمجھ لیاہے۔اب یہ روزے کے ساتھ انصاف تونہیں ہے کہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کیاجائے ، باقی عبادات اوراحکام الہٰی کی پابندی نہ ہو۔روزہ دراصل نفس کے اس معاہدے کانام ہے ، جس میں جسم اورروح کے ہرعضوکی تربیت ہوتی ہے۔

اگریسانہ ہو، توروزہ کسی فائدے کانہیں اورمحض پورادن خودکوبھوکاپیاسارکھنے سے اﷲ تعالیٰ کاقرب حاصل نہیں ہوسکتا۔اس پر مستزادان لوگوں کاالمیہ ہے ، جو روزے کی حالت میں بھوک اورپیاس کی شدت یاکوئی نشہ نہ ملنے کی وجہ سے آپے سے باہرہوجاتے ہیں اوراپنے زبان اورہاتھ سے دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔اگرکوئی اس قسم کے قبیح فعل کامرتب ہوجاتاہے، تواسے چاہئے کہ روزہ نہ رکھے، کیونکہ ممکن ہے، روزہ نہ رکھنے کاگناہ معاف ہوجائے، لیکن کسی انسان کو ضررپہچانے کاگناہ کبھی معاف نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ کاصریح حکم ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، گویااس نے انسانیت کاقتل کیا۔ہمارے ہاں یہ سب کچھ رمضا ن کے مقدس مہینے میں کیوں ہورہاہے ہے۔وہ رمضان جس کے بارے میں حضورﷺ نے ارشادفرمایاہے کہ اس میں سرکش شیطان قید کردئے جاتے ہیں۔ آپ ﷺ کی بات بالکل درست ہے۔ رمضان المبارک کامہینہ تقویٰ ، زہد اورپرہیزگاری کامہینہ ہے ۔ اس میں انسان کے اندردوسرے انسانوں کے ساتھ ہمدردی، محبت اوراخوت کاجذبہ پیداہوتاہے۔نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایاہے کہ مسلمانوں میں بہترین وہ ہے، جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرامسلمان محفوظ رہے۔ یہ بات یادرکھنے کی قابل ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو ہمارے روزے کی کوئی ضرورت نہیں ،ہاں اگرکوئی چیز اﷲ تعالیٰ کو مطلوب ہے، تووہ ہمارے اندرکاوہی تقویٰ اورزہدہے اوراﷲ کے بندوں کے ساتھ نیک اورہمدردانہ سلوک ہے،جوروزے کے ذریعے پیداہوتاہے۔لیکن جولوگ روزے کو ڈھال بناکر ، انسانیت کاقتل کرتے ہیں، انہیں شیطان کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
MP Khan
About the Author: MP Khan Read More Articles by MP Khan: 107 Articles with 108845 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.