کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو رمضان
المبارک کا نور بھرا،برکتوں بھرا مہینہ ملتا ہے اور اس سے زیادہ بڑی نعمت
مسلمانوں پر اور کیا ہو گی کہ اس ماہ ہر گھڑی ،ہر لمحہ اﷲ تعا لیٰ کی
رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور انسان رحمتوں کے خزانوں کو چنتے چنتے اپنے
پیارے رب کے قریب ہو جا تا ہے یہ مہینہ دنیا کی تمام امت ِ مسلمہ کیلئے
نوید مسرت ہے کیونکہ اس کی ابتداء اﷲ تعا لیٰ کی رحمت جبکہ اس کی تکمیل اﷲ
تعالیٰ کی طرف سے آگ سے آزادی کی صورت میں ہو تی ہے ۔یہ مہینہ ہمدردی،غم
خواری اور صبرکامہینہ ہے اور صبر کا بد لہ جنت ہے ۔ایک عالم دین نے فرمایا
رمضان کا مہینہ بونے کا مہینہ ہے اور باقی گیارہ مہینے کاٹنے کے ہیں۔
کامیابی کام سے ہوگی ،نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
فکر کے التزام سے ہوگی،ذکر کے اہتمام سے ہوگی
تزکیہ سے مراد زندگی کو سنوارنا ہے اسکے لفظی معنی پاک کرنا اور نشونما
دینا ہے مقصود یہ ہے کہ نفس کو غلط انداز فکر،فسق و فجور سے پاک کیا جائے
اورخشیت الٰہی اور تقویٰ کی بلندیوں تک پہنچا یا جا ئے ۔رسول پاک ؐ نے اس
سلسلہ میں صحا بہ کرام سے استفسار کیا ،ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیا
خیا ل ہے جس کا حال یہ ہو کہ اگر تم اس کا اعزاز واکرام کرو ،کھا نا کھلاؤ
،کپڑے پہناؤ اور وہ تمہیں بلاومصیبت میں ڈال دے ۔اور اگر تم اس کی تو ہین
کرو اور بھوکا ننگا رکھو تو تمہارے ساتھ بھلائی کا معا ملہ کرے ؟ صحابہ
کرام نے عرض کیا ،یا رسول اﷲ صلی اﷲ وعلیہ وسلم اس سے زیادہ برا ساتھی تو
دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا ۔آپؐ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں
میری جا ن ہے تمہا را نفس جو تمہارے پہلو میں ہے وہ ایسا ہی ساتھی ہے۔اسلام
میں تزکیہ نفس کر نے کی خاص ہدایت کی گئی ہے اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنے
نفس کاتزکیہ کرتے رہنے کا حکم دیا اور خواہشاتِ نفس کے خلاف جہاد کر نے کا
حکم دیا ۔
ارشاد نبویؐ ہے''مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے''،نبی اکرمﷺ کا
فرما ن ہے'' جو شخص ہم میں سے کوئی بدی دیکھے تو اس کو ہاتھ سے روکے اور
اگر اسکی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے اور اگر اسکی بھی قدرت نہ ہو تو
اسکو دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کاکمزو ترین درجہ ہے'' ۔اچھی طرح جان لو
کہ آدمی کا سب سے بڑا دشمن اس کا نفس ہے جو اس کے اندر گھسا بیٹھا ہے یہی
نفس اسے بر ائی اور گنا ہ کی طرف لے جا تاہے ۔اسی نفس کے تز کئے اور اسے
برا ہ راست پر کھنے کا کام آدمی کے سپرد ہواہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے
''فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو پا ک کر لیا اور نا مرادہوا جس نے اس
آلودہ کیا'' ۔دیکھو کسی وقت بھی اپنے نفس کو نصیحت اور ملامت کر نے سے غا
فل نہ رہو بلکہ دوسروں کو نصیحت تب کرو جب پہلے اپنے نفس کو کر لو ۔تم
ہمیشہ اس سے یوں کہتے رہا کرو '' اے نفس ! ذرا انصا ف کر ! تو سمجھتا ہے کہ
میں بڑا عقل مند ہوں مگر تیرے برابر بے وقوف کوئی نہ ہو گاکیا تو نہیں جا
نتا کہ جنت اور دوزخ تیر ے سامنے ہیں اور تو بہت جلد کسی ایک میں جا نے
والا ہے ۔پھر تجھے کیا ہوا ہے کہ ہر وقت ہنستا،کھیلتا اور دنیامیں مگن رہتا
ہے''۔کیا تو نہیں جا نتا کہ تیرے اوپر موت کا کٹھن وقت آنے والا ہے ،آج ہو
یا کل،جس موت کو تو دور سمجھتا ہے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ بہت قریب ہے ۔جس
چیز کو آنا ہی ہے وہ قریب ہے اے نفس تیرا نفاق اور جھو ٹے دعوے بڑے عجیب
ہیں ! ذرا دیکھ تیرا آقا دنیا کے بارے میں فرماتا ہے:''زمین میں چلنے
والاکوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اﷲ تعا لیٰ کے ذمہ نہ ہو ،،اور
آخرت کے بارے میں فرماتا ہے''اور یہ کہ انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے
کو شش کی۔یعنی ہم نے اپنے نفس کو برائی سے روکنا ہے اور نیکی کیلئے راغب
کرنا ہے ۔
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اﷲ علیہ کو اپنے نفس سے اس قدر مخالفت ہو گئی تھی
کہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر اﷲ تعالیٰ مجھے اگلے جہان میں فرمائے کہ
کوئی آرزو ہے تو بیان کرو،تو میں عرض کروں گا ۔ اے پیدااورپرورش کرنیوالے
ربّ مجھے اجا زت دیجئے تاکہ میں دورخ میں جاؤں اور اس نفس کوآگ میں ایک غو
طہ دے آؤں کیو نکہ اسکی وجہ سے مجھے دنیا میں بہت سے مصیبتیں اٹھانی پڑیں
۔نفس کے خلاف جہاد کی تر غیب پر بہت زور دیا گیا ہے حضرت مالکؒ سے روایت ہے
کہ اپنی نفسانی خواہشات کیخلا ف اس طرح جہا دکرو جس طرح تم اپنے دشمنوں کے
خلا ف جہا د کرتے ہو۔حدیث شریف میں ہے عقل مند کیلئے منا سب ہے کہ وہ چا ر
گھڑ یوں میں ایک گھڑی اپنے نفس کامحا سبہ کرتے ہوئے صرف کرے ۔جب بندہ اﷲ
تعالیٰ کی محبت میں اپنی نگاہوں کی حفا ظت کرتا ہے اور نفسانی خواہشات کو
سینے میں دفن کرتا ہے لیکن اپنے خالق اور مالک کی نافرمانی نہیں کرتا تو اس
عمل کی وجہ سے اس کے دل میں دراڑ پڑ جا تی ہے۔جب بندہ اﷲ تعالیٰ کی محبت
میں خواہشا ت کو دباتا ہے تو دل میں دراڑیں پڑتی چلی جا تی ہیں اور دل پاش
پاش ہو جا تا ہے ۔دل کا ٹوٹنا ہی اﷲ تعالیٰ کی محبت کے آنے کا ذریعہ ہے
لہٰذاء جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا دل اﷲ تعالیٰ کی محبت سے لبریز ہو جا
ئے تو اسے چا ہئے کہ وہ نفسانی خواہشات کیخلاف مزاحمت کرے۔
اﷲ تعالیٰ کی تلاش ناممکن نہیں اﷲ تعالیٰ تو ہمارے دلوں میں رہتا ہے مگر ہم
اس کومحسوس کرنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔
بلھے شاہ نے کیا خوب کہا ہے
رب رب کردے بڈھے ہو گئے ، مًلاں پنڈت سارے
رب دا کھو ج کھرا نہ لبھا ، سجدے کر کر ہارے
رب تے تیرے اندر وسدا ،وچ قر آن اشارے
بلھے شا ہ ، رب او ہنوں ملسی، جیہڑا اپنے نفس نوں مارے
تزکیہ نفس اور تہذ یب اخلاق کا سر چشمہ آپؐ کی ذات اقدس ہے۔ آپؐ نے اپنے
ارشادات میں ان عیوب سے بچنے کی بھی تاکیدفر مائی ہے جو نفس انسانی کو اپنا
کثیف کر دیتے ہیں کہ پھر مسلمان نہ تو دین کی پا بندی کر سکتا ہے اور نہ ہی
اسلامی معا شرہ کا ایک فردکہلا سکتا ہے ۔جب تک اپنے نفس کو ان عیوب سے پاک
صاف نہ کر لیا جائے ایک مسلمان کو دنیا و آخرت میں کامیابی نہیں مل سکتی۔''
اصل میں باطن کی اصلاح کا نا م ہی تزکیہ نفس ہے'' مختصر یہ کہ تزکیہ نفس وہ
حقیقت ہے جس کی وضا حت کیلئے سورۃ الشمس میں متعدد قسمیں کھا کر یہ حقیقت
واضح کی گئی ہے کہ جس نے نفس کا تز کیہ کر لیا وہ دونوں جہان میں کامیاب و
کامران ہو گیا ۔دعا ہے اﷲ تعالیٰ ہم سب سے راضی ہو جا ئے۔( آمین) |