أَنَا أَجْزِی بِهِ
(Muhammad Atif Nawaz, Faisalabad)
‘‘ اے لوگو تمہارے پاس عظمت و برکت والا
مہینہ آرہا ہے وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے’’
دین کی ہرعبادت ایک پروگرام ہے۔جو قارئین کمپیوٹر سے واقفیت رکھتے ہیں، وہ
جانتے ہیں کہ پروگرام سے مراد پورا سسٹم ہوتا ہے جس پر دیگر ایپلیکیشنز
(Run) کرتی ہیں۔ عبادت بھی روزمرہ زندگی کا ایک پروگرام ہوتا ہے۔ کمپیوٹر
کی زبان میں جسے ہم ونڈوز (آپریٹنگ سسٹم) کہتے ہیں یہ بھی دراصل ایک
پروگرام ہے۔ اسی پروگرام کی بیس پر کمپیوٹر کام کرتا ہے۔ آسان الفاظ میں
ہم یوں کہیں گے کہ پروگرام کمپیوٹر کی روح ہے۔ پروگرام مثلاََ ونڈوز کے
بغیر کمپیوٹر کام نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اللہ نے جو عبادات فرض کی ہیں وہ
تمام عبادات انسانی زندگی کے لئے پروگرامز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور
پر صلٰوۃ ایک پروگرام ہے۔ دن میں پانچ بار صلٰوۃ کا قائم کرنا فرض قرار دیا
گیا ہے۔ اس سے مُراد یہ نہیں کہ پانچ بار صلٰوۃ کی ادائیگی کے بعد درمیانی
وقفہ میں ہم صلٰوۃ کے اس پروگرام سے قطع تعلق ہو جائیں ۔ یا ہم اللہ کے
حقوق سے بری الذمہ ہو گئے۔ اگر ہم اوقاتِ صلٰوۃ کے بعد اللہ کے ساتھ ربط و
تعلق کو ذہن سے نکال دیں تو صلٰوۃ کا مقصدو منشاء پورا نہیں ہوتا۔
‘‘ پھر جب صلوٰۃ سے فارغ ہو جاؤ تو الله کو کھڑے او ربیٹھے اور لیٹے ہونے
کی حالت میں یاد کرو پھر جب تمہیں اطمینان ہو جائے تو پوری صلوٰۃ قائم کرو
بے شک صلوٰۃ اپنے مقرر وقتوں میں مسلمانوں پر فرض ہے ’’
سورة النسا – 103
اس آیت مبارکہ میں مقررہ اوقات کے علاوہ بھی کھڑے، بیٹھتے، لیٹتے یعنی ہر
حالت میں اللہ کی طرف متوجہ رہنا صلوٰۃ کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔
قرآن پاک میں ہے
‘‘ وہ جو الله کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ بدلتے یاد کرتے ہیں اور آسمان
اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے یہ
بےفائدہ نہیں بنایا توسب عیبوں سے پاک ہے ، سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ’’
سورة آل عمران
مطلب یہ کہ زندگی کی ہر حرکت میں اللہ کو یاد کرنا ، اللہ کی طرف متوجہ
رہنا ۔ عبادات کا مقصد و منشاء اور حقیقی مفہوم ہے۔ اسی حقیقت اور قانون کو
حضور علیہ الصلٰوۃ والسلّام نے الصلوۃ معراج المؤمنین کے ارشاد سے بھی
آشکار فرمایا ہے۔
صلٰوۃ کی طرح صیام یعنی روزہ بھی ایک مکمل اور جامع پروگرام ہے۔
اس سے قبل کہ ہم اس پر بات کریں۔ سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات ‘‘یہ ہدایت
ہے متقین کے لئے’’ کو ذہن میں رکھیں۔ تقوی سے مراد یہ ہے کہ بندہ اللہ کی
معرفت زندگی گزارتا ہے۔ وہ اپنے ہر کام میں اللہ کو شامل کرتا ہے، اور اس
کا ذہن اللہ ہی کی طرف متوجہ رہتاہے۔ اس بات کو مولانا رومؒ نے بھی بیان
کیا ہے کہ ‘‘ جو دم غافل ۔ سو دم کافر ’’ یعنی وہ کسی بھی لمحے اللہ کی یاد
سے غافل نہیں ہوتا۔ اس تمہید کا مقصد یہ کہ قرآن سے ہدایت لینے کے لئے
قرآن کے ہی قانون کے تحت متقی ہونا ضروری ہے۔
صیام یعنی روزے کا بُنیادی مقصد قرآن نے اِسی تقوٰی کا حصول قرار دیا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ
عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے ایمان والو تُم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے کہ تُم سے پہلی قوموں پر
فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقوٰی اختیار کرو۔ سورة البقرة
بہت اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام عبادات کو تقویٰ کے حصول کا
ذریعہ قرار دیا ہے۔
‘‘ اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے
پہلے تھے تاکہ تم تقوٰی اختیار کرو’’ - سورة البقرة
متقی کے ذہن میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جس کے ذہن میں شک ہو وہ متقی
نہیں ہو سکتا۔ اس قانون کو ایک امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاء ؒ
نے بھی ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ
‘‘ یقین ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں شک نہ ہو’’
یعنی صرف شک سے پاک ذہن ہی قرآن سے ہدایت لے سکتا ہے۔ اور اس کے حصول کے
لئے عبادات کے پروگرام کو فالو کرنا ناگزیر ہے۔
چونکہ انسان کی منزل اللہ ہے ،( وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنتَهَىٰ –
سورۃ النجم ) روزہ اللہ سے قُربت کا ایک ذریعہ ہے۔ جو کہ انسانی زندگی اور
روحانی وظائف کی منزل بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها
إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَاَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی :
إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.
‘‘ آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے
بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ
میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں۔‘‘
(ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام)
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ روزہ کی جزا میں دوں گا۔
بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ ‘‘ أَنَا أَجْزِی بِهِ ’’ یعنی میں ہی روزہ کی
جزا ہوں۔
اس کا مطلب ہوا کہ روزے دار اللہ کا قُرب حاصل کر لیتا ہے اور قربت دوستی
اور محبت کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی اپنے دوستوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ
’’اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی غم‘‘ ۔ سورہ یونس
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ
فرماتا ہے :
’’ابن آدم کا روزے کے سوا ہر عمل اس کے اپنے لئے ہے۔ روزہ بالخصوص میرے لئے
ہے۔ اس کی جزا میں ہوں اور روزہ ڈھال ہے، جب تم میں سے کسی شخص کا روزہ ہو،
تو وہ بے ہودہ گوئی کرے، نہ فحش گوئی کرے۔ اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس
سے جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔‘‘ بخاری، الصحيح، کتاب
الصوم
ایک اور موقعہ پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
’’اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا (روزہ رکھ کر) نہیں چھوڑتا
تو اللہ تعالیٰ کو اسکی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا، پینا، چھوڑ
دے۔‘‘ بخاری، الصحيح، کتاب الصوم
روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنا، غیبت کرنا اور فحش کلامی کرنا ممنوع ہے۔ ان
امورِ رذیلہ سے اس لے ممانعت کی گئی کہ ان سے روزہ رکھنے کا مقصد ختم ہو
جاتا ہے اور روزہ دار، روزہ کے برکات و ثمرات سے محروم رہتا ہے۔
روزہ کا ایک نہایت فائدہ حواس کی رفتار کا بڑھ جانا ہے۔ اللہ تعالٰی ارشاد
فرماتا ہے۔
’’تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے ۔ شب قدرایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس
میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں‘‘ سورۃ القدر
ان آیات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان کی ایک مقدس رات شب قدر ایک
ہزار راتوں سے افضل ہے۔ یعنی اس ایک رات میں حواس کی رفتار عام دنوں کے
مقابلے میں ۱ یک ہزار گُنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ اور فرشتے اللہ کے حکم سے
برکات اور فیوض لے کر نازل ہوتے ہیں۔
تذکرہ غوثیہ میں ایک واقعہ نقل ہے کہ ایک بار ایک بادشاہ نے اپنے اُمراء
اور وزراء کی محفل میں اعلان کیا کہ آج کا دن مجھ سے کوئی فرمائش کرو میں
اُسے پورا کروں گا۔ جو مانگو گے دوں گا۔ اس عنایت پر کسی وزیر نے کوئی محل
مانگا اور کسی نے زمین کا کوئی ٹُکڑا۔ کوئی ہیرے جواہرات لے کر خوش ہو گیا۔
دربار میں ایک کنیز بھی موجود تھی۔ بادشاہ نے کنیز سے کہا تُم بھی کچھ
مانگو۔ کنیز نے کہا کہ بادشاہ سلامت ایسا نہ ہو کہ آپ میری مانگی ہوئی چیز
مجھے نہ دے سکیں۔ بادشاہ نے کہا کہ جو چیز میرے تصرف میں ہے میں وہ حسبِ
وعدہ ضرور دوں گا۔ کنیز آگے بڑھی اور بادشاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جب کسی نے بادشاہ کو پا لیا تو کسی چیز کی کیا
ضرورت رہ گئی۔ لیلۃ القدر کے حواس میں داخل ہو کر جب ہم نے حدیث قُدسی
(أَنَا أَجْزِی بِهِ)کے قانون کے تحت اللہ کو پا لیا تو ایسے سعید افراد کو
اللہ تعالٰی خلیفۃ الارض کہتا ہے۔
خلافت اللہ کے عرفان کے صلہ میں ہے ۔ ناخلف اولاد ، سعید وراثت سے محروم رہ
جاتی ہے۔
خانوادہ سلسلہ عظیمیہ خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے
مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاؒ سے عرض کیا۔
‘‘ حضور میں اللہ تعالیٰ سے کیا مانگوں ! اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے مجھے
سب کچھ عطا فرما دیا ہے’’
قلندر بابا اولیاؒ لیٹے ہوئے تھے، میری بات سُن کر ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گئے
اور فرمایا
‘‘ خواجہ صاحب ! آپ نے یہ کیا بات کہ دی ۔ مانگنے کا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ
سے اللہ تعالیٰ کو مانگو’’
جب اللہ تعالیٰ مل جاتا ہے تو کائنات سرنگوں ہو جاتی ہے۔ صف بستہ اللہ
تعالیٰ کے فرشتے نظر آتے ہیں۔ نسبتِ سکینہ حاصل ہو جاتی ہے۔ ایسے بندے کے
دل سے ڈر اور خوف نکل جاتا ہے۔ اس میں قناعت آ جاتی ہے۔
روزہ یعنی صیام کے حواس ہمیں اس مقام تک لے جاتے ہیں جہاں أَنَا أَجْزِی
بِهِ (میں ہی اس کی جزا ہوں) کا قانون صادق آ جاتا ہے۔
روزہ رکھنے سے جسمانی اور روحانی کثافتیں دُور ہو جاتی ہیں۔ اور آدمی کے
ذہن کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ تمام آسمانی کتابیں بھی اسی مقدس مہینہ میں نازل
ہوئیں۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں
رمضان کی پہلی یا تیسری تاریخ کو صحیفے عطا کئے گئے۔ حضرت داؤد کو زبور،
حضرت موسٰی کو تورات، حضرت عیسٰی کو انجیل بھی رمضان المبارک میں ہی دی
گئی۔یعنی الہامی کلام رمضان کے حواس میں ہی نازل کیا گیا-
رمضان المبارک کے مہینے میں تیس روزے ہمیں تفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ بندے
کا اور اللہ کا ایک براہ راست تعلق قائم ہے۔
اے رسول اللہ صلّی اللہ وسلّم ، میرے بندے جب آپ سے میرے بارے میں سوال
کریں تو آپ کہ دیجئے کہ میں ان کے قریب ہوں جب وہ مجھے پُکارتے ہیں تو میں
انکی پکار کا جواب دیتا ہوں۔
اللہ ربّ العزت ہمیں روزہ اور صلٰوۃ کی حقیقی روح کو سمجھنے کا فہم عطا کرے
اور ہماری عبادات اور دعاؤں کو قبول فرمائے۔ اور اس رمضان کو ہمارے لئے
رحمت، بخشش، نجات اور اپنے قُرب کا ذریعہ بنا دے۔
آمین یا ربنا
|
|