عیدی کا جوتا

اساتذہ کےایک اہم اجلاس میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کیلئے عیدی کے انتخاب پر غوروخوض ہورہا تھا ۔بچوں کیلئے مختلف قسم کی ٹوپیوں پر تبادلہ خیال جاری تھااردو کی استانی دوپلیّ ٹوپی کے حق میں دلائل دے رہی تھیں توجغرافیہ کے ٹیچر جناح کیپ کی تعریف میں پل باندھ رہے تھے۔تاریخ کی استانی کو ترکی ٹوپی میں خلافت عثمانیہ کی شان نظر آتی تھی تو ہندی کے استاد گاندھی ٹوپی کے ذریعہ قومی یکجہتی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ انگریزی کے استادشکاری ہیٹ کے حق میں دلائل دے رہے تھےتو ریاضی کی استانی جالی دار گول ٹوپی کی جیومیٹری سمجھارہی تھیں۔جب جلاد نما سائنس پڑھانے والےصدر مدرس کے صبر کا پیمانہ لبریزہو گیا توانہوں نے قلندرانہ بے نیازی سے اعلان کردیا میں تو کہتا ہوں ٹوپی کے بجائےجوتا دیا جائے؟اچانک اس عجیب و غریب تجویزکےواردہوتے ہی پہلےتو سناٹا چھا گیااس لئے کہ کسی شریک مجلس میں اسے مسترد کرنےکی جرأتنہیں تھی ۔

صدر مدرس نے خاموشی کا پردہ چاک کرتے ہوئے پوچھا کیا افادیت کے لحاظ سے جوتے کو ٹوپی پر فوقیت حاصل نہیں ہے ؟ اس پر جغرافیہ کے استاد نے تائید میں کہا بالکل اس میں کیا شک ہے؟ ویسے بھی اس نئی نسل سر آسمان میں رہتا ہے اس لئے ٹوپی کے بغیر بھی گذارہ ہوجاتا ہے لیکن پیر ہمیشہ زمین پر رہتے ہیں اس لئے جوتوں کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔انگریزی کے استاد نے فوراً اپنی حمایت پیش کردی اور بولے جی ہاں اسی لئے ٹوپی کے بجائے جوتا اسکول کے یونیفارم میں شامل کیا گیا ہے۔ ریاضی کی استانی نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ سر سچ تو یہ ہے کہ کپڑوں کے پھٹنے سے پہلے جوتے گھس جاتے ہیں۔ اردو کی استانی بولیں یہ تو فطری بات ہے ایک کے اوپر ہوا اوردھوپ ہوتی ہے اور دوسرے کے سر پر خود اس کا مالک سوار رہتا ہے ۔اس سے قبل کے ہندی اور انگریزی کے استادکوئی اوٹ پٹانگ منطق پیش کرتے صدر مدرس نے بگڑ کر کہا اب بس۔ اتفاق رائے سے فیصلہ ہوگیا ہر جماعت کے سب سے ذہین طالب علم کوعیدی سے نوازہ جائیگا اور اس کا تعین کلاس ٹیچر اپنے صوابدید سے کرے گا یا کرے گی ۔

نویں جماعت کی کلاس ٹیچر زیب النساء اردو پڑھاتی تھیں اس لئے انہوں نے ذہین ترین طالب علم کا پتہ لگانے کیلئے ایک نہایت نادر طریقہ ایجاد کیا۔ اپنی کلاس میں آکر انہوں نے بچوں سے سوال کیاہاں تو بچو ّ یہ بتاو تو تم لوگوں میں سے کس کس نے عید کا جوتا خرید لیا ہے ۔

سلیم کاچچا زاد بھائی شمیم جواس کا ہم جماعت بھی تھا فوراً کھڑا ہوگیا اوربولا میڈم ابھی سے کہاں ۔ ہم لوگ تو جوتا ، ٹوپی اور بنیان وغیرہ چاند رات کو ہی خریدتے ہیں ۔ ابھی توبڑی رات بھی نہیں آئی۔
استانی نے کہا کیوں چاندرات کو سستا ملتا ہے کیا؟
سلیم بولا ممکن ہے آخری رات سڑک کے دوکاندار اونے پونے اپنا مال بیچ دیتے ہوں کون جانے ؟
زیب النساء مسکرا کر بولی لیکن جب سارے گاہک اسی رات کو آتے ہوں تو وہ ایسا کیو ں کریں؟
وہ تو ٹھیک ہے میڈم لیکن آج آپ یہ سوال کیوں کررہی ہوں ؟ شمیم بولا ۔
یہ ایک معمہ ہے جو چاندرات کے دن کھلنے والا ہے؟
چاند رات نہیں نہیں میڈم سلیم بولا ہم لوگ روزے کے باوجود اتنا طویل صبر نہیں کرسکتےاب آپ نے سوال کرہی دیا ہے تو جواب بھی دینا پڑےگا۔
زیب النساء نےکہا اچھا چلو بتائے دیتی ہوں ۔ اس سال ہر جماعت کے ذہین ترین طالبعلم کوعیدی کے طور پرجوتی انعام میں ملے گی ۔
سار طلباء خوشی سے جھوم اٹھے حالانکہ عیدی تو ان میں سے صرف ایک کو ملنے والی تھی ۔
زیب النساء جانتی تھی کہ اس کلاس میں انعام کے حقدار سلیم یا شمیم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے لیکن فیصلہ نہیں کرپارہی تھیں کہ جوتے کسے دئیے جائیں۔اس کے بس میں ہوتا تو ایک ایک دونوں میں تقسیم کردیتیں لیکن یہ بھی مناسب نہیں تھا ۔ وہ بولیں ہاں تو بچوتمہارے درمیان ذہانت کا مقابلہ ہوگا اور اس میں جو بھی کامیاب ہوگا اسے اسکول کی جانب سے نائی کا جوتا انعام میں ملے گا ۔
شمیم بولا ایسی بات ہے تب تو اس سال میرے والدین کو جوتے خریدنے کی زحمت سے بچ جائیں گے ۔
استانی نے کہاجلدبازی نہ کرو۔ ہاں تو سلیم تم اپنی کتاب کی آخری نظم کا پہلا شعر پڑھو اور خود موبائیل کے پیغامات میں کھوہوگئیں ۔ سلیم نے خوش ہوکر بلند آواز میں پڑھا۔
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
سلیم جیسے ہی میں شعرخوانی کرکے بیٹھا توشمیم پنجوں کے بل کھڑا ہوگیا اورسوال کردیا میڈم یہ ڈاسن کون ہے؟
اس بے ہنگم سوال کو سن کر استانی چکرا گئیں ؟ فوراً اپنا موبائیل بند کیا اور پوچھا کون ؟ کون ڈائن ؟ میں کسی ڈائن کو نہیں جانتی ۔
سلیم نے کہا میڈم یہ ڈائن کے بارے میں نہیں ڈاسن کے بارے میں پوچھ رہا ہے ۔
ڈاسن ؟ یہ ڈاسن کہاں سے آئیگی ؟
شمیم نے جواب دیا میڈم وہ پھٹا پوسٹر نکلا ہیرو کی مانند ہماری درسی کتاب سے نکل کر باہر آگئی۔
کتاب میں سے ڈائن میں نہیں سمجھی؟
سلیم بولا یہ غلط بولتا ہے۔ وہ دراصل اسشعرمیں سے نکلی ہے جسےآپ نےپڑھنے کاحکم دیاتھا ؟
اب استانی سمجھ میں آیا کہ ماجرا کیا ہے؟ وہ بولیں تمہیں اس سے کیا مطلب ؟ ہوگی کوئی ڈائن، تمہاری رشتے دار لگتی ہے کیا؟
شمیم ہنس کر بولا اگر میری رشتے دار ہوتی تو میں آپ سے پوچھنے کے بجائے ازخود بتاتا ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس کا تعلق آپ کے خاندان سے ہے۔
استانی بولی ہائے اللہ میرے خاندان سے کیوں کر ہوسکتا ہے ؟ یہ شعر جس کا ہے اسی خاندان میں کوئی رہی ہوگی۔میں اسے نہیں جانتی۔
سلیم نے کہا کوئی بات نہیں چونکہ اس کا جاننا بہت ضروری ہے اس لئے آپ ایسا کریں ہمیں ان سے پوچھ کربتادیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مودی جی کے ہاتھوں چائے پینے والے گاہکوں یا ان کے ساتھ کالج میں پڑھنے والے طلباء کی طرح نایاب نہیں ہوں گے ۔
استانی نے ڈانٹا بدتمیز وزیراعظم کی توہین کرتا ہے اور مجھے جان سے مارنا چاہتا ہے ؟
سلیم نے معصومیت سے پوچھا میڈم مریں آپ کے دشمن ۔ میں بھلا یہ جرأت کیسے کرسکتا ہوں ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ آپ جییں ہزاروں سال ۔
اس پر کلاس کے سارے طلباءایک زبان ہوکر بولے ’’سال کے دن ہوں پچاس ہزار‘‘۔
یہ دیکھ کراستانی جھینپ کر بولیںتم سب بہت فلمی ہوگئے ہو ۔ اگر میں اکبر الہ بادی کے پاس پوچھنے کیلئے چلی گئی آئی تو واپس نہ آسکوں گی؟
میڈم! شمیم نے سوال کیا آپ کو الہ ٰباد سے ایسی انسیت کیوں ہے؟
استانی بولیں فی الحال اکبر الہ بادی وہاں نہیں رہتے۔
اچھا تو کہا ں رہتے ہیں ؟یہ سلیم کاسوال تھا ۔
استانی نے کہا عدم آباد میں ۔
عدم آباد ؟؟؟ یہ کہاں ہے اس کا نام تو ہم نے نہیں سنا؟ شمیم نے سوال کیا
استانی ہنس کر بولی بیٹے ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے اور تم نے سناہی کیا ہے ؟ ایسا کرو میرے جانے کے بعد جب جغرافیہ کی کلاس لگے تو عالم گیر سر سے پوچھ لینا ۔ وہ گوگل میپ میں دیکھ کر اس کا محل و وقوع بتا دیں گے ۔
ارے چھوڑئیے میڈم ہم نے ان سے مودی جی کی چائے کی دوکان کا محل و وقوع ایک ہفتہ قبل پوچھا تھا ابھی تک نہیں بتا سکے تو وہ اکبر عدم آبادی میرا مطلب ہے الہٰ بادی کے عدم آباد کا ٹھور ٹھانہ کیا بتا سکیں گے ۔ شمیم کے اس تبصرے کے ساتھ ہی کلاس کی گھنٹی بج گئی ۔ استانی کے چہرے پر یک گونہ سکون چھاگیا اور وہ اگلے دن ڈاسن کے بارے میں بتانے کا وعدہ کرکے رفو چکر ہوگئیں ۔
اگلے دن اردو کی کلاس میں زیب النساء نہیں آئیں بلکہ ان کی جگہ بڑے میاں یعنی اسکول کے سب سے بزرگ استاد مخفف جاہ لاٹھی کوٹیکتے تشریف لے آئے ۔ بچے ان سے جس قدر محبت کرتے تھے ان کی لاٹھی سے اسی قدر خوف کھاتے تھے اس لئے کہ وہ بھی مودی جی کی مانند کبھی بھی کہیں بھی چل پڑتی تھی اور مودی جی کی ڈگری کی مانند نت نئےانمٹ نشان چھوڑ جاتی تھی۔ کبھی نام غلط ہوجاتا تو کبھی ٹائپنگ یا فونٹ میں اختلاف ہوجاتا۔ کرسی پر بیٹھ کر بڑے میاں بولےتمہاری میڈم آج نہ جانے کہاں چلی گئیں اس لئے مجھے آناپڑا۔ اب میں کیا پڑھاوں؟ اگر کوئی سوال ہو توپوچھو حاضر ہوں ۔
شمیم بولا سر یہ بتائیے کہ عدم آباد کہاں ہے؟
بڑے میاں بگڑ کر بولے بدتمیز میری عمر کا مذاق اڑاتا ہے تجھے شرم نہیں آتی؟
اس سے پہلے کہ ان چھڑی حرکت میں آتی سلیم بیچ میں بول پڑا سر بات دراصل یہ ہے کہ اسے پتہ ہے میڈم کیوں نہیں آئیں اسی لئے پوچھ رہا ہے؟ بڑے میاں چکرا گئے ۔ یہ عدم آباد کا میڈم کے نہیں آنے سے کیا تعلق ؟ وہ بولے اسے کیسے پتہ کہ وہ کیوں نہیں آئیں ؟
شمیم سنبھل چکا تھا وہ بولا ۔جی ہاں بڑے میاں مجھے پتہ ہے ۔ وہ دراصل عدم آباد گئی ہوئی ہیں اسی لئے آج نہیں آسکیں۔
عدم آباد! پھر عدم آباد ؟ وہ اتنی جلدی عدم آباد کیسے چلی گئیں ؟
شمیم بولا کیوں عدم آباد کیا ان کا میکہ ہے اور اگر ہے بھی تو آپ اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں؟
میں ! میں اس کا خسر ہوں ۔ میں نہیں تو کون اعتراض کرے گا؟ اگر وہ واقعی عدم آباد چلی گئی تومجھے اپنے لئے ایک نئی بہو تلاش کرنی ہوگی اور آج کے زمانے زیب النساء جیسی اطاعت گذار فرمانبردار بہو کہاں ملے گی؟
شمیم نے سوال کیا نئی بہو میں نہیں سمجھا ؟
اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے؟ نئی بہو یعنی نئی بہو؟
لیکن ہم نے تو سنا ہے۰۰۰۰۰۰۰؟ سلیم کچھ بولتے بولتے رک گیا۔
بڑے میاں بولے جی ہاں تم نے درست سنا ہے ۔ میری کوئی حقیقی اولاد نہیں ہے لیکن مرغوب میاں کو میں نے پڑھایا تھا ۔ وہ چونکہ یتیم تھا اس لئے مجھے اپنا باپ مانتا تھا ۔ اس کے بعد میں نے ہی اس کی شادی کروائی اور اس کی بیوی کو اپنی اسکول میں ٹیچر بنوا دیا ۔ میری بہو زیب النساءبھی سونیا گاندھی کی مانند نہایت سعادتمند نکلی اور روز میرے لئے دو وقت کا کھانا بنا کر لانے لگی ۔ اب اگر وہ عدم آباد چلی گئی تو میں اس عمر میں بے موت مرجاوں گا۔
شمیم بولا جناب دل چھوٹا نہیں کیجئے ۔ دوچار دن ہم لوگ آپ کیلئے کھانا بنوا کر لے آئیں گے ۔ تب تک وہ آجائیں گی اور آپ کاکام بن جائیگا۔
نہیں بیٹا نہیں۔ عدم آباد جانے والےلوٹ کر تھوڑی نا آتےہیں؟
سلیم روہانسہ ہوکر بولا کیوں عدم آباد بہت دور ہے کیا جو وہاں جاکر آتے آتے عمر بیت جاتی ہے ؟
نہیں بیٹا ویسے تو عدم آباد بے حد قریب ہے۔ وہاں آنے جانے میں وقت نہیں لگتا بلکہ انسان پلک جھپکتے پہنچ جاتا ہےمگر ایک بارجو گیا تو واپس نہیں آیا۔ میں بولا اوہو تب تو وہ نہایت عمدہ مقام ہوگا ۔ اسی لئے اکبر الہ ٰبادی بھی اپنا وطن عزیز چھوڑ کر وہاں چلے گئے ۔
بڑے میاں نے کہا بیٹے وہ کیسا مقام ہے یہ تو کوئی نہیں جانتا اسلئے کہ وہاں کا حال احوال بتانے کیلئے کوئی فرد لوٹاہی نہیں ۔ جہاں تک اکبر الہ ٰبادی کا سوال ہے وہ تو مجبوراً اپنی طبعی عمر پوری کرکے وہاں چلے گئے لیکن تمہاری زیب النساء کو کیا سوجھی کہ بے وقت نکل گئیں۔
شمیم بولا بڑے میاں اس میں کیا پریشانی ہے اگرایک نہیں تو دوسری بہو،سونیا نہیں تو مینکا سہی۔ مسئلہ کیا ہے ۔
بڑے میاں اپنی چھڑی کو ہوا میں لہرا کر بولے چپ بے وقوف کیا ضروری ہے کہ مرغوب میاں پھر سے اپنی غلطی کو دوہرانے کیلئے تیار ہوجائیں ؟
سلیم بولا کیوں نہیں ہوں گے ۔ ان کو بھی تو اپنی خدمت کیلئے زوجہ کی ضرورت ہے ۔
جی ہاں سو تو ہے لیکن پھر کیا ضروری ہے اس کی دوسری بیوی کو پڑھانے میں دلچسپی ہو؟
کیوں نہ ہوگی آج کل ہر کسی کو پیسے کی ضرورت ہے اور یہ کام بھی کون سامشکل ہے؟
کیسی باتیں کرتے ہو بیٹے یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اسے پڑھانا ہی نہ آتا ہو؟
اگر ان کو پڑھانا نہ بھی آئے توکیا فرق پڑتاامتحان انہیں نہیں ہمیں دنیا ہے ۔ہم فیل ہوجائیں گے ان کا کیا بگڑے گا؟
جی ہاں یہ بھی درست ہے مگر کیا ضروری ہے کہ میں اسےپھر سے اسکول میں ملازمت پر رکھوانے میں کامیاب ہو جاوں؟
اس اسکول کے کرتا دھرتا تو آپ ہیں اس لئے کس کی مجال ہے کہ آپ کو روکے؟ اگر کسی نے اعتراض کیا تو آپ اس کو نکال دینا ۔
جی ہاں یہ اچھی ترکیب ہے لیکن اگر میں کامیاب بھی ہوگیا تو کیا ضروری ہے کہ وہ احسانمند نکلے ؟
سلیم بولا احسانمند نہ بھی ہو تو وہ جانے اور مرغوب میاں جانیں آپ کو کیا فرق پڑتا ہے؟
کیوں نہیں پڑتا ۔ تم لوگ تو دوچار دن تک کھانا لاوگے اور پھر بند کردوگے اس کے بعد میرا کیا ہوگا ۔ میرا معدہ گھر کا اچھا کھانا کھاتے کھاتے اس قدر کمزور ہوچکا ہے ہوٹل کے کھانے سے فوراً بگڑ جاتا ہے ۔ تم لوگوں نے آخر اپنی میڈم کو اکبر الہٰ بادی کے پاس بھیج کیوں دیا ؟
سلیم اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولا یہ دراصل شمیم کا کیا دھرا ہے۔ اس نے میڈم سے اکبر الہ ٰبادی کے شعر میں ڈاسن کا مطلب پوچھ لیا تو وہ اس مطلب پوچھنے کیلئے عدم آباد روانہ ہوگئیں۔
اوہو اتنی سی بات ؟ بڑے میاں بولے بے وقوف لڑکی مجھ سے پوچھ لیتی ۔
یہ سنتے ہی شمیم کی آنکھوں میں چمک آگئی وہ بولا اچھا آپ کو پتہ ہے تو آپ ہی بتا دیجئے۔ اس لئے کہ اب میڈم تو واپس آنے سے رہیں؟
بڑے میاں نے دیکھا یہ بلا ان کی جانب آرہی ہے تو بولے بے مطلب کے سوال نہ کیا کرو، یہ ڈاسن واسن کچھ نہیں ہے بس بے معنیٰ الفاظ ہیں ۔
سلیم نے استفسار کیا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اکبر الہٰ بادی جیسے بڑے شاعر بے معنیٰ الفاظ کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟
بڑے میاں بولے اچھا انہوں نے استعمال کیا ہے ؟ اگر ایسا ہے تووہ شعر سناو کہ جس میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے؟ شمیم نے فوراً شعر سنا دیا ۔
ڈاسن ؟ بڑے میاں سوچ میں پڑ گئے ۔
شمیم یہ دیکھ کر بولا اگر آپ کو بھی نہیں معلوم تو کوئی بات نہیں آپ اکبر الہٰ بادی سے ملنے کیلئے ملکِ عدم کا قصد نہ کریں ورنہ ہم لوگ ایک ساتھ دو صدماتنہیں برداشت کرسکیں گے۔
بڑے میاں بگڑ کر بولے چپ بے وقوف کچھ بھی بکتا ہے ۔ اتنی بھی عقل نہیںدھوبی کی دھوبن کی طرح ہے ڈاسن ۔ دیکھ ردیف قافیہ بھی درست ہے سلیم بولا جناب آپ نے سیاست کی ہے اگر دھوبی کی بیوی دھوبن ہوتی ہے تو موچی کی جوروموچن ہوئی نہ کہ ڈاسن ۔
یہ سن کر بڑے میاں مسکرائے اور بولےپروین شاکر نے درست ہی کہا ہے’’ بچے ہمارے دور کے ہوشیار ہوگئے‘‘۔
یہ پروین شاکر کون ہے؟ آپ کی دوسری بہو تو نہیں ؟
بڑے میاں بولے ارے نہیں اس کو تو میں اپنی بیٹی مانتا ہوں ۔
اچھا تو وہ کہاں رہتی ہیں؟ سلیم نے سوال کیا ۔
بڑے میاں ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولے ۔ وہ! وہ بھی ملک عدم جا چکی ہے ۔
شمیم بولا یہ کیا چکر ہے ؟ پہلے تو آپ کے دوست اکبر الہٰ بادی ۔ اور پھر آپ کی منہ بولی بہو اور اب منہ بولی بیٹی سب کے سب عدم آباد کوچ کرگئے۔
سلیم سرد آہ بھرکر بولا لگتا ہے آپ کو بھی جلد ہی۰۰۰۰۰۰۰ اور رک گیا ۔
بڑے میاں بولے بیٹے کیا میں اور کیا تم؟ ہم سب کو اپنے وقتِ مقرر پر جانا ہے اور یہ دیکھو گھنٹی بج رہی ہے۔ میرے جانے کا وقت ہوگیا ہے۔خدا حافظ۔ شمیم بولا لگتا ہے اب بڑے میاں اپنی بہو اور بیٹی کے پاس جاکر ہی دم لیں گے۔
بڑے میاں نے اپنے عقب میں وہ جملہ سنا لیکن مڑ کر نہیں دیکھا اس لئے کہ حقیقت وہی تھی جو شمیم کہہ رہا تھا ۔
سلیم نے گھر پر آکر اپنے ابو کو وہ شعر سنایا اور ڈاسن کا مطلب پوچھا
ابو بولے اس میں کون سی بڑی مشکل ہے ڈاسن کا مطلب ہے ناگن ہے ۔
شمیم بولا چاچو آپ ہمیں کیوں احمق بنا رہے ہیں ؟ ڈاسن کہاں اور ناگن کہاں ان دونوں میں کیا مشترک ہے بھلا؟
یکسانیت کیوں نہیں؟دراصل سانپ دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ عدم تشدد کی علمبردار بے ضرر ناگن کہلاتے ہیں اور ڈسنے والےدہشت گرد ڈاسن ۔
سلیم کےابو کی اس منطق کو سن کر پاس بیٹھی نانی مسکرانے لگیں ۔ سلیم سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے اس لئے ان کے پاس جاکر بولا کیوں نانی کہیں آپ کے داماد مجھے بے وقوف تو نہیں بنا رہے ہیں ؟
نانی بولیں تم تو اس کی برکت سے پہلے ہی اچھے خاصے بے وقوف ہو اس لئےتمہیں احمق بنانے کی کیا ضرورت ؟
شمیم کی سمجھ میں یہ منطق نہیں آئی وہ مسکرا کر بولا اب اس کا مطلب سمجھنے کیلئے چاچی کے پاس جانا پڑے گا ۔
سلیم کےابو بولے بیٹے ہر ساس اپنے لئے ایک نہایت بے وقوف قسم کا داماد تلاش کرتی ہے تاکہ بیٹی کی اس کی خوب خدمت گذاری ہو اس لئے تم بھی جب دلہن دیکھنے کیلئے جانا تو دوچار حماقت کردینا ۔ یہ اداکاری تمہارے کام آئے گی ۔
نانی ہنس کر بولی جی ہاں ایک بڑی حماقت کیلئے چھوٹی موٹی کئی حماقتیں کرنی ہی پڑتی ہیں۔
سلیم نے کہا نانی آپ نے مجھے بحث میں الجھا کر شعر والی بات ٹال دی۔ ہم لوگ کل ڈاسن کا مطلب جاننے کیلئے پریشان ہیں کوئی نہیں بتاتا۔
نانی مسکرا کر بولیں تو بھی بالکل اپنی امی کی مانند ضدی ہے خیر ڈاسن ایک جوتے بنانے والی مشہور کمپنی کا نام ہے جیسے کہ باٹا ہے۔
سلیم اور شمیم یک زبان ہوکر بولے باٹا کو تو سب جانتےہیں لیکن ڈاسن کا نام کبھی نہیں سنا ۔
نانی ہنس کر بولیں بیٹےڈاسن بھی تمہارے نانا کی طرح ملک عدم کو سدھار گئی۔
پھر عدم آباد؟ تو کیا انسانوں کی طرح کمپنی بھی ۰۰۰۰۰۰؟
جی ہاں بیٹے اس فانی انسان کی ہرتخلیق فنا کے گھاٹ اترجاتی ہے۔
شمیم نے سوال کیالیکن اگر وہ مشہور کمپنی تھی تو بڑے میاں اس کو کیوں نہیں جانتے؟
نانی بولیں یہ بھی کوئی سوال ہے اچھا یہ بتاو کہ جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ کا نام کیا ہے ؟
سلیم سمجھ گیا اب پھر نات کو گھمایا جاریا ہے اس لئے بول پڑالیکن اس سے ہمارے سوال کا کیا تعلق ہے ؟
وہ میں بعد میں بتاوں گی پہلے یہ تسلیم کرلو کہ نہیں جانتے ؟
چلئے مان لیا ۔ اچھامہاراشٹر کے وزیراعلیٰ کانام کیا ہے؟
سلیم خوش ہوکر بولادیویندر فردنویس ۔
اچھا وزیراعلیٰ تو دونوں ہیں لیکن ایک کا نامتم جانتے ہو دوسرے کا نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟
نانی آپ ہمیں الجھا رہی ہیں ۔
جی نہیں ، تم جہاں رہتے ہو وہاں فردنویس کا جوتا چلتا ہے اس لئے اس کا نام جانتے ہو داس کا جوتا نہیں چلتا اس لئے اس سے ناواقف ہو۔
شمیم نے سوال کیا تو کیا آپ کا مطلب ہے انسان جس کے جوتے کھاتا ہے اسی سے واقف ہوتا ہے ؟
سیاست کی حد تک یہ درست ہےچونکہ میرا بچپن الہ باد میں گزرا جہاں ڈاسن کا جوتا چلتا تھا اس لئے میں جانتی ہوں مگر بڑے میاں جو ممبئی میں رہتے تھے کیسے جان سکتے ہیں ؟
ٹھیک ہے سمجھ گیا لیکن اکبر الہ بادی کو کیا سوجھی کہ ڈاسن استعمال کردیا وہ باٹا بھی تو لکھ سکتے تھے۔ شعر کا وزن بھی برقرار رہتا اورعام فہم بھی ہوتا۔
شمیم بولا اور ہماری میڈم بھی عدم آباد نہیں جاتیں ۔
نانی بولی باٹا اس وقت موجود ہی نہیں تھی تو وہ اس کانام کیسے لکھتے۔
شمیم بولا یہ بھی درست اب میں اگر شاعری کروں گا تو باٹا بھی نہیں بلکہ نائیکی لکھوں گا۔
یہ نائی کی کیا ہے؟ نانی نے پوچھا
سلیم بولا آپ نہیں جانتیں؟ یہ نئے دور کا جوتا ہے امریکہ سے بن کر آتا ہے اور بہت جلد باٹا ، ٹاٹا اور بٹاٹا سب کو کھاجائیگا میرا مطلب ہے ختم کردے گا۔
نانی ہنس کر بولیں بیٹے باٹا اورٹاٹاکی حدتک تو ٹھیک ہے لیکن بٹاٹا انسانوں کی نہیں قدرت کی تخلیق ہے۔اس کا کچھ نہیں بگڑے گامگر نائی کی میں ایسی کیا بات ہے کہ وہ سارے بازار کو کھاجائیگا۔
سلیم بولانانی ایک نہیں کئی باتیں ہیں ۔ اول تو وہ امریکہ سے آتاجس کا آج کل جوتا تو کیا سکہ بھی چلتا ہے۔ دوسرے اسے ایک نائی نے بنا یا ہے ۔
نانی نے سوال کیا بیٹے نائی تو حجامت بناتے ہیں سر کی حجامت اور پیروں کے جوتے میں بھلا کیا مماثلت ہے؟
آپ نے خود ہی اپنے سوال جواب دے دیا ۔ یہ جوتا نہ صرف پیروں کی حفاظت کرتا ہے بلکہ سروں کی حجامت بھی کرتا ہے ۔
نانی نے سوال کیا لیکن بیٹے اس شعر میں تمہاری غیر معمولی دلچسپی کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ۔
شمیم بولا نانی اس شعر کا مطلب جو بھی بتائے گا اسے اسکول کی طرف سے نائی کی کا جوتا عیدی ملے گی۔
نانی بولی لیکن اب تو تم دونوں کو اس کا مطلب معلوم ہوگیا اس لئے انعام کسے ملے گا ؟
سلیم نےہنس کرکہااس میں کون سی بڑی بات ہے ۔ مشترک عیدی دونوں میں تقسیم ہوجائیگی ۔
نانی ہنس کر بولیں تو کیا داہنے پیر میں اسے سلیم اور بائیں میں شمیم پہنے گا؟
شمیم نے کہاجی نہیں نانی آپ بھی کتنی سیدھی ہیں ۔ ایک دن اسے میں اور دوسرے دن سلیم پہنے گا۔
نانی ہنس کر بولیں :
پاوں نہ باندھا جوتے کا تسمہ باندھا
آج کا بچہ کتنا سیانا لگتا ہے
سلیم نے جواب دیا :
نانی بتا کیا تیری بات میں جادو ہے
بچہ بچہ تیرا دوانا لگتا ہے
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451174 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.