اس سے بڑھ کر

اس کی ہر طور کی مسکراہٹ میں دم تھا۔ ویسے زیادہ تر سات قسم کی پھلجڑیاں‘ اس کے لب و رخسار پر‘ نمایاں ہوتی تھیں۔

غصیلی مسکراہٹ: اس کی اس مسکراہٹ سے‘ سب ہی گھبراتے تھے۔ سامنے کھڑے شخص کی‘ یہ مسکراہٹ جڑ پٹ کر رکھ دیتی۔ مطلب بری میں‘ یہ مسکراہٹ بڑی کارگر ثابت ہوتی۔ خوف ڈر ایک طرف رکھیے‘ اس غضب ناکی میں‘ بلا کی چاشنی تھی۔ شاہوں کی بیگمات دریا میں بیڑا غرق ہوتے دیکھ کر‘ سرشاری سی محسوس کرتی تھیں۔ اسی طرح کسی کی اس مسکراہٹ کے حوالہ سے‘ بوکی گرتے دیکھ کر بڑا ہی لطف آتا۔
طنزیہ مسکراہٹ: یہ مسکراہٹ روزن پشت سے پسینے جاری کر دیتی۔ مخاطب آنکھ ملانے کے قابل نہ رہتا۔
پوشیدہ مسکراہٹ: یہ ظاہر تو نہ ہوتی‘ لیکن اس کی آنکھوں میں ابھرتی ضرور تھی۔ اس کے بعد سمجھو‘ اس بندے کا ستیاناس مارا گیا۔

شاباشی مسکراہٹ: شاباش دینے میں بڑی بخیل تھی‘ لیکن اس کی شاباشی مسکراہٹ میں قیامت پوشیدہ ہوتی۔
رومان پرور مسکراہٹ: اس مسکراہٹ کا تعلق دینے سے بالا ہوتا‘ لیکن شکوک کے داروازے ضرور کھل جاتے۔

خوشی کی مسکراہٹ: اس مسکراہٹ میں سامنے والے دانت نمایاں ہو جاتے‘ دیکھنے والا مسرور ہو جاتا۔
مطلبی مسکراہٹ: دیکھنے والے کو تذبذب میں ڈال دیتی۔ تجربہ کار ہی سمجھ پاتا‘ کہ گوہر مقصود نہیں مل پائے گا‘ بل کہ دینا اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بلا جھڑے‘ سلامت گھر لوٹ جائے۔

اس کی ان مول مسکراہٹوں کے ساتھ‘ ان گنت قصے وابستہ تھے۔ کاش آج پنڈت رتن ناتھ سرشار زندہ ہوتے تو ایک اور فسانہءآزاد تخلیق ضرور پا جاتا۔ ایسی بڑی تخلیق‘ مجھ سے لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ شاید اس قسم کی کمیاں ہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہیں۔ ایسی چیزیں ہی پرانی یادوں کو تازا کرتی رہتی ہیں۔

یہ خاتون‘ لاہور کی ایک یونی ورسٹی سے ایم فل کر رہی تھیں۔ انہیں نگران کھاؤ پیؤ اور جیب ہولی کراؤ ملے۔ آتا جاتا تو خیر کچھ بھی نہیں تھا۔ خاتون کا معاملہ بھی بالکل یہ ہی تھا۔ استاد تیس فی صد‘ جب کہ شاگرد سو فی صد نقل پر یقین رکھتی تھی۔ خاتون انہیں شیشے میں نہ اتار سکی تھی‘ ہاں البتہ وہ اس کی مسکانوں سے‘ لطف اندوز ضرور ہوتے اور معمولی نوعیت کا ٹھرک بھی جھاڑ لیتے۔ شاید وہ اسی قابل تھے۔ چلو جو بھی سہی‘ اطراف میں باذوقی موجود تھی۔

سنا ہے لمبے آدمی کی عقل گٹوں میں اور عورت کی عقل‘ کھتی میں ہوتی ہے۔ وہ قد کی لمبی تھی‘ لیکن اس کے گٹوں میں عقل نہ تھی۔ کتھی میں رومال کی سی کسی چیز کی گرہ رکھتی تھی‘ لہذا وہاں عقل کے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے بڑا غور کیا‘ ہر بیس پچیس منٹ کے بعد گیس چھوڑتی کہ سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا۔ پشتی پہاڑ‘ قطعی نارمل تھے۔ بدزیبا نہ تھے۔ کتنا مغزماری کر لو‘ تھوڑی ہی دیر میں بات بھول جاتی۔ تب جا کر مجھے اندازا ہوا‘ کہ موصوفہ کی عقل روزن پشت میں ہے۔ جب عقل کا بوجھ محسوس کرتی یا محسوس ہوتا‘ فورا سے پہلے‘ ایک جھٹکے سے نکال باہر کرتی۔

خیر وہ تو ایک کم زور عورت ہے۔ مسکرا کر‘ عقل کے دشمنوں کی عقل پر پردے ڈال سکتی ہے۔ مجھے آج احساس ہوا‘ کہ میں بھی عقل سے پرے پرے ہوں۔ سودا لینے جاتا ہوں تو‘ انتہائی ماڑے کپڑے پہن کر جاتا ہوں تا کہ دوکان دار کو میری حالت زار پر ترس آ جائے اور وہ قیمت میں رعائت سے کام لے۔ آج کوئی چیز لینے‘ ذرا ہٹ کر چلا گیا۔ میں نے سودا لیا اور دوکان دار سے رعایت کرنے کی گزارش کی۔
اس نے جوابا کہا: میاں جی فکر نہ کریں‘ ہم بندہ کوبندہ دیکھ کر‘ قیمت طلب کرتے ہیں۔ آپ کے کہنے سے پہلے رعایت کر دی ہے‘ فکر نہ کریں۔ اس کے اس جملے سے یہ معلوم ہوا‘ کاروباری رویے بھی دو طرح کے ہیں اور کپڑے اس میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

کو
مڑے ہوئے کے لیے سابقہ استعمال کرتے ہیں۔ کوبندہ‘ مڑا ہوا بندہ‘ یعنی ٹیڑھا بندہ۔ میں نے گھر آ کر غور کیا‘ کہ میں ٹیڑھا شخص ہوں‘ تو اس میں کوئی شک نہ پایا۔ بالکل مرا ہوا نہیں ہوں‘ چند سکوں کی بچت کے لیے‘ بہروپ اختیار کرتا ہوں۔ یہ ٹیڑھاپن نہیں تو پھر اور کیا ہے۔

میں تو کچھ بھی نہیں ہوں‘ یہاں سب کچھ ٹیڑھا ہے‘ تب ہی تو ذلت و خواری ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ ہم ذلت برداشت کر سکتے ہیں‘ لیکن پیٹ سے سوچنا بند نہیں کر سکتے۔ مقتدرہ طبقے تو ایسا کرتے آئے بیں‘ صاحبان کتاب و قلم بھی‘ اسی راہ کے راہی چلے آ رہے ہیں۔ سچ اور حق‘ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ مذہبی طبقے اختلافی طبقوں کو‘ کافر قرار دینے پر کمر بستہ ہیں۔ مورکھ بادشاہوں کو‘ نبی قریب قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ہی حالت‘ شاہی شعرا کی رہی ہے۔ بادشاہوں اور ایسے شاعروں کے بارے منفی رائے دینے والے‘ غلط العقیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ گویا سچ کہنا ہی جرم چلا آتا ہے۔ اس سے بڑھ کر بھلا اور اندھیر کیا ہو سکتا ہے۔

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211306 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.