امجد صابری کا قتل

گلشنِ نعت میں بلبل ِشیریں آواز چہکنا حرام ہے

آج علی الصبح میں اپنے ذاتی کمپیوٹر(personnel computer)پر ایک شوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کو دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک میری نظر ایک خون آلود تصویر پر پڑی ۔یہ تصویر غالباً ایک جواں سا ل ،خوب رو ،دراز قد اور قوی جسامت والے فرد کی تھی۔خون سے لت پت یہ تصویر باوجود اس کے میرے لئے کسی اجنبی کی تصویر تھی ۔ لیکن پھر بھی میری رگِ حمیت پھڑکی اورمیرے دل کو یکایک غمزدگی نے کچھ یوں آگھیرا،گویامقتول میرے اپنے احباب میں سے ہو۔

یقینا انسا ن خون ِ ناحق بہتا ہو ادیکھ کر اگر ٹس سے مس نہ ہو تو وہ انسان کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔ کیونکہ انسانی فطرت اس طرح کے مناظر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ہے۔البتہ مختلف قسم کے رجحانات بسا اوقات اس فطرت کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔ اور پھر کسی رد عمل سے قبل ایک شخص انسانی خون کی بھی اپنی ایک مخصوص نگاہ سے جانچ پڑتال کرنا۔ اگر یہ خون اس کے اپنے ذاتی تمائلات سے میل کھائے تو ممکن ہے وہ اس غم میں خون کے آنسو رونے کی حد تک چلا جائے۔بصورت دیگر اس بہیمیت کو عجیب و غریب تاویلات کے ذریعے کارِ خیر گرداننا اس مزاج کے لوگوں کی ایک مجبوری بن چکی ہے ۔غرض کہنے کا یہ ہے کہ وہ خالص انسانی جذبہ قریب قریب اب فوت ہو چکا ہے کہ جو ایک نو جوان کی مسخ شدہ لاش کو دیکھ کر اس کا شناختی کارڈ دیکھنے کا قائل نہیں ہوتا ہے۔برعکس اس کے دورِ حاضر میں کسی بھی ناحق قتل پر ردِ عمل ظاہر کرنے سے قبل ہر فرد اس کا تفتیش کرنے میں لگ جاتا ہے کہ مقتول کی قومیت کیا ہے ؟اس کا کس مذہب ومسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ کس ملک میں پیدا ہوا اور کس سرزمین پر مارا گیا ؟ اس کے مشاغل کیا تھے؟ ؟وغیرہ وغیرہ ۔اور اس پہلو کا سب سے درد ناک اور افسوسناک پہلو یہ ہے اگر قاتل تفتیش کنندہ شخص سے فکری،قومی،مسلکی،مذہبی اور نظریاتی رشتہ رکھتا ہو تو وہ فوراً یہ رائے قائم کرتا ہے کہ یہ قتل حق بہ جانب ہے۔

بہر حال انسانیت اس لحاظ سے بربادی کے کگار پر ہے۔اور ہر کوئی اس بربادی کے مناظر اپنے ہی تعمیر کردہ مخصوص زندان کی روزن سے دیکھنے میں مشغول ہے۔وہ دن گئے جب مشرق میں مارے گئے انسان پر مغرب نوحہ کناں ہوتا تھا ۔ اور مغرب کے مظلوم کے متعلق مشرقی دل رنجیدہ خاطر ہوتا تھا۔خود غرضی،خود خواہی اورخود فریبی نے دورِ جدید کے ماڈرن انسان کی فطری میلانات کو ہزارہاء قسم کے دبیز پردہ میں چھپا دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جو دل جانوروں کے از جان ہونے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا وہی اب انسان کی ہلاکت سے ذرہ برابر بھی ہلکان نہیں ہوتا ہے ۔اس صورت حال پر بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ’’ آں قدح بشکست و آں ساقی نماند‘‘۔

خیر بات ہو رہی تھی ایک جوان سال ،خوبرو ،اور قوی ہیکل شخص کے خون آلود لاش کی۔دراصل میں کسی اور چیز کی تلاش میں انٹر نیٹ کی دنیا میں سرگردان تھا ۔ اس درد ناک منظر کو دیکھ کر میری تلاش کا رخ ہی بدل گیا میرے دل میں میرے لئے اس غیر شناختہ مقتول کے متعلق مزید جانکاری حاصل کرنے کی ٹرپ پیدا ہوئی۔اور اس ٹرپ نے راقم کو تین گھنٹے تک مسلسل انٹرنیٹ کے ساتھ مصروف رکھا۔اور چند ایک معلومات کی بنیاد پر میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ راقم کے لئے یہ غیر معروف ہلاک شدہ فرد ایک معروف قوال امجد صابری ہے۔جو صابری براداران کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے ۔مزید کھنگالنے پر یہ بھی معلوم ہوا کہ مقتول صابری اپنی خوش الحانی کے لئے بر صغیر میں ہر دلعزیر تھے۔ یہاں پر میں اس بات کا اعتراف کرتا چلوں ہر چندکہ راقم قوالی کے فن سے نابلد ہونے کے سبب قوالی سننے کا دلدادہ نہیں۔ البتہ گاہ بہ گاہ کہیں غیرارادی طور کسی قوال کی آواز کان میں پڑھ جائے تو قدرتی طور پر فکرو فن کی طرف متوجہ ہونا لابدی ہے۔ یہی سبب ہے کہ مرحوم صابری جیسے فن کاروں کے فن اور زندگی سے راقم کلی طور پر ناواقف ہے ۔سیدھی سی بات ہے کہ جس کی زندگی سے کوئی بالکل ناواقف ہو اس کی زندگی سے اسکا متاثر ہونا ناممکن ہے۔میں بھی ناواقفیت کی وجہ سے امجد صابری کی حیات اور کارناموں سے متاثر نہیں ہوں مگر ان کی موت نے مجھے یقینا متاثر کیا۔ یقین جانئے کہ باوجود اس کے میں نے اس شخص کو آج تک دیکھا نہیں تھا اور نہ ہی سنا تھا پھر بھی اس کے تئیں میری ہمدردی لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا گیا ۔میں نے اس کے کئی انٹر ویو سنے۔اس کی نعت خوانی محفلوں کو دیکھا ۔عجلت کے باوجود معلومات کا ایک قابل قدر ذخیرہ جمع کیا اپنے چند ایک اہم امورات کو چھوڑ کراور اس مقولے کو نظر انداز کر کے یہ کالم تحریر کرنے بیٹھ گیا کہ
’’آں کہ کشتۂ جور شد از قبیل ما نیست‘‘ یعنی وہ جو تیغِ ظلم سے قتل ہوا اس کا تعلق میرے قبیلے سے ہرگز نہیں
ہے

بہر کیف جمع شدہ معلومات کے بناء پتہ چلا کہ امجد ۱۹۷۶ میں پیدا ہوئے اور صابری خاندان کے چشم و چراغ تھے ایک ضعیف العمر ماں کے لاڈلے ایک با عفت خاتون کے وفا شعار شوہر ۔ اور پانچ ننھے منھے بچوں کے والد کی صورت میں ان کے لئے ایک پشت پناہ اور شجرِ سایہ دار تھے ۔لیاقت آباد کراچی میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ محض ایک گولی سے ایک بوڑھی ماں کے بڑھاپے کا سہارا چھن گیا ۔ایک عورت کا سہاگ لٹ گیا۔اور پانچ معصوم بچوں کے سر سے والد کا سایۂ عاطفت اٹھ گیا۔علاوہ از ایں ایک ایسی آواز جو ہزاروں دلوں کو لبھاتی تھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔

در اصل کراچی میں ایک عرصے سے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات کو ٹھکانے لگایا جا رہا ہے۔تاجر،وکیل،ڈاکٹر ،نعت خوان،قوال، سیاست دان، مذہبی علماء،خطباء،فن کار و موسیقی کار، شعرا و ادباء،صحافی و دانشور، پروفیسر و ٹیچر،پولیس اہلکارغرض ہر طبقہ گھات میں بیٹھے دہشت گردوں کا ہدف ہے۔جسے یہ بات مترشح ہو جاتی ہے کہ یہ دہشت گردمعاشرے کے ہر عضو کو معطل دیکھنا چاہتے ہیں ۔یہ درد آشنا طبیب کے لئے بے درد ہیں۔سماج کی آنکھ کہے جانے والے شاعر کو کور چشم دیکھنے کے متمنی ہیں۔ ایک دانشوری کی جدت ِ فکر کے ساتھ انہیں ازلی پر خاش ہے۔صحافی کی بیباکی ان دہشت کے کارباریوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ جدید علوم سے مزین اساتذہ صاحبان کو یہ لوگ بدعت کا چلتا پھر تا مجسمہ سمجھتے ہیں۔تاجروں کو دنیا داری اور آخرت بے زاری کے جرم میں تختۂ دار کی زینت قرار دیتے ہیں۔ان کے آبائی مسلک سے رتی بھر اختلاف رکھنا علماء و خطباء کو قابل ِ گردن زنی قرار دیتا ہے۔المختصر فیض احمد فیض نے اپنے وطن کی صورت حال پر جو چند اشعار لکھے تھے آج کے حالات پر وہ صد فی صد صادق آتے ہیں۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اْٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس دنیا سے رخصت ہونے سے کچھ ہی دیر قبل اپنے آخری سحری ٹرانسمشن میں جو نعت انہوں نے پر درد اور نہایت ہی خوبصورت آواز میں پڑھی تھی ۔اس کے ابتدائی اشعار تو ان کے انجام خیر کی نوید سناتے ہیں۔یہ نعت پڑھتے ہوئے ان کی ہچکیاں بندھی تھی ۔ان کے آخری لحظاتِ زندگی میں تاجدار حرم سے کی گئی یہ التجا کچھ بعید نہیں درجہ ٔ اجابت تک پہنچ گئی ہو۔
اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا
جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
میں قبر اندھیری میں گھبراونگاں جب تنہا
امداد کو پھر میری آجانا رسول اﷲؐ
Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 61212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.