ماہِ رمضان : رحمت ، برکت اور عوام

رمضان کا بابرکت مہینہ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ رمضان کا مہینہ ، پورے اسلامی سال کا مقدس ترین مہینہ ہے اورپورے سال کے لیے اپنے اندر ایک سبق سموئے ہوئے ہے ۔اس مہینہ میں کم و بیش ہر گھر میں عبادات ، سحر و افطار کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے ۔یہ مہینہ جہاں اپنے ساتھ رحمتیں اور برکتیں لے کر آتا ہے وہاں اس سال اپنے ساتھ مہنگائی کا ایک طوفان بھی لے کے آیا ہے ۔ اس بابرکت مہینے میں روزمرہ استعمال کی اشیاء خصوصا دالوں ، سبز ی ، پھلوں ، دہی ، مرغی وغیرہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو اہے ۔ قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے ایک عام آدمی کی قوت ِ خرید میں مزید کمی ہوئی ہے ۔ اگرچہ اس برس بھی پچھلے برس کی طرح بچت بازار لگائے گئے ہیں تاہم عمومی اشیاء کی قیمتوں پر کوئی چیک نہیں ۔ پھل فروش ، سبزی فروش از خود پھلوں اور سبزیوں کے نرخ بڑھا دیتے ہیں ۔رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی جو پھل تیس روپے کلو تھااس کی قیمت تین دن کے فرق سے بعض علاقوں میں دو سو روپے کلو جب کہ بعض علاقوں میں ساڑھے تین سو روپے کلو تک جا پہنچی ۔

قیمتوں میں اتنے فرق کی وجہ جب ایک پھل فروش سے پوچھی تو اس کا کہنا تھا کہ ایک ہی تو مہینہ ہے جس میں سب کو پھل خریدنا ہے اور ہمیں بھی اسی مہینے میں کمانا ہے ۔ یہ ایک انتہاہی عجیب و غریب سوچ تھی جو کہ ہر ذخیرہ اندوز ، پھل فروش ، سبزی فروش بلکہ تقریبا ہر شخص میں پائی جاتی ہے تاہم اس مہنگائی کے طوفان نے عام آدمی کو پریشان کر رکھا ہے ۔ جو شخص بمشکل اپنے گھرکی روزی روٹی چلاتا ہو اس کے لیے عام حالات سے بھی مہنگا پھل یا سنزی خریدنا بے حد مشکل ہے ۔ اس طرح غریب خاندان اس بابرکت مہینے میں بھی اچھے کھانے اور پھل سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ نہ صرف پھل اور سبزیاں بلکہ گوشت ، مرغی ، دہی اور دالوں تک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ مرغی اور گوشت کی قیمتوں میں کم و بیش تیس روپے تک کا اضافہ ہو ا ہے ۔

یہ تو ہے ہمارے ملک کی حالت ، اب جائزہ لیتے ہیں یورپی ممالک ، مشرق وسطیٰ ، اور امریکہ کا ۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں سا ل کے اس مہینے جس میں کوئی مذہبی تہوار آتا ہے اس کے لیے اشیاء صرف کی قیمتوں میں واضع کمی کر دی جاتی ہے تا کہ وہ شخص بھی خرید سکے جو عام حا لات میں وہ اشیاء خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ اس طرح ان ممالک میں ہر شخص چاہے وہ امیر ہو یا غریب مذہبی تہواروں میں شامل ہو سکتا ہے ،جبکہ ہمارے یہاں الٹ رواج ہے ۔ ہمارے ملک میں ذخیرہ اندوز اور کاروباری حضرات رمضان کے مقدس مہینے میں اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے غریب کے لیے یہ بابرکت مہینہ بھی دنیاوی برکات لے کر نہیں آتا ۔ہمارے ملک میں غریب انسان کے لیے اس کی رمضان کا مہینہ عام مہینوں سے زیادہ مشکل ہو جاتا ہے ۔جیب اور چادرسے باہر اشیائے خوردونوش اس مہینے میں تنخواہ دار طبقے کو مزید پریشانیوں میں مبتلا کر دیتی ہے ۔

ایک جانب تو مہنگاہی نے غریب عوا م کا جینا حرام کر دیا ہے تو دوسری جانب ہمارے ملک کے امراء اپنے لاکھوں روپے افطار پارٹیوں میں اڑا دیتے ہیں ۔ رمضان کے مہینے میں ہوٹلوں میں مہنگے افطار ڈنر کرنے والے اپنے ہی قریبی علاقوں میں بسنے والے غریبوں کے حالات سے بے خبررہتے ہیں اور اپنے اخراجات میں ان غریبوں کے لیے کسی قسم کا کوئی حصہ نہیں رکھتے ۔ اس طرح جو مہینہ تزکیہ نفسکے لیے ہے وہ افطار پارٹیوں اور ڈنر کی نذر ہو جاتا ہے ۔ماہ رمضان کی اصل روح ہمارے معاشرے میں ہر دو صورت میں مسخ کی جاتی ہے ۔ غریب عوام کی صورت میں مہنگائی اور افرادخانہ کو اشیائے خورونوش کی فراہمی کے لیے تگ و دو میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ امراء کی صورت میں وہ اپنے آمدنی کا ایک کثیر حصہ افطار پارٹیوں اور مہنگے لباس کی خرید پر خرچ کرتے ہیں ،

اس ماہ مقد س کی اصل روح کو برقرار رکھنے کے لیے معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔حکومتی سطح پر ہونا یہ چاہیے کہ حکومت رمضان کے بابرکت مہینے میں مہنگائی کا جائزہ لے اور اس کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر ے ۔ مہنگائی اور کھانے پینے کی اشیا ء کی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے حکومتی اداروں کو سخت اقدامات کرنے چاہیں ۔ اشیاء کی قیمتیں مقرر کر کے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا از حد ضروری ہے ۔جبکہ انفرادی اور عوام کی سطح پر صاحب ثروت حضرات کو چاہیے کہ ان لوگوں کا خیال رکھیں جو قوت خرید نہ ہونے کے باعث کچھ خریدنے سے قاصر ہیں ۔

واضع رہے ماہ رمضان صرف بھوک پیاس کا دوسرا نام نہیں ہے بلکہ یہ مہینہ ہمارے لیے ایک عملی سبق لے کر آتا ہے ۔ خود کو کھانے پینے سے روک دینا کافی نہیں ۔ بلکہ یہ انفرادی اور اجتماعی طور پر معاشرے میں بہتری لانے کاایک بہترین ذریعہ ہے اگر اس کی بنیادی روح کو زندہ رکھا جا ئے ۔یہ مہینہ نفس پر قابو پانے کا مہینہ ہے ۔اس مہینے میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے تاوقت کہ اس ماہ کا اختتام ہو جائے ۔ اس ماہ میں تزکیہ نفس میں آسانی ہو سکتا ہے ۔کیونکہشیاطین کا جکڑے جانا اس بات کی نشاندہی ہے کہ انسان کو معلوم ہو جائے کہ اس کے گناہوں میں کتنا حصہ اس کے اپنبے نفس کا کتنا حصہ ہے اور کتنا حصہ شیطان کاہے ؟ اس کااپنا نفس اسے کس حد تک گناہوں کی جانب مائل کرتا ہے اور وہ کس حد تک اپنے نفس پر قابو پا سکتا ہے اس کا اندازہ اس ماہِ مبارک میں ہو جاتا ہے ۔اس مہینے میں انسان اپنی جائز نفسانی خواہشات جیسے کھا نا پینا وغیرہ ہے اس پر قابو پانا سیکھتا ہے ، جائز خواہشات پر قابو پانے سے ناجائز خواہشات پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے ۔اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور زیادہ سے زیادہ دوسروں کی مدد کی جانی چاہیے تاکہ یہ مہینہ اپنی اصل روح کے ساتھ گزارا جا سکے ۔صرف یہ ایک مہینہ ہی نہیں سال کے تمام مہینوں میں یہی طریقہ اپنایا جانا ضروری ہے تاکہ معاشرہ ایک فلاہی معاشرہ کی عملی صورت بن جائے ۔

خواہشات پر قابو پانے کے علاوہ یہ عملی عبادت کا مہینہ ہے جو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہجن لوگوں نے کبھی بھوک پیاس برداشت نہیں کی انھیں ان لوگوں کی تکالیف ، اور آلام کا احساس ہو جو کہ سفید پوش یا غریب ہونے کی وجہ سے بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں ۔لیکن ہمارے ملک میں جذبہ ایثار پنپنے کی بجائے افطار پارٹیوں ، سحری کے اعلیٰ اہتمام ، اور دعوتوں میں بے دریغ پیسہ تو لٹا دیا جاتا ہے لیکن غریبوں کی از خود مدد نہیں کی جاتی ۔ اس طرح معاشرے میں ایک جذبہ ایثار پیدا ہو تا ہے اور عملا معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم ، اور مختلف طبقوں میں موجود خلیج میں کمی ہو سکے ۔

اگر رمضان کے مہینے سے حاصل ہو نے والے سبق کو انفرادی طور پر یاد رکھا جائے اور اس عملی عبادت کو معاشرے میں نافذ کیا جائے تو تھر کے باسی کبھی بھوک پیاس کے ہاتھوں جان کی بازی نہ ہاریں اور نہ ہی کسی آفت زدہ علاقہ کے لوگ حکومتی امداد کو ترستے رہیں
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 149463 views i write what i feel .. View More