کچھ عرصہ قبل ہم سنا کرتے تھے کہ سٹوپ پھٹ
گیا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ نوبیاہتا دلہن جل کر مر گئی، حالانکہ اسی جگہ اس دلہن
کا خدائے مجاز اور اس کی ساس بھی موجود تھی مگر انہیں کچھ نہیں ہوا کرتا
تھا ۔۔۔۔۔۔ اہل خانہ اپنی بہو کو خود قتل کر کے بے زبان سٹوپ کے متھے مار
دیتے تھے حالانکہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سٹوپ اہلیان کوہسار کو اس لئے مفت
دئے رتھے کہ درختوں اور جنگلات کی کٹائی نہ کریں مگر ذہین لوگوں نے اپنی
ناپسندیدہ بہو سے جان چھڑانے کیلئے سٹوپ کا ایک یہ استعمال بھی نکال لیا
تھا، کوہسار کی خواتین بڑی با ہمت اور روشن خیال ہیں، تعلیم نے ان میں
بردباری اور نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو سمجھنے کا سلیقہ بھی عطا کیا ہے
پھر بھی ان خواتین اور بچیوں میں خود کشی پر اگر کوئی زور دیتا ہے تو
۔۔۔۔۔۔ سٹوپ ہی پھٹ کر یا اپنے آپ کو آگ لگا کر ہی خود کشی کیوں ۔۔۔۔۔۔۔؟
گہرائی سے سمجھنے والی بات ہے کہ وہ آگ کو گلے لگا کر موت کو کیوں دعوت دے
گی جبکہ عہد قدیم سے آج تک کوہسار کی خواتین یا جذباتی بچیوں میں خود کشی
کی جتنی وارداتیں ہوئی ہیں اس کا ذمہ دار اسٹوپ کی طرح نشیب میں بہنے والا
ظالم دریائے جہلم بھی ہے ۔۔۔۔۔ سال رواں کے مئی کے پہلے ہفتے میں اپنے ظالم
سسر کے ہاتھوں ستائی ہوئی بیروٹ کے مفتی عتیق عباسی کی ہمشیرہ اور ایک بیٹی
سمیت تین بچوں کی ماں نے خود کو نیو کوہالہ پل سے اسی دریائے جہلم کے سپرد
کیا اور خود غم دوراں سے نجات پا گئی، اسی طرح ایک اندازے کے مطابق یہ
دریائے جہلم کم و بیش کوہسار کی پچاس سے زیادہ زندگی سے تنگ خواتین کو ہر
سال نگل رہا ہے ۔۔۔۔۔ ایسے میں بیروٹ خورد کی سمیعہ اور دیول کی ماریہ کے
سامنے خود سوزی کی دردناک موت کے بجائے دریائے جہلم کے ٹھنڈے ٹھار لہراتے
پانیوں میں کودنا زیادہ آسان تھا ۔۔۔۔۔ اس لئے جو لوگ سمیعہ اور ماریہ کی
موت کو خود کشی قرار دیتے ہیں پہلے وہ یہ زمینی حقائق بھی پیش نظر رکھیں کہ
۔۔۔۔۔ خود کشی کیلئے کوہسار کی خواتین کا سب سے آسان راستہ دریائے جہلم ہے
نہ کہ ۔۔۔۔۔۔ خود سوزی۔
مئی سے تواتر کے ساتھ کوہسار اور گلیات میں لڑکیوں کو جلانے اور بلندی سے
گرا کر ہلاک کئے جانے کے جو واقعات سامنے آئے ہیں اس سے ہر با ضمیر شخص ہل
کر رہ گیا ہے، گلیات کی وی سی مکول میں نویں جماعت کی طالبہ عمبرین کو
مقامی ظالم اور وحشی جرگہ کے جانور نما جرگوئیوں کے حکم پر جس بہیمانہ
طریقے سے تشدد کے بعد ایک گاڑی میں باند کر آتشیں شعلوں کے سپرد کیا گیا
۔۔۔۔۔۔ کہ آسمان کا کلیجہ بھی بنت حوا کی اس بے بس موت پر پھٹ گیا، اس کی
دلدوز چیخیں بھی ظالموں کا کچھ نہ بگاڑ سکیں اور اس نے آگ میں تڑپ تڑپ کر
موت کو گلے لگایا، آخر کار یہ خبر میڈیا کے پاس پہنچی اور قانون حرکت میں
آیا اور ملزمان کا کیس اب انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ہے، اس سانحہ میں
سب سے دل ہلانے والا واقعہ یہ ہے کہ عنبرین کی ماں نے سپنی بن کر اپنی
کھوکھ سے جنم لینے والی اس بچی کو درندوں کے حوالے کیا۔
مئی کے آخری ہفتے میں بیروٹ خورد کی ایک غریب خاندان کی کوزہ گلی گلیات میں
شادی شدہ لڑکی سمیعہ کو اس کی ساس نے رات کی تاریکی میں پھانسی دیدی اور یہ
بات مشہور کر دی کہ سمیعہ ٹی بی کی مریضہ تھی اور اس نے بیماری سے تنگ آ کر
مکان سے گر کر خود کشی کر لی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سمیعہ کی ساس
کا ایک بھائی ممبر ضلع کونسل ایبٹ آباد ہے اور وہ سمیعہ کی موت کو خود کشی
کا رنگ دینے میں پیش پیش ہے اور اس نے متوفیہ سمیعہ کے پوسٹ مارٹم رپورٹ
میں بھی رد و بدل کرایا ہے جبکہ متوفیہ کی والدہ اور دیگر رشتہ دار اس کی
از سر نو قبر کشائی کے بعد اس کے پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یکم جون کی دوپہر کو وہ منحوس لمحات تھے ۔۔۔۔۔ جب ۔۔۔۔۔۔ شمالی پنجاب کی کے
پی کے ساتھ ملحق صوبائی سرحد پر جنرل ریاض، ائر کموڈور خاقان عباسی، جنرل
انیس اور موجودہ وفاقی وزیر پٹرولئم شاہد خاقان عباسی کی الٹرا ماڈرن اور
ماڈل یونین کونسل دیول کی ایک سکول ٹیچر ماریہ صداقت عباسی کو آگ لگائے
گئی، اسے جلتے ہوئے جسم کے ساتھ بیس فٹ گہری کھائی میں پھینک کر قاتل فرار
ہو گئے، اس کی دلدوز چیخوں پر پڑوسی دوڑتے ہوئے آئے اور اس کے والدین کو
دوسرے گائوں سے بلایا، وہ اسے لیکر پاکستان کے سب سے بڑے ہسپتال پاکستان
انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائسز اسلام آباد لائے جہاں وہ دو دن زیر علاج رہنے کے
بعد زندگی کی بازی ہار گئی تا ہم اس نے فرشتہ اجل اپنے سامنے ہونے کے
باوجود اپنے نزعی بیان میں مقامی پرائیویٹ سکول کے مالک اور محکمہ تعلیم
پنجاب کے ریٹائرد ای ڈی او ماسٹر شوکت عباسی اور ایک مقامی سابق کونسلر
میاں ارشد سمیت پانچ افرااد کو اپنے قتل میں نامزد کیا جو اس وقت اڈیالہ
جیل میں پولیس ریمانڈ پر ہیں۔ ان کے لواحقین بھی اس قتل کو خود کشی کہہ رہے
ہیں جبکہ مقتولہ ماریہ صداقت عباسی کے والدین کا شروع سے ہی موقف ہے کہ
ملزم ماسٹر شوکت نے اپنے شادی شدہ بیٹے اور سکول کے ایڈمنسٹریٹر ہارون
عباسی کیلئے مقتولہ کا رشتہ مانگا جو ہم نے دینے سے انکار کر دیا تھا۔
وقوعہ کے بعد وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے خود نوٹس لیا اور ملزمان کو
فوری گرفتار کر کے انہیں تین دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، ملزمان
ایک ہفتے میں گرفتار ہو سکے لیکن رپورٹ تین ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک
نہیں پیش کی سکی ہے، اس دوران واقعے کے مرکزی ملزم ماسٹر شوکت، اس کے بیٹے
ہارون اور بہو شمائلہ نے اپنی جاری کردہ الگ الگ ویڈیو میں موقف احتیار کیا
کہ وہ بے گناہ ہیں، ہارون نے کہا کہ ماریہ نے اپنے ایک اس ایم ایس میں خود
کشی کی دھمکی بھی دی تھی جبکہ اس کی اہلیہ شمائلہ ماریہ کی کردار کشی میں
آخری حدیں بھی پھلانگ گئی، اب ماسٹر شوکت کی بے گناہی کا اس کے خسر ماسٹر
ظہراب اور کچھ ان کے دیگر قریبی رشتہ دار بھی رونا رو رہے ہیں اور معافی کی
بھیک مانگ رہے ہیں،
اس دوران ایک نیا پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ ملزموں کے عزیز اور رشتہ دار
مقتولہ ماریہ کے والدین پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ دیت لے کر ان کے ساتھ
صلح کر لیں، اس ضمن میں اسلام آباد اور پنجاب ہائیکورٹ کے فاضل وکلا کا
موقف ہے کہ عدالت کی جانب سے مجرم کے تعین سے پہلے دیت کا کوئی تصور نہیں
اور کئی ایک مقدمات میں مجرم کو پھانسی کا پھندہ لگنے کے بعد بھی مقتول کے
لواحقین نے زندگی کی بھیک دے کر جیون بخشا ہے لیکن اس کیلئے عدالتی ٹرائل
اور مجرم کا تعین ہونا ضروری ہے۔
اگر کوہسار کی روایات کو بھی دیکھا جائے تو ماضی قریب اور بعید میں ایسی
مثالیں ملتی ہیں کہ مقتول پارٹی نے قاتلوں کو زندگی کی بھیک دیکر ان کو
جیون بخشا ہے،عہد قدیم سے کسی بھی معاشرے کے قاتلوں کیلئے مختلف قسم اور
نوعیت کی سزائیں ہوا اسی تناظر میں اگر کوئی کوہ مری، گلیات یا سرکل بکوٹ
میں قتل جیسا جرم کر بیٹھتا تو اس کے لئے تین آپشن ہوا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اول ۔۔۔۔۔۔۔ قاتل کو مقتول پارٹی کے حوالے کر دیا جائے ۔۔۔۔۔ جرگہ اس کی
تقدیر کا فیصلہ کرتا ۔۔۔۔۔۔ یہاں بھی دو صورتیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔؟
الف ۔۔۔۔۔۔ فیصلہ کے بعد اس کے دونوں ہاتھ پائوں توڑ کر اور اس کے ساتھ اس
کا ہم وزن پتھر باندھ کر اونچی جگہ سے نیچے پھینکا جاتا یا اسے دریا میں
غرق کردیا جاتا یا آگ میں زندہ جلا دیا جاتا اور مرنے کے بعد بے گور و کفن
۔۔۔۔۔ ٹوئے (گڑھے) ۔۔۔۔۔ میں دبا دیا جاتا۔
ب ۔۔۔۔۔۔ اگر اسے مفید کاموں کے سلسلے میں زندہ رکھنا ہوتا تو اس کے گلے
میں ایک زرد گلو بند باندھ دیا جاتا ۔۔۔۔۔۔ اس گلو بند کو ۔۔۔۔۔ گلانوی
۔۔۔۔۔۔ کہتے تھے جو غلامی کا ہی ایک روپ تھا، اسے محلہ کے اعتبار سے ۔۔۔۔
پانڈی ۔۔۔۔۔۔ بھی کہتے تھے، اسے حق زندگی تو مل جاتا تھا مگر باقی حقوق ضبط
کر لئے جاتے تھے اور سب سے پہلے اسے خصی کر دیا جاتا تھا، اس کے فرائض یہ
تھے کہ وہ ۔۔۔۔۔ پانڈی ۔۔۔۔۔۔ کی حیثیت سے مقتول کے محلہ یا گائوں کے کسی
شخص کے سامنے کسی وقت بھی کوئی بھی کام کرنے سے انکار نہیں کر سکتا تھا، وہ
اہل گائوں کا جنم جنم کا غلام بن جاتا تھا اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک
یہ یہ ڈیوٹی نبھانا پڑتی تھی، اس کی سماجی حیثیت ۔۔۔۔۔ ہندو مت کے اچھوت
۔۔۔۔۔ شودر ۔۔۔۔۔۔ سے بھی بد تر تھی، اور اس کیلئے لفظ ۔۔۔۔۔ چنڈال ۔۔۔۔۔۔
بولا جاتا تھا، اسے اور کتے کو ایک ہی برتن ۔۔۔۔۔ جسے ٹٹھ ۔۔۔۔۔۔ کہا جاتا
تھا روٹی ڈالی جاتی تھی، اسے اجازت تھی کہ جہاں چاہے سو جائے مگر اسے
مویشیوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ کوہال ۔۔۔۔۔۔ میں سونا پڑتا تھا، اسے کسی عید یا
کسی کلچرل فیسٹیول میں شرکت کی اجازت ہر گز نہ تھی اور اگر اس کی خلاف ورزی
کرتا تو ۔۔۔۔۔۔ گائوں کی نمایاں جگہ پر اس کی دھنائی کی جاتی ۔۔۔۔۔ مرنے کی
صورت میں اسے کسی بھی کھیت کی ۔۔۔۔۔ کلیہا ۔۔۔۔۔ میں بے گور و کفن دبا دیا
جاتا تھا۔
دیت کی صورتیں بھی دو طرح کی تھیں، دیت کو کوہسار کی ڈھونڈی زبان میں اسے
۔۔۔۔۔ اوڑہ ۔۔۔۔۔۔ کہتے تھے، پہلی صورت میں اسے مقتول پارٹی کے حق میں اپنے
حق جائیداد سے دستبردار ہونا پڑتا تھا ۔۔۔ اس کی ماضی میں مختلف صورتیں رہی
ہیں، موہڑہ شریف کے پاس ایک ڈھوک ۔۔۔۔۔ اوڑہ کہلاتی ہے، یہ بھی قتل کی وجہ
سے ایک خاندان سے دوسرے خاندان کی ملکیت بنا تھا، اٹھارویں صدی میں یونین
کونسل بیروٹ کی ویلیج کونسل باسیاں میں بھی ایک قتل کے سلسلے میں اوڑہ
۔۔۔۔۔ کی صورت میں موجوالوں کو بکوٹ بے دخل کر دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔
دیت کی دوسری صورت ۔۔۔۔۔
پوہچھن ۔۔۔۔۔ ہوا کرتی تھی، اس میں مقتول پارٹی قاتل پارٹی سے ۔۔۔۔۔ ایک یا
ایک سے زیادہ رشتے لیتی تھی ۔۔۔۔۔ مگر رشتہ لے کر لی جانیوالی لڑکی کو وہ
تمام حقوق حاصل ہوتے تھے جو ۔۔۔۔۔ آج کی دلہن کو حاصل ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس
رشتہ داری کا سب سے پسندیدہ پہلو یہ تھا کہ دونوں پارٹیاں دل سے ایک دوسرے
کو معاف کر دیتی تھیں اور دونوں خاندان ۔۔۔۔۔ الفت کے ایک رشتہ میں منسلک
ہو جاتے تھے، مگر اس میں قاتل پارٹی کو ٹمن ۔۔۔۔۔ کی رسم میں بڑی آزمائش سے
گزرنا پڑتا تھا،بارات میں انہیں فی آدمی ایک بکرہ کھانا پڑتا تھا، انہیں
خالی پیٹ اندھیری راتوں کو کانٹوں سے بھرے ننگے پائوں ہوتر تروپی (ہوتر میں
دھان کی کاشت) کرنا پڑتی تھی۔۔۔۔ وغیرہ، اس پوہچھن کی رسم کی صورت میں
۔۔۔۔۔ قاتل پارٹی کو اپنی بیٹی کو جائیداد، مقتول پارٹی کی طرف سے طلب کردہ
جہیز اور دیگر گھریلو سامان بھی دینا پڑتا تھا، اور اس میں انکار کی کوئی
گنجائش نہیں تھی ۔۔۔۔۔ آج بھی ہزارہ اور کشمیرکے بعض مقامات پر ایسی صورتیں
نظر آتی ہیں مگر ۔۔۔۔ گلانوی ۔۔۔۔۔ کی رسم ختم ہو چکی ہے، اس عہد جاہلیت
میں ایک اور رسم بھی جاری تھی کہ جس لڑکی پر ذرا سا بھی شبہ ہو جاتا تو
۔۔۔۔۔ اسے دہکتے کوئلوں پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑتی تھی یا اس
کی ناک کاٹ اور سر مونڈھ کر عبرت کا نشانہ بنایا جاتا تھا مگر ۔۔۔۔۔ اس دور
کے جرگے اصل گنہگار مرد کو بخش دیتے تھے ۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔ اس بارے میں تاریخ
کوہسار خاموش ہے۔ |