عالمی یومِ والد!

گزشتہ روز قوم نے عالمی فادر ڈے منایا۔ بہت سے عالمی دن ایسے ہیں جن کا ہم لوگوں نے بہت ہی محبت سے اردو ترجمہ بھی کر رکھا ہے، مگر فادر ڈے پر انگریزی کا کوئی معقول اردو متبادل دکھائی نہیں دیا۔ مدر ڈے کو ’ماں کا عالمی دن‘ کہہ دیا جاتا ہے، اُسی وزن میں یہاں ’باپ کا عالمی دن‘ کہا جانا چاہیے، یا پھر ’والد کا عالمی دن‘ مگر کچھ عجیب سا لگتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس انگریزی لفظ کو اردو میں لکھ کر دل خوش کرلیا جاتا ہے۔ یہ ایشو بھی زیر بحث آتا ہے کہ آیا اس قسم کے دن سال میں ایک مرتبہ ہی آتے ہیں، جس موقع پر والد،والدہ، ٹیچر یا دیگر کسی سے اظہارِ عقیدت ومحبت کیا جائے؟ سال بھر میں ایک مرتبہ آنے والے دن بھی بہت سے ہیں، جن میں سالگرہ، برسی، شادی کی سالگرہ وغیرہ شامل ہیں، ظاہر ہے یہ تقریبات سارا سال نہیں منائی جاسکتیں، مگر جس محبت اور عقیدت کا اظہار ہر روز بلکہ ہر لمحہ ہونا چاہیے، اسے بھی ہم سال کے ایک دن کے لئے محدود کردیں تو یہ کام کوئی زیادہ قابلِ تحسین نہیں۔ والدین ہوں یا کسی مسئلے پر کوئی دن منایا جائے، یا کسی بیماری کو یاد کیا جائے، پورا سال ایک خاص دن کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

سال بھر میں ایک دن منائے جانے کی وجہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں، یہ عالمی دنوں کی روایت ظاہر ہے مغرب کی ہے، ہم یہ کام کیوں کرتے ہیں اس کی دو اہم وجوہ ہیں، اول یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب نے ترقی کی ہے، آخر ان اقوام میں کوئی خوبیاں تھیں، اور ہیں، جن کی بنیاد پر وہ ترقی کے بامِ عروج پر پہنچے، گویا ہمیں ان کی تقلید کرنی چاہیے، کہ ہم بھی وہی کام کریں جو انہوں نے کئے اور ترقی پائی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے وہاں سے صرف انہی مثالوں کو اپنایا جس سے ہم تقریبات تو کر سکتے ہیں، تقلید بھی کرسکتے ہیں، مگر ترقی نہیں۔ جو کام ترقی کے لئے ضروری ہیں، ہم کبھی ان کے قریب بھی نہیں جاتے۔ مثلاً سادگی، محنت، ایمانداری، اصول پسندی، صفائی ، انصاف، خدمت خلق اور اسی قسم کے دیگر کام ہم نہیں کرتے، نہ ہمارے حکمران وہاں سے اس قسم کی چیزوں کو درآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم وہاں سے کچھ چیزیں درآمد کرکے خود کو ترقی یافتہ تصور کرنے لگتے ہیں تو وہ خواتین کی آزادی، ان کے لباس کا اختصار اور عالمی ایام وغیرہ اہم ہیں۔ دوم یہ کہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکا ہے، گویا اب ہم وہاں کی ہر روایت کو اپنانے پر مجبور ہیں، اگر ایسا نہ کیا تو دقیانوسی کہلائیں گے، ایسا ہم کر نہیں سکتے۔ یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ مغرب کے لئے ایسے ایام منانا ایک مجبوری ہے، کہ وہاں خاندانی نظام ختم ہورہا ہے، وہاں رشتے نام کے ہی بچ رہے ہیں، یہ ایام ان کی بقا کی کوشش ہے۔ اپنے ہاں ابھی اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے، ہمارا مذہب بھی ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔

والد صاحب کے عالمی دن کے موقع پر ایک اور بات سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہے، ویسے تو سوشل میڈیا ’’نمائشِ باہمی‘‘ کا ایک بڑا ذریعہ ہے، مگر اب بہت سے لوگوں نے اپنے والدِ بزرگوار کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں، انہوں نے بھی جن کے والد زندہ سلامت ہیں، اور اپنے بچوں کے سر پر ان کی شفقت کا سایہ موجود ہے اور ان لوگوں نے بھی جن کے والد جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے ہیں، ہر دو لوگوں نے والد سے محبت اور دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ جو ہیں انہیں اﷲ تعالیٰ صحت اور تندرستی کے ساتھ سلامت رکھے، جو گزر گئے ہیں اﷲ تعالیٰ انہیں اپنی وسیع جنتوں میں جگہ عطا فرمائے۔ اس عالمی دن کے موقع پر بہت سے لوگ بڑی محنت سے اپنے ابّا جان کی تصویر ڈھونڈ کے لائے ہیں، اسے سکین کروایا ہے اور پھر فیس بک پر اپ لوڈ۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر افراد کے والد صاحب باریش اور مذہبی ماحول میں رہنے والے ہیں، (شاید کچھ پرانے ہیں اس لئے) ۔ بہت سے ایسے ہیں جو صرف اس لئے اپنے والد صاحب کی تصویر اپ لوڈ نہیں کرسکے کہ ان کے والد اب دنیا میں نہیں، اور گھر والوں کے پاس اب ان کی کوئی تصویر موجود ہی نہیں۔ عالمی دنوں کا سلسلہ تو چلتا رہے گا، گلوبل ویلیج کے باسی ہونے کے ناطے اب ہم لوگ اس قسم کی سرگرمیوں کو نظر انداز بھی نہیں کرسکتے، مگر ہمیں اپنے مذہب اور معاشرتی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے ایسی باتوں کو ایک دن کے لئے محدود نہیں کرنا چاہیے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473223 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.