اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن،
وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِ وَعَلٰی آلِہِ
وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت واطاعت کا مکلف کرتے ہوئے، اس روئے زمین
پر اپنا خلیفہ مقرر کیا تاکہ انسان اﷲ تعالیٰ کی شریعت پر عمل کرے اور ایک
منصفانہ سماج کی تشکیل کے لئے کوشاں رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے یقینا
جسمانی ومالی دونوں طرح کی قربانی درکار ہوتی ہے جیساکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا
ہے: جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز
بھلائی نہیں پاؤگے۔ (سورۃ آل عمران ۹۲) اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے بندوں
کی مدد کرنا یعنی اﷲ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے راستے
میں خرچ کرنے کے چند فضائل تحریر ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: جو لوگ
اپنا مال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس
میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اﷲ تعالیٰ جس کو
چاہے بڑھا چڑھا کردے اور اﷲ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ (سورۃ
البقرہ ۲۶۱) ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اﷲ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں
دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر
ہو، اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لاوے اور اگر اس پر
بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اﷲ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
(سورۃ البقرہ ۲۶۵) جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اﷲ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ
کریں گے، اتنا ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔ ایک
روپئے بھی اگر اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کسی محتاج کو دیا جائے گا، تو
اﷲ تعالیٰ ۷۰۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔
اﷲ تعالیٰ کی راہ میں پسندیدہ چیزیں خرچ کریں: اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے:جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز
بھلائی نہیں پاؤگے۔ (سورۃ آل عمران ۹۲) اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی
میں سے خرچ کرو۔ (سورۃ البقرۃ ۲۶۷) جب ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی
تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ ؓ حضور
اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ! اﷲ تعالیٰ نے محبوب
چیز کے خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، اور مجھے ساری چیزوں میں اپنا باغ
(بَیرحَاء )سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اس کو اﷲ کے لئے صدقہ کرتا ہوں اور
اس کے اجروثواب کی اﷲ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں۔ حضور اکرمﷺنے فرمایا : اے
طلحہ ؓ! تم نے بہت ہی نفع کا سودا کیا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابو
طلحہ ؓ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرا باغ جو اتنی بڑی مالیت کا ہے وہ صدقہ
ہے اور اگر میں اس کی طاقت رکھتا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو تو ایسا ہی
کرتا، مگر یہ ایسی چیز نہیں ہے جو مخفی رہ سکے۔ ( تفسیر ابن کثیر)اس آیت کے
نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ بھی رسول اﷲﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور
کہا کہ مجھے اپنے تمام مال میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ مال خیبر کی زمین کا
حصہ ہے، میں اسے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺنے فرمایا : اسے
وقف کردو۔ اصل روک لو، اور پھل وغیرہ اﷲ کی راہ میں دے دو۔ (بخاری ، مسلم)
حضرت محمد بن منکدر ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت زید بن
حارثہ ؓ کے پاس ایک گھوڑا تھا جو ان کو اپنی ساری چیزوں میں سب سے زیادہ
محبوب تھا۔ (اس زمانہ میں گھوڑے کی حیثیت تقریباً وہی تھی جو اس زمانہ میں
گاڑی کی ہے) وہ اس کو لے کر حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا
کہ یہ صدقہ ہے، حضور اکرمﷺ نے قبول فرمالیا اور لے کر ان کے صاحبزادہ حضرت
اسامہ رضی اﷲ عنہ کو دیدیا۔ حضرت زید ؓ کے چہرہ پر کچھ گرانی کے آثار ظاہر
ہوئے (کہ گھر میں ہی رہا ، باپ کے بجائے بیٹے کا ہوگیا) حضور اکرمﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا، اب میں چاہے اس کو
تمہارے بیٹے کو دوں یا کسی اور رشتہ دار کو یا اجنبی کو۔ غرضیکہ اس آیت کے
نازل ہونے کے بعدصحابہ کرام کی ایک جماعت نے اپنی اپنی محبوب چیزیں اﷲ
تعالیٰ کے راستے میں دیں، جن کو نبی اکرم ﷺنے ضرورت مند لوگوں کے درمیان
تقسیم کیں۔
صحابہ کرام کی تربیت خود حضور اکرم ﷺنے فرمائی تھی، اور ان کا ایمان اور
توکل کامل تھا، لہذا ان کے لئے اپنی پسندیدہ چیزوں کا اﷲ تعالیٰ کے راستے
میں خرچ کرنا بہت آسان تھا، جیسا کہ صحابہ کرام کے واقعات تاریخی کتابوں
میں محفوظ ہیں۔ جنگ خیبر کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا اپنا سارا سامان
اﷲ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا، حضرت عثمان غنی ؓ کا ہر ضرورت کے وقت
اپنے مال کے وافر حصہ کو اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرنا،
وغیرہ وغیرہ ۔ آج ہم ایمان وعمل کے اعتبار سے کمزور ہیں اور اگر ہم ﴿لَنْ
تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾کا مصداق بظاہر
نہیں بن سکتے ہیں تو کم از کم ﴿ےَا اَےُّہَا الَّذِےْنَ آمَنُوا اَنْفِقُوا
مِنْ طَےِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ﴾ پر عمل کرکے اپنی روزی صرف حلال طریقہ سے
حاصل کرنے پر اکتفاء کریں اور اسی حلال رزق میں سے اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے
لئے ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔
اعلانیہ بھی صدقات دئے جا سکتے ہیں:صدقات میں اصل پوشیدگی مطلوب ہے یعنی
چپکے سے کسی محتاج کی مدد کرنا، جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تین
شخصوں سے اﷲ تعالیٰ بہت محبت کرتا ہے۔ ان میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جو کسی
شخص کی اس طرح مدد کرے کہ اﷲ تعالیٰ اور سائل کے علاوہ کسی کو خبر تک نہ
ہو۔ (ترمذی ، نسائی) نیز رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سات لوگ اﷲ
کے عرش کے سائے میں ہوں گے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اس طرح صدقہ کرے کہ
اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ (بخاری،
مسلم) اس کے باوجود کہ انفاق فی سبیل اﷲ میں شریعت اسلامیہ نے چھپ کر دینے
کی خصوصی تعلیمات دی ہیں، لیکن بعض مواقع پر اعلانیہ خرچ کرنے میں بھی
مصلحت ہوتی ہے، جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے، جن میں
سے بعض آیات یہ ہیں:جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپ کر اور اعلانیہ خرچ
کرتے ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔ اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ
غمگینی۔ (سورۃ البقرۃ۴ ۲۷)جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپ کر اور
اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔۔ ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔ (سورۃ الرعد ۲۲)جو
کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے
ہیں۔وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہیں ہوگی۔(سورۃ
الفاطر ۲۹)
ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہم اعلانیہ بھی اﷲ تعالیٰ کے بندوں کی مدد
کرسکتے ہیں، جبکہ دیگر آیات واحادیث میں چھپ کر اﷲ کے راستے میں خرچ کرنے
کی ترغیب ملتی ہے۔ علماء کرام نے ان آیات واحادیث کے ظاہری اختلاف کے
درمیان کچھ اس طرح تطبیق کی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی اعلانیہ ہونی چاہئے،
تاکہ اس سے دوسروں کو بھی رغبت ملے ، اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے متعلق دوسروں
کے شک وشبہات بھی دور ہوجائیں۔ لیکن صدقات کی عموماً ادائیگی چھپ کر ہی
ہونی چاہئے۔ مگر اس حکمت بالغہ کے باوجود نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام کے
زمانہ میں بے شمار مرتبہ زکوٰۃ کے علاوہ دیگر صدقات بھی اعلانیہ جمع کئے
گئے ہیں۔ نیز اعلانیہ خرچ کرنے سے بچنے کی اصل حکمت یہ ہے کہ ریا اور شہرت
مطلوب نہ ہوجائے، کیونکہ ریا،شہرت اور دکھاوا اعمال کی بربادی کے اسباب میں
سے ہیں۔ لہذا خالص اﷲ تعالیٰ کی رضا کے واسطے غریب، محتاج، یتیم اور بیواؤں
کی مدد کے لئے اگر کسی پروگرام میں اعلانیہ اﷲ کے راستہ میں دیا جائے، تو
ان شاء اﷲ یہ دکھاوے میں نہیں آئے گا کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کام
بھی کھلم کھلا کیا جائے وہ ریا ہی ہو، بلکہ دوسروں کو ترغیب دینے کے لئے
بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے پروگرام منعقد ہونے چاہئیں ،جیساکہ نبی اکرمﷺ
اور صحابہ کرام کے زمانہ میں جنگوں کے موقعوں پر اعلانیہ صدقات جمع کئے
جاتے تھے۔ اگر صدقات اﷲ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا اصل مطلوب
ومقصود ہو توکسی مصلحت سے اس کا اعلان بھی کیا جائے تو وہ ان شاء اﷲ ریا
میں داخل نہیں ہوگا ۔
تنگ دستی اور حاجت کے وقت میں بھی اللّہ کی راہ میں خرچ کریں:صدقات کے لئے
ضروری نہیں ہے کہ ہم بڑی رقم ہی خرچ کریں یا اسی وقت لوگوں کی مدد کریں جب
ہمارے پاس دنیاوی مسائل بالکل ہی نہ ہوں بلکہ تنگ دستی کے ایام میں بھی حسب
استطاعت لوگوں کی مدد کرنے میں ہمیں کوشاں رہنا چاہئے، جیساکہ اﷲ تعالیٰ
فرماتا ہے:جو محض خوشحالی میں ہی نہیں بلکہ تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ
کرتے ہیں۔ ان کے رب کی طرف سے اس کے بدلہ میں گناہوں کی معافی ہے اور ایسی
جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ (سورۃ آل عمران۱۳۴)جو مال سے محبت
کرنے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے
کو دے۔ (سورۃ البقرہ ۱۷۷)مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ مال کی محبت سے مراد
مال کی ضرورت ہے۔ یعنی ہمیں مال کی ضرورت ہے، اس کے باوجود ہم دوسروں کی
مدد کے لئے کوشاں ہیں ۔نبی اکرمﷺ سے سب سے بہتر صدقہ کے متعلق سوال کیا
گیا۔ آپﷺ نے فرمایا : اس حال میں بھی خرچ کرو کہ تم صحیح سالم ہو اور زندگی
کی توقع بھی ہو، اپنے غریب ہوجانے کا ڈر اور اپنے مالدار ہونے کی تمنا بھی
ہو۔ یعنی تم اپنی ضرورتوں کے ساتھ دوسروں کی ضرورتوں کوپورا کرنے کی فکریں
کرو۔ (بخاری، مسلم)
انفاق فی سبیل اللّٰہ کو ضائع کرنے والے اسباب:اﷲ تعالیٰ کی رضا کا حصول
مطلوب نہ ہو۔ ریا یعنی شہرت مطلوب ہو۔احسان جتانا مقصود ہو۔ صدقہ دے کر
لینے والے کو طعنہ وغیرہ دے کر تکلیف پہونچائی جائے۔ لہذا صرف اور صرف اﷲ
تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کسی کی مدد کی جائے جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن
کریم میں ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتاکر اور ایذا
پہنچاکر برباد نہ کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے
خرچ کرے۔ (سورۃ البقرۃ۴ ۲۶)جو لوگ اپنا مال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے
ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان
کے رب کے پاس ہے، ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے۔ (سورۃ
البقرۃ۲۶۲)ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اﷲ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں
دل کی خوشی سے خرچ کرتے ہیں۔(سورۃ البقرہ ۲۶۵)
اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے: رسول اﷲﷺ
نے ارشاد فرمایا: صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ہے۔ (مسلم) کسی کی
مدد کرنے سے بظاہر مال میں کمی تو واقع ہوتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے مال
میں کمی نہیں ہوتی ہے ،بلکہ آخرت میں بدلہ کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ اس کا
بدلہ دنیا میں بھی عطا فرماتا ہے، جیسا کہ قرآن کی آیات اور نبی اکرمﷺ کے
ارشادات میں تفصیل سے مذکور ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے فضائل:رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر
میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے
اوپر تین دن گزر جائیں اس حال میں کہ میرے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی رہے،
سوائے اس کے کہ کوئی چیز قرض کی ادائیگی کے لئے رکھ لی جائے۔ (بخاری، مسلم)
رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: روزانہ صبح کے وقت ۲ فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔
ایک دعا کرتا ہے: اے اﷲ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما۔ دسرا دعا کرتا ہے:
اے اﷲ! مال کو روک کر رکھنے والے کے مال کو برباد کر۔ (بخاری، مسلم) رسول
اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس
طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ (بخاری)رسول اﷲﷺ نے
ارشاد فرمایا: مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے راستے
میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ ( بخاری،مسلم) رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: جو
شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو جنت کے
سبز لباس پہنائے گا۔ جوشخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا،
اﷲ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت
میں پانی پلائے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر
لگی ہوئی ہوگی۔ ( ابوداود، ترمذی)رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا: تمہیں اپنے
کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔
(بخاری)رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تمہارا خادم تمہارے لئے کھانا بناکر
لائے تو اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاؤ یا اس کھانے میں سے کچھ دیدو، اس لئے
کہ آگ کی تپش اور دھوئیں کی تکلیف تو اس نے برداشت کی ہے۔ (ابن ماجہ)حضرت
عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ کچھ مانگنے کے لئے
میرے پاس آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا،جو میں نے اس
عورت کو دے دی، اس عورت نے وہ کھجور دونوں بیٹیوں کو تقسیم کردی اور خود
نہیں کھائی۔ نبی اکرمﷺ کے تشریف لانے پر میں نے اس واقعہ کا ذکر فرمایا، تو
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کا بیٹیوں کی وجہ سے امتحان لیا جائے اور وہ
ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لئے جہنم کی آگ سے آڑ بنیں
گی۔ (بخاری،مسلم)معلوم ہوا کہ تمام نبیوں کے سردار حضور اکرمﷺ خواہش ہے کہ
ہم اپنے مال ودولت کی ایک مقدار محتاج، غریب، مساکین اور یتیم وبیواؤں پر
خرچ کریں۔
اﷲ تعالیٰ نے مال ودولت کو انسان کی ایسی دنیاوی ضرورت بنائی ہے کہ عموماً
اس کے بغیر انسان کی زندگی دوبھر رہتی ہے۔ مال ودولت کے حصول کے لئے اﷲ
تعالیٰ نے انسان کو جائز کوششیں کرنے کا مکلف تو بنایا ہے مگرانسان کی جد
وجہد اور دوڑ دھوپ کے باوجود اس کی عطا اﷲ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھی
ہے، چاہے تو وہ کسی کے رزق میں کشادگی کردے اور چاہے تو کسی کے رزق میں
تمام دنیاوی اسباب کے باوجود تنگی پیدا کردے۔ مال ودولت کے حصول کے لئے
انسان کو خالق کائنات نے یوں ہی آزاد نہیں چھوڑ دیا کہ جیسے چاہو کماؤ ،
کھاؤ۔ بلکہ اس کے اصول وضوابط بنائے تاکہ اس دنیاوی زندگی کا نظام بھی صحیح
چل سکے اور اس کے مطابق آخرت میں جزا وسزا کا فیصلہ ہوسکے۔ انہیں اصول
وضوابط کو شریعت کہا جاتا ہے جس میں انسان کو یہ رہنمائی بھی دی جاتی ہے کہ
مال کس طرح کمایا جائے اور کہاں کہاں خرچ کیا جائے۔ اپنے اور بال وبچوں کے
اخراجات کے بعد شرائط پائے جانے پر مال ودولت میں زکوٰۃ کی ادائیگی فرض کی
گئی ہے۔ اسلام نے زکوٰۃ کے علاوہ بھی مختلف شکلوں سے محتاج لوگوں کی
ضرورتوں کو پورا کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں اس
میں ایک دوسرے کے رنج وغم میں شریک ہو سکیں۔ انہیں شکلوں میں سے ایک شکل
قرض حسن بھی ہے کہ ہم غریبوں اور محتاجوں کی مدد کریں، یتیموں اور بیواؤں
کی کفالت کریں، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کریں اور آپس میں ایک دوسرے کو
ضرورت کے وقت قرض دیں، تاکہ اﷲ تعالیٰ دنیا میں بھی ہمارے مال میں اضافہ
کرے اور آخرت میں بھی اس کا اجر وثواب دے۔
اس فانی دنیاوی زندگی کا اصل مطلوب ومقصود اخروی زندگی میں کامیابی حاصل
کرنا ہے، جہاں ہمیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے، موت کو بھی وہاں موت آجائے گی ،
اور جہاں کی کامیابی ہمیشہ کی کامیابی وکامرانی ہے۔ لہذا ہم :اﷲ تعالیٰ کے
احکام نبی اکرمﷺکے طریقہ پر بجا لائیں۔ صرف حلال رزق پر اکتفاء کریں، خواہ
بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔ حتی الامکان مشتبہ چیزوں سے بچیں۔ زکوٰۃ کے واجب
ہونے کی صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کریں۔ اپنے اور بال وبچوں کے اخراجات کے
ساتھ وقتاً فوقتاً مختلف صدقات کے ذریعہ محتاج لوگوں کی ضرورتوں کو پورا
کرنے کی کوشش کریں۔ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ کل قیامت کے دن ہمارے
قدم ہمارے پروردگار کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتے جب تک کہ ہم مال کے متعلق
سوالات کا جواب نہ دے دیں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ |