یہ ہی ٹھیک رہے گا

اسے اپنے بےمثل اور یکتائے عالم ہونے کا شک گزرا۔ نر شیر ببر ہونے کے شک سے‘ اس کی رگ وپے سے تکبر کے آتش فشانی شعلے‘ بلند ہونے لگے۔ اس امر کے اعلان کے لیے‘ تکبر کی کامل شکتی کے ساتھ دھاڑا۔ اس منہ سے دھاڑ تو نہ سکا‘ ہاں البتہ اس کے منہ سے‘ صور اسرافیل سے مماثل غرغراہٹ ضرور نکل گئی کہ مخلوق ارضی ڈر اور خوف سے لرز لرز گئی۔ اس سے‘ اس کی انا کو تسکین ملی اور انا نے اس کی میں کو مزید شکتی دان کی۔ پھر کیا تھا‘ جسم و جان تکبر کی مستی کے کھڈ میں جا گرے۔ ہاں یہ ہوش رہا‘ کہ کہاں دولتی چلانا ہے۔ اس نے دور کے ایک علاقے میں پوری شان سے دولتی چلائی کہ وہ علاقہ مٹ گیا۔ چھوٹے بڑے کم زور اور طاقت ور نر مادہ دم توڑ گیے۔ کچھار گھونسلے گھروندے زمین بوس ہو گیے۔ سرشاری میسر نہ آ سکی۔ سرشاری کے لیے دوبارہ سے‘ بلا غرارئے‘ ایک اور دولتی جڑ دی۔ ایک اور علاقہ خاک و خون میں نہا گیا۔

بھوک اور سیری‘ حددوں کی چیزیں نہیں ہیں۔ توکل سیری کی من بھاتی کھا جا ہے‘ جب کہ بھوک‘ مزید کی گرفت میں رہتی ہے۔ اس نے لوٹ مار اور قتل وغارت کا بازار گرم کر دیا۔ اس نے ہر تکڑے کے‘ ناصرف ناخن کٹوا دیے بل کہ اپاہج کرکے‘ عزت وشرف سے سرفراز کیا۔ اس کا کھا کر‘ ہڈی اس کے سامنے پھینک دیتا تا کہ وہ مصروف رہے اور اس کی دیا کے‘ گن گاتا رہے۔ ہاں البتہ گاہے بگاہے بھونکتا‘ ٹونکتا اور غراتا رہتا تا کہ سرکشی جنم ہی نہ لے اور کسی کو‘ میں کا دورہ نہ پڑے۔ ہڈی اور حفظ ماتقدم کے لیے‘ علاقے کے سبھی لگڑبگڑ اس کے سآتھ ہو لیے تھے۔ انہیں پیٹ اور جی بھر ہڈیاں میسر آ رہی تھیں۔

کسی کی خوارک بند کر دیتا۔ کسی کی خوراک کی ترسیل کے رستے‘ بند کر دیتا۔ کسی پر جھپٹ پڑتا۔ خبرگیری کے توتے‘ اسے لمحہ لمحہ کی‘ اطراف کی خبریں پہنچاتے رہتے تھے۔ توتے کبھی کسی کے سگے نہیں رہے۔ وفاداری ان کی فطرت میں داخل نہیں۔ وفاداری ان کی فطرت میں ہوتی تو توتے کیوں کہلاتے۔ توتے ہمہ وقت چوری کے متمنی رہتے ہیں۔ وفاداری‘ چوری آمد کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔ آمد لوٹ مار سے وابستہ ہے۔

قتل و غارت سے گدھ بھی لابھ اٹھاتے ہیں۔ جنگلی حیات میں‘ حق سچ کی کوئی معنویت نہیں ہوتی۔ گدھوں کی آواز‘ کوئل کی آواز سے بڑھ کر سریلی محسوس ہوتی ہے۔ آتا کل‘ گزرے کل کو‘ ان آوازوں کے حوالہ سے پہچانتا ہے۔ کوئل کی آواز‘ سات پردوں کے پیچھے جا چکی ہوتی ہے۔ ڈھول کے سامنے ہر ساز کی آواز‘ اپنے وجود سے عاری ہو جاتی ہے۔

چار پرانے بیٹھے ہوئے تھے۔ عصری حالات و معاملات پر گفت گو کر رہے تھے۔ کم زوروں کی حالت زار کا رونا رو رہے تھے۔ سب مایوس اور بےبس ہو چکے تھے۔
ان میں سے ایک بولا: یار اپنے لیڈر سے کیا امید باندھیں‘ وہ تو اپاہج گیڈر ہے۔ شیر کا ٹائیٹل تو اعزازی ہے۔ بولیں گے تو جوتے کھائیں گے۔
دوسرا بولا: جو چل رہا ہے چلنے دیں‘ جنگل میں جنگل کا قانون چلتا ہے۔
تیسرا بولا: کچھ تبدلی آئے گی۔
چوتھے نے کہا: ہاں یار‘ کچھ تو تبدیلی آئے گی۔
پہلا: سب ایک جگہ جمع ہو کر دعا تو کر سکتے ہیں۔
اگر اسی پتا چل گیا تو دولتی سے کیسے بچیں گے
دوسرا ہاں یہ تو ہے
پہلا تو پھر کیا کریں۔
چوتھے: گھروں میں بیٹھ کر دعا کر سکتے ہیں۔
پہلا: یہ ٹھیک رہے گا۔
تیسرا: مخبری ہو گئی تو
پہلا: ہاں بعید از قیاس نہیں
دوسرا: کچھ تو کرنا پڑے گا۔
دوسرا: کرنا کیا ہے‘ جو چل رہا ہے‘ چلنے دیں۔
چوتھا: ہاں یہ ہی درست رہے گا۔
پھر سب یک زبان ہو کر بولے: ہاں ہاں یہ ہی ٹھیک رہے گا، یہ ہی ٹھیک رہے گا اور وہ چاروں اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔

 

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 192849 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.