اسلام اور مستشرقین
(Hafiz Irfan Ullah Warsi, Bahawalpur.)
تعریف:
اس کی مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے الگ الگ تعریف بیان کی ہے، اس میں سے کچھ اہم یہ ہیں۔
غیر مشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں، تہذیب، فلسفے، ادب اور مذہب کے مطالعہ میں مشغول ہونے کا نام استشراق ہے۔
|
|
استشراق اور مستشرقین کا پس منظر:
استشراق اور مستشرقین ایک ایسا علمی موضوع ہےجس کے بارے میں کسی بھی مصنف
یا رائٹر نے کوئی ایسا علمی کارنامہ سرانجام نہیں دیا جو استشراق کی تاریخ
، اس کے اغراض ومقاصد اور اس کی اچھائیوں کیا برائیوں کا پتہ دے سکےاور نہ
ہی اب تک مستشرقین کی جماعت اور انکی سرگرمیاں ،اور انکی کتابی وتحقیقاتی
خامیوں پر بہت زیادہ علمی اور معلوماتی روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس سے بآسانی
ان کی حقیقت کا علم ہو سکے۔
ہاں اگر کوئی کتاب ان کے موضوع پر آئی بھی ہے تو اس میں یا تو ان کی تعریف
کی ترجمان بن کر منظر عام پر آئی ہے یا پھر ان کے سماجی اغراض ومقاصد کی
ترجمان نظر آتی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں ازہر یونیورسٹی کے اسلامک کلچر کے
جنرل ڈائرکٹرپروفیسرڈاکٹرمحمدالبھی کا وہ عظیم الشان اور قیمتی لکچر بہت ہی
علمی اہمیت کا حامل ہےجو انہوں نے ازہر کے عام لکچر ہال میں پیش کیا۔
حق تو یہ ہے کہ بےجا تعریف میں گم ہو جانا اور بے جا مخالفت پر کمربستہ ہو
جانا اس طرح کا طرزِ عمل اس تاریخی حقائق کے منافی ہے جس کو مستشرقین نے
اپنے کارناموں میں قلم بند کیا جس سے نئی تحقیقات کے راستے کھولیں ہیں ۔
لیکن ہم تو ایسے دین کی ماننے والی قوم ہیں جو دشمن کے ساتھ بھی ہمیں عدل
وانصاف کا درس دیتا ہے۔ (۱)
تعریف:
اس کی مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے الگ الگ تعریف بیان کی ہے، اس میں سے
کچھ اہم یہ ہیں۔
غیر مشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں، تہذیب، فلسفے، ادب اور مذہب کے مطالعہ
میں مشغول ہونے کا نام استشراق ہے۔
تاریخ استشراق:
استشراق اگر صرف اسلام کے خلاف سرگرمیوں کی علامت مانا جاۓ تو اس قسم کی
سرگرمیاں پہلی صدی ہجری میں ہی شروع ہو گئی تھیں۔ تحریک استشراق کی اصطلاح
رائج ہونے سے کتنا عرصہ پہلے موجود تھی؟ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ!
تحریک استشراق کا آغاز1312ءمیں ہوا جبفینا میں کلیسا کی کانفرنس منعقد
ہوئی اور اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یورپ کی مختلف جامعات میں عربی زبان
کی تدریس کے لیے باقاعدہ شعبےقائم کیے جاہیں۔
بعض محقق کہتے ہیں کہ!
اس کی ابتداء تیرہویں صدی عیسوی میں جب قشتالہ کے بادشاہ الفونس دہم
نے1269ءمیں مریسیلی اں میں اعلی تعلیقات کا ادارہ قائم کیا، اس ادارے نے
ابوبکرالرقوطی کی سربراہی میں اعلی تعلیم یافتہ مسلمان،عیسائی اوریہودی
عالم مقرر کیے جنہوں نے قرآن،تلمود،اورانجیل کےہسپانوی زبان میں ترجمے کیے۔
کچھ علماء کا اس کے آغاز کو بارویں صدی عیسوی سے جوڑتے ہیں۔
جب1143ءمیں ایک شخص پطرس کے ایماء پر پہلی مرتبہ قرآن کالاطینی زبان میں
ترجمہ کیا گیا۔اسی صدی میں ایک پادری فیز ایل نے پہلی عربی لاطینی لغت تیار
کی۔
بعض کے نزدیک اس کا آغاز
دسویں صدی عیسوی میں ہوا جب فرانس کا ایک راہب جریردی اورلیاک حصول علم
کی خاطر اندلس گیا۔اشبیلیہ اورقرطبہ کی جامعات میں علم حاصل کیا اور یورپ
بھر میں عربی زبان و ادب کا سب سے بڑا عالم شمار ہوا بعد میں 999ءسے لے
کر1003ءتک سلفس تر ثانی کے لقب سے پاپاۓ روم کے منصب پر فائز رہا۔ جب کہ
اسی طرح نویں اور آٹھویں صدی کی بھی مثالیں موجود ہیں۔
حاصل کلام:
تحریک استشراق کا آغاز عملا" آٹھویں صدی عیسوی سے ہو چکا تھا۔ اگرچہ اس
تحریک کو یہ نام کئی صدیوں بعد ملا۔
مستشرقین کی قسمیں:
گزشتہ کئی صدیوں سے مختلف مستشرقین اسلام اور اس کی تعلیمات کے سلسلے میں
تحقیق وتصنیف میں مشغول ہیں ۔ ان کو نظریات و افکار اور فطرت کی بنیاد پر
درج ذیل قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱-سلیم الفطرت مستشرقین
۲- تحقیق و تصنیف کے شائق مستشرقین
۳- اسلام دشمن اور تعصب پرست مستشرقین
۴-مفاد پرست مستشرقین
۱-سلیم الفطرت مستشرقین:
بعض سلیم الفطرت مستشرقین ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو
فطرت کے قریب پایا اور اسے آسمانی ہدایت سمجھ کر اللہ تعالی کے سامنے
سرتسلیم خم کر گئے اور اسلام لے آئے۔پھر ان کی پوری زندگی اسلام کے مطابق
گزری اور انہوں نے مستشرقین کی جانب سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا منہ
توڑ جواب دیا۔جیسے شیخ عبداللہ ،رسل ویب ،ابوبکر سراج الدین،ناصر الدین
دینیہ رحمت اللہ الفاروق،علامہ محمد اسد،ڈاکٹر عمر رالف ایرنفلس، خالد
شیلڈرک،مریم جمیلہ وغیرہ۔
۲- تحقیق و تصنیف کے شائق مستشرقین:
مستشرقین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کا بنیادی مقصد صرف علمی میدان میں
تحقیق و تصنیف کرنا اوراس سے عوام الناس کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ایسے لوگوں
نے تیرہویں صدی کے بعد مشرق سے علم و ادب کے ذخیرے کو ترجمہ کر کے مغرب میں
پہنچایا۔ ان کو اسلام سے کوئی دشمنی اور عداوت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی علمی
پیاس بجھانے کے لیے مسلمانوں کے مختلف ممالک کے علمی مراکز میں جا کر قرآن
و حدیث ، فقہ ،تاریخ اور دیگر علمی کتابوں پر ریسرچ کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے
مردہ اقوام کی گم شدہ تاریخ کی چھان بین کی ۔آثارِ قدیمہ کی مدد سے ان کے
قدیم رسوم و رواج،زبان وادب کا بغور مطالعہ کیا اور نتائج اخذ کیے۔ اسلام و
عربی لٹریچر کے تحفظ کے لیے بڑی کوششیں کیں اور اپنی علمی تحقیق کے نتیجہ
میں سینکڑوں یادگار کتابیں مسلمانوں کو دی ۔ان کتابوں میں ’نجوم الفرقان فی
اطراف القرآن (1842)اورالمعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی(1936) اہم ہیں۔
۳- اسلام دشمن اور تعصب پرست مستشرقین:
مستشرقین کا یہ طبقہ ان متعصب یہودی اور عیسائی محققین پر مشتمل ہے، جن کا
بنیادی مقصد صرف اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ ان لوگوں نے اپنی
زندگی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے عقائد و نظریات کے فروغ کے لیے وقف
کر دی اور مشرق سے جو بھی مفید چیزیں اخذ کی گئی ہیں ان کو علمی دیانت کے
برخلاف ،ان کے ماخذ و مصادر کو پوشیدہ رکھ کر انہیں مغرب سے منسوب کردیا ۔
۴-مفاد پرست مستشرقین:
مستشرقین کی یہ وہ قسم ہے جن کے پیشِ نظر کوئی اعلیٰ علمی مقاصد نہیں ہوتا
،بلکہ وہ مادی مفادات، عہدوں، سستی شہرت اور دنیاوی مال و دولت کے لالچ میں
اس میدان میں قدم رکھتے ہیں اورچوں کہ اہلِ مغرب مسلمانوں کے خلاف کی گئی
تحقیق کو، چاہے وہ کتنی ہی غیر معیاری، بے بنیاد اور علمی و عقلی لحاظ سے
پست ہی کیوں نہ ہو، ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ اس وجہ سے ایسے لوگ ہمیشہ ان
چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ اہل مغرب سے اپنے مفادات
سمیٹ سکیں۔ اس طرح کے لوگوں میں ہندوستان کے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین
وغیرہ بھی شامل ہیں۔
علمی معیار کے اعتبار سے مستشرقین کی اقسام:
"مولانا شبلی نعمانی "نے مستشرقین کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے :
۱۔ عربی زبان و ادب ، تاریخ اسلام اور اس کے ماخذ سے ناواقف مستشرقین، جن
کی معلومات براہ راست نہیں ہوتیں، بلکہ وہ تراجم سے مدد لیتے ہیں اورقیاسات
و مفرضوں سے کام لیتے ہیں۔
۲- وہ مستشرقین جو عربی زبان وادب ،تاریخ،فلسفہ اسلام سے تو واقف ہوتے ہیں،
مگر مذہبی لٹریچر اور فنون مثلاً اسماءالرجال، روایت و درایت کے اصولوں،
قدیم ادب اور روایات سے واقف نہیں ہوتے۔
۳- و ہ مستشرقین جو اسلامی علوم اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کر چکے ہوتے
ہیں، لیکن اپنے مذہبی تعصبات کو دل سے نہیں نکال سکے۔ وہ اسلامی علوم کے
بارے میں تعصب، تنگ نظری اور کذب و افترا سے کام لیتے ہیں۔(۳)
چند اہم اہداف:
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے صحیح ہونے میں شکوک و شبہات
پیدا
کرنا، نیز یہ باور کرانا کہ احادیث نبویہ کو مسلمانوں نے قرون ثلاثہ میں
ایجاد
کیا ہے۔
٭ قرآن کریم کے صحیح ہونے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا، نیز قرآن کریم میں
طعن و تشنیع کرنا۔
٭ اسلامی فقہ کی وقعت کو کم کرنا اور اسے رومن فقہ باور کرانا۔
٭ مسلمانوں میں اجتماعیت کی فضا کو ختم کر کے ان میں فرقے پیدا کرتے ہوئے
ان پر غلبہ حاصل کرنا۔
٭ اسلام کی اصل یہودیت اور نصرانیت کو قرار دینا۔
٭ مسلمانوں کو دین اسلام سے بدظن کرنا یا عیسائی بنانا۔
٭ اپنے افکار و نظریات کی تقویت کے لیے موضوع احادیث کا سہارا لینا۔(۴)
سیاسی اہداف و مقاصد
1. مستشرقین اور اسلام
2. مستشرقین اور قرآن
3. مستشرقین اور سیرت نبوی
4. مستشرقین اور حدیث(۵)
مصادر ومراجع
۱۔ استشراق اور مستشرقین کا تاریخی وتنقیدی مطالعہ،ڈاکٹر محمد ابراہیم
،صفحہ نمبر۲۳،
۲۔ https://www.quickiwiki.com/ur/
۳۔ شبلی نعمانی،سیرة النبی:1/65
۴۔ ثناءاللہ حسین،قرآن حکیم اور مستشرقین، صفحہ 48
۵۔ الاستشراق وجۃ للا ستعمارالفکر ی، ص 92 |
|