یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا۔اے چاند یہاں نہ نکلا کر
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
کراچی میں عالمی شہرت یافتہ قوال امجد
صابری کا بہیمانہ قتل
اندھیر نگری چوپٹ راج․․․ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا والی صورت حال نہیں تو
پھر اور کیا ہے؟ٹکے سیر بھاجی تو کیا ہوگی یہاں تو انسانی جان ٹکے کی بھی
نہیں۔ دہشت گرد جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں ،جس کو چاہتے ہیں گولیوں کا
نشانہ بنا کر خون میں نہلا دیتے ہیں۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں، نمازی
بھی،پرہیز گار بھی ، اس کے باوجود نہ رمضان کا خیال، نہ روزہ کی فکر، نہ یہ
خیال کہ ہم جس کی جان لینے جارہے ہیں وہ بھی مسلمان ہے، وہ بھی روزہ سے
ہوگا، یہ کیسی فکر ہے، یہ کیسی سوچ ہے، یہ کونسا فلسفہ ہے، کون سا مذہب یہ
تعلیم دیتا ہے، کون سا فرقہ، کونسا مسلک یہ کہتا ہے کہ بے گناہ کی جان لے
لو، بے قصور کو مارڈالوہر اس کو جو آپ سے سیاست میں، عقائد میں، فرقے ،
مسلک میں یا کسی اور بات میں زرا سا بھی اختلاف رکھتا ہو اسے لہو لہان کر
ڈالو ۔ دور جانے کی ضرورت نہیں جب سے رمضان شروع ہوئے ہیں کتنے بے گناہ خون
میں نہا چکے ہیں۔ ہر ایک ناحق قتل کے بعد وزیر اعظم ، وزیر داخلہ، قتل سندھ
میں ہو تو سائیں قائم علی شاہ صاحب، پنجاب میں ہو تو چھوٹے میاں صاحب، اسی
طرح خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ انتہائی ہمدرد ی کا بیان
جاری فرما دیتے ہیں، ساتھ ہی یہ بھی کہہ کر مسئلہ پر خاک ڈال دی جاتی ہے کہ
قاتلوں کو کیفے کردار تک پہنچا کر دم لیں۔ نہیں معلوم یہ دم کب نکلے گا ،
نکلے گا بھی یا نہیں، قاتل کب کیفے کردار تک پہنچیں گے۔ کب امن قائم ہوگا،
کب دہشت گرد اپنی کاروائیاں بند کریں گے۔
حکیم محمد سعید سے لے کر مفتی شامزئی تک، میلاد النبی ﷺ کے جلسے سے آرمی
پبلک اسکول کے معصوم بچوں تک،نہتے پولس والوں سے لے کر مسلح افواج کے
جوانوں تک،پولس وین پر حملے سے پولیو ورکرز پر حملوں تک، زائیرین کی بس کو
بھون ڈالنے سے لے کر سفورہ چورنگی پر بس حملے تک،ڈاکٹر شکیل اوج سے ڈاکٹر
سید وحید الرحمٰن تک، سابق وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا کے بیٹے کے اغوا سے
موجودہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس شاہ کے اغوا تک
اور اب اپنے رب سے چین کی، جینے کی بھیک مانگنے والے، مدینہ کی آروزو کرنے
والے، غریبوں کے دن سنورنے کی دعا کرنے والے اور یہ نعت نبوی ﷺ خوش الحانی
سے پڑھنے والے کہ ’ قسمت میں مری چین سے جینا لکھ دے․․․ڈوبے نہ کبھی میرا
سفینہ لکھ دے، جنت بھی گوارا ہے مگر میرے لیے․․․اے کاتب تقدیر ! مدینہ لکھ
دے، تاجدارِ حرم ہو نگاہِ کرم ․․․ہم غریبوں کے دن سنور جائیں گے ‘، عالمی
شہرت یافتہ قوال اور نعت خواہ امجد صابری کا کراچی میں بے دردی اور بہیمانہ
قتل دہشت گردوں کی جانب سے واضح پیغام ہے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل
میں ہمہ وقت آزاد اور اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ انہیں کسی کا ڈر نہیں ، انہیں
کسی کا خوف نہیں، جب اﷲ کا ہی ڈر نہ ہو تو انسانی عمل سے وجود میں آنے والے
پروگرام، قوائد و ضوابط سے ڈر و خوف کیسا۔ آخر کوئی انسانیت کے قاتلوں سے
پوچھے کہ امجد صابری کا قصور کیا تھا؟ قوالی یا نعت خوانی اس کے آباؤں
اجداد سے چلا آرہا ہے، قوالی کی روایت تو امیر خسرو اور حضرت غریب نواز
نظام الدین اولیا کی روایت کے طور پر برصغیر میں برسوں سے رائج ہے۔ اختلاف
اپنی جگہ ، اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ جو چیز پسند نہ ہو اسے بے چوں و
چرا نیست و نابود کردیا جائے۔ انسانی جان لے لی جائے وہ بھی رمضان جیسے
مقدس مہینے میں۔
حبیب جالبؔ نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ’ یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا ․․․اے
چاند یہاں نہ نکلا کر‘ واقعی یہاں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے، کوئی
پوچھنے والا نہیں، رسمی طور پر بیانات جاری کرنے کے سوا عمل صفر ہوتا ہے۔
وزیر اعظم صاحب نے لندن میں بیٹھ کر ہمدردی کا بیان جاری کردیا اور اب امجد
صابری کی بیوا اور بچوں کے لیے ایک کروڑ کی امداد کا اعلان بھی کردیاگیا ہے
، کیا ایک کروڑ سے ان معصوموں کے غموں کا ازالا ہوگا، کیا وہ یہ رقم وصول
کر کے اپنے شوہر اور اپنے باپ کی جدائی کو بھلا سکیں گے، ہر گز نہیں، ضرورت
اس امر کی ہے کہ احباب اختیار انتہائی سنجیدگی سے اس ناسور کا مستقل حل
تلاش کریں، اس ناسور کی جڑ تک پہنچا جائے، اصل قاتل تو ہماری سرزمین سے
کہیں دور موجود ہیں، جب تک ان تک نہیں پہنچا جائے گا، انہیں اس عمل سے دور
رہنے کی سعی نہیں کی جائے گی ، جب تک ان کے مقاصد میں تبدیلی نہیں آئے گی،
ہماری سر زمین میں چھپے ہوئے قاتلوں کو جب موقع ملے گا وہ وار کرتے رہیں
گے۔ یہ تو اس بات سے بھی واقف نہیں کہ وہ کسی کو کیوں قتل کر رہے ہیں، اس
سے کیا حاصل ہوگا، انہیں تو صرف یہ باور کرادیا جاتا ہے کہ فلاں تمہارا
ٹارگٹ ہے اس پر ٹھیک ٹھیک نشانہ لگا نا، خون بہانا اور بس، کبھی تو ان کا
وار خالی چلا جاتا ہے، کبھی ٹھکانے پر لگ جاتا ہے، اگر کبھی اپنے ٹارگٹ کو
نشانہ بناتے ہوئے ناکام ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے تو وہ اپنی جان دینے میں
لمحہ کی دیر نہیں لگاتے، انہیں تو یہ یقین ہوتا ہے کہ جیسے ہی انہوں نے کسی
بے گناہ کی جان لینے کے بعد اپنی جان ختم کی گویا وہ سیدھے جنت میں چلے
جائیں گے۔ ضرورت اس عمل کو روکنا ہے جس کے لیے ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے
جو ٹھوس اور پائیدار منصوبہ بندی پر کی جائے۔
خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اپنے حالیہ بجٹ میں مدرسہ حقانیہ جو کہ مولانا
سمیع الحق کی زیر سرپرستی چلنے والا مدرسہ ہے کے لیے 30کروڑمختص کیے۔ بظاہر
ایسا نظر آرہا ہے کہ پختونخواہ حکومت یا عمران خان نے ایسا کر کے گویا شدت
پسندی کی حوصلہ افزائی کا قدم اٹھایا اوراب اس حکومتی رقم سے نہ معلوم کتنے
اورطالب تیار ہوں گے۔عمران خان اور پختونخواہ حکومت پر اس قسم کی تنقید کی
جارہی ہے۔ ایسا کس لیے کیا گیا ، مولانا سمیع الحق کی جھولی میں اتنی بڑی
رقم ڈالنے کی وجہ کیا ہے۔ مولنا فضل الرحمٰن کے مقابلے میں مولانا سمیع
الحق کے ہاتھ مضبوط کرنا اور ان کی آشیرباد حاصل کرنا تو نہیں یا کوئی اور
چھپا ہوامقصد جو تاحال سامنے نہیں آیا۔ اس حوالے سے کالم نگار منصور آفاق
کی رائے صائب معلوم ہوتی ہے ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں عمران خان نے
یہ فنڈنگ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی ہے۔ اس ادارے کے طلبہ کو معاشرے کا
حصہ بنانے کے لیے کی ہے انہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کی ہے۔
انھیں بنیاد پرستی سے دور رکھنے کے لیے کی ہے۔انہیں اُن علوم سے روشناس
کرانے کے لیے کی ہے جو بند دماغوں کی کھڑکیاں کھولتے ہیں۔وہاں جب ہر طالب
علم کے لیے انٹر نیٹ کی سہولت میسر ہوگی تو اس کی آنکھوں میں روشنی آئے گی۔
وہ جب خوبصورت دنیا کو دیکھے گا تو غور کرے گا کہ ان کی زندگیوں میں
خوبصورتیاں کیسے آسکتی ہیں۔وہاں کے طالب علم جب مذہبی علوم علاوہ دوسرے
علوم بھی پڑھیں گے توان کے ذہن میں وسعت پیدا ہوگی اور اس مدرسے میں پڑھ کر
دہشت گرد نہیں سچے اور کھرے پاکستانی بنیں گے‘۔کالم نگار کی ان باتوں میں
دہشت گردی کا ایک ایسا حل نظر آرہا ہے جس کی صحیح معنوں میں ضرورت ہے۔ شدت
پسند ذہنوں کے ذہن بدلنے کی ضرورت ہے، شدت پسندوں تک پہنچنے کی ضرورت ہے،
انہیں اپنا ئیت کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ انہیں مار کر یا پکڑ کر جیل
میں بند کردینے یا انہیں پھانسی دیدینے سے اس مرض کا علاج نہیں ہوگا۔ مرض
کی وجوہات معلوم کر کے اس کا علاج کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک و
شبہ نہیں کہ مولانا سمیع الحق سچے پاکستانی ہیں، وہ دہشت گردی کے حق میں
بھی نہیں، طالبان انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے توسط سے
اور دیگر ایسی ہی شخصیات کے توسط سے مسئلہ کے حل کی جانب جا یا جاسکتا ہے۔
حکومت خصوصاً مسلح افواج پہلے اس مرض کا علاج کرنے میں ضرب عضب جاری کیے
ہوئے ہے اور اس میں بڑی حد تک کامیابی بھی ہوئی، کراچی کا امن بحال ہوا ہے،
روزمرہ کے جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن دہشت گردیکی کاروائیاں وقفے
وقفے سے ہوہی رہی ہیں۔ ان میں کب اور کس طرح کمی آئے گی یہ وقت ہی بتائے
گا۔
امجد صابری سے پہلے بھی کئی اہم لوگ اسی طرح دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ ان کے
لیے بھی افسوس ہوا، ماتم ہوا، ہمدری کے بیانات جاری ہوئے، امداد کا اعلان
ہوا، دہشت گردوں کا جڑ سے صفایا کردینے کے بلند بانگ دعوے کیے گئے ، جلسے ،
جلوس، ٹی وی اینکرز نے ان کے لیے خصوصی پروگرام کیے، کالم نگاروں نے کالم
لکھے اور پھر خاموشی طاری ہوگئی، ہر کوئی اپنے اپنے معاملات میں ایسے لگ
گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ امجد صابری کے لیے بھی یہی کچھ ہو ا اور ہورہا
ہے ، یہ غم و غصہ، یہ افسوس اور دکھ کی فضاء بھی رفتہ رفتہ خامو ش ہو جائے
گی۔ لیکن امجد صابری کے پانچ معصوم بچے ہمیشہ اپنے باپ کو یاد کرتے رہیں
گے، اس کی بیوہ جب تک زندہ رہے گے اپنے شوہر کا ماتم کرتی رہے گی،اس کی
بوڑھی ماں اپنے جواں بیٹے کو ہر دم یاد کر کے آنسؤبہاتی رہے گی۔اس کا بھائی
اپنے بھائی کا غم مناتا رہے گا ۔ باقی سب کچھ اپنی ڈگر پر آجائے گا۔ امجد
صابری تمہیں جنت مبارک ہو۔ |
|