سترہ رمضان المبارک یوم الفرقان اور پاکستان
(Muhammad Abdullah, Lahore)
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
محمدﷺ اور ان کے ساتھیوں پر جب مکہ میں عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تو الله
تعالٰی نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا. محمدﷺ اور ان
کے جانثار ایک ایک دو دو کرکے مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے. مدینہ میں پہنچ
کر نبی اکرمﷺ نے میثاق مدینہ جیسا معاہدہ کرکے مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست
کی بنیاد رکھی جس کے متفقہ سردار محمد رسول اللهﷺ تھے. یہ سارا واقعہ وہ ہے
جس کی طرف قران نے اشارہ کیا کہ "مومنو یاد کرو اس وقت کو جب تم دنیا کے
اندر تھوڑے تھے اور تم ڈرتے تھے کہ کافر تمہیں اچک نہ لیں اس وقت الله نے
تمہیں ٹھکانہ دیا اور تمہاری مدد کی اور تمہیں پاکیزہ رزق دیا تاکہ تم شکر
ادا کرو". مکہ کے کافروں نے جب دیکھا کہ محمدﷺ اور ان کے ساتھی تو مدینہ
میں جا کر اقتدار میں آگئے تو ان کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں ایسا نہ
ہوکہ محمدﷺ مدینہ والوں کو ساتھ لے کر ہمارے اوپر چڑھائی کردیں اور ذلیل و
رسوا کریں. اس پریشانی کے پیش نظر انہوں نے مدینہ کی نو آموز اسلامی ریاست
کو ختم کرنے کے لیے سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کر دیے. مدینہ کے
منافقین اور یہودیوں کے ساتھ درپردہ گٹھ جوڑ کیا جانے لگا. دوسری مدینہ کی
سرحد پر بھی دباؤ بڑھا دیا گیا. چھوٹی موٹی وارداتیں شروع کردی گئیں. الله
کے نبی اکرمﷺ کی چراہگاہوں پر حملے ہونے لگے. غرض یہ کہ مختلف ہتھکنڈوں سے
مدینہ کی اس پہلی اسلامی ریاست کے تار و پود بکھیرنے کی منصوبہ بندیاں جاری
تھیں کہ ۲ ہجری میں رمضان کے روزے فرض ہوگئے. اسی اثناء میں الله رب العزت
نے مسلمانوں کو ان الفاظ کے ساتھ اذن جہاد دے دیا کہ "وہ لوگ جن پر ظلم
ہوتا رہا ہے الله ان کو قتال کی اجازت دیتا ہے". یہ حکم ملنے کی دیر تھی کہ
محمدﷺ جو دنیا کے بہترین منصوبہ ساز تھے، الله کی طرف سے ودیعت کردہ بصیرت
کے ساتھ پلاننگ کرنے لگے کہ مکہ کے مغروروں کی اجڑی گردن کی کونسی رگ
دبائیں جائے کہ مدینہ کو درپیش خطرات سے نکالا جاسکے. کافی غور و حوض کے
بعد آپﷺ اس نتیجے پر پہنچے کہ مکہ والوں کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام
دینے والی ان کی ملک شام کی تجارتی لائن کو کاٹا جائے. نتیجتا" ۱۷ رمضان
المبارک کو آپﷺ اپنے تین سو تیرہ ساتھیوں کو ساتھ لے کر ابوسفیان کے تجارتی
قافلے کو روکنے کی غرض نکلے مگر الله کی مرضی اور منشاء سے اس بے سروساماں
اور مٹھی بھر لوگوں کا مقابلہ ہر طرح کے اسلحے اور کیل کانٹے سے لیس ان
اکڑی گردنوں والوں سے ہوگیا جن کو اپنی شجاعت اور اسلحے پر بہت گھمنڈ تھا
اور جو مکہ سے تکبر کے ساتھ اتراتے ہوئے یہ کہہ کر نکلے تھے کہ آج ہم مدینہ
کو صفحہ ہستی سے مٹا کر چھوڑیں گے مگر شام ڈھلے کیفیت یہ تھی کہ ستر مردار
پڑے تھے اور ستر کو مسلمانوں نے قیدی بنا لیا تھا. اور ان کا سردار ابو جہل
دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا پڑا تھا. یہ وہ دن تھا جس کو
قرآن نے یوم الفرقان کہا، اسلام اور کفر کی پہلی باضابطہ جنگ جس نے اسلامی
ریاست مدینہ کا قد کاٹھ اچانک سے بہت زیادہ بڑھا دیا تھا اور کافروں کا
غرور و تکبر خاک میں ملا دیا تھا.
میں جب اس واقعے کی روشنی میں پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتا ہوں تو
مجھے مدینہ اور پاکستان کے حالات میں بہت زیادہ مماثلت نظر آتی ہے. یہ
ریاست بھی مسلمانوں کو الله کی طرف سے انعام میں ملی اور اس وقت ملی جب
برصغیر کے مسلمان بھی اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکے تھے. ایسے میں الله
تعالٰی نے ان کو ٹھکانہ دیا، ان کی مدد کی اور ان کو بہترین رزق دیا. اور
اس ملک کو اقوام عالم میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کردار ادا کرنے کا
موقع دیا. اسی کردار کی وجہ سے عالم کفر اس کا دشمن بنا اور آج اس پاکستان
کو جڑ سے مٹانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں. کبھی سرحدوں
پر دباؤ بڑھایا جاتا ہے اور کبھی ملک کے اندر دہشت گردی کے نیٹورکس قائم
کیے جاتے ہیں، اسی طرح کبھی ڈرون اٹیکس کے سلسلے اور کبھی سرحدی جھڑپیں
ہمارے اوپر مسلط کی جارہی ہیں. ایسے میں ایک عام شہری بہت پریشان ہوتا ہے
کہ پاکستان کا بنے گا کیا، ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟
اوہ پاکستان کے حکمرانو!
اوہ خارجہ پالیسیاں بنانے والو!
اور ملک و ملت کے دفاع کا خلف اٹھانے والو!
اوہ میڈیا پر بیٹھ کر عوام کو پریشان کرنے والے میڈیا پرسنز!
اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ناامید اور مایوس ہونے والے عامة الناس!
الله کی قسم تمہارے حالات اس وقت کے مدینہ سے زیادہ سخت نہیں ہیں. تمہارے
مسائل اور حالات مدینہ سے مماثلت رکھتے ہیں تو تمہیں حل بھی ویسا سوچنا
ہوگا جو مدینہ والوں نے سوچا اور پھر اس پر عمل کرکے دکھایا تھا. یہ رمضان
المبارک کا مہینہ اور بالخصوص یہ ۱۷ رمضان المبارک یوم الفرقان آج تمہیں یہ
پیغام دیتا کہ الله کی کبریائی کے لیے میدان میں کھڑے ہو جاؤنگا یہ غنیم کے
لشکر تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے. تم الله کے لیے ڈٹ جاؤنگا تو الله
اور اسکے کے فرشتے تمہارے دفاع پر کھڑے ہوں گے. یہ باتوں کا نہیں عمل کا
وقت ہے. اٹھ کھڑے ہوں اپنے آپ کو جہاد فی سبیل الله کے لیے تیار کریں اور
دنیا کے بتکدوں میں اللہ اکبر کا کلمہ بلند کردیں. اقبال نے کہا تھا کہ
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
یہی رمضان کا اور یہی قرآن کا پیغام ہے. الله ہمیں عمل کی توفیق دے اور
ہمارے ملک و ملت کا حامی و ناصر ہو. آمین |
|