تعلیمات ِ زندگی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور ہماری زندگی
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
داماد ِرسول ﷺ ، فاتح خیبر، حامل ِ
ذوالفقار، خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جن کانام
علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کنیت ابو الحسن، ابو تراب، القابات مرتضیٰ ، اسد اﷲ
، حیدر کرار اور شیر خدا ہیں، شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے، قرآن مجید کے
حافظ ہی نہیں بلکہ معانی و مطالب پر مکمل عبور، علم فقہ کے ماہر ، کمسنی
میں ایمان سے افروز ہونے والے صحابی محمد ﷺ جن کے بارے میں حضرت ام سلمہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: منافق علی رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ سے محبت نہیں رکھتا اور مومن علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بغض
نہیں رکھتا۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی ﷺ نے
ارشاد فرمایا حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دین کا ستون، حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فتوں کو بند کرنے والے، حضرت عثمان غنی رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ منافقوں کے لیے قید خانہ اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مجھ سے
ہیں اور میں ان سے ہوں جہاں میں ہو گا وہاں علی المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
ہوں گئے اور جہاں وہ وہاں میں، ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسکا دروازہ ہے۔ ۔۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ذات ِ پاک تمام صفات کا منبہ تھی تب ہی آپ کے ہر
فیصلہ ، ہر معرکے ، ہر میدان ، ہر مقام ، اور ہر منزل پر کی جانے والی حکمت
ہمارے لیے راہِ دانش ہے ۔۔۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اسلام لانے کا واقع
بھی بڑا خوبصورت ہے۔۔۔جب آپ ﷺ نے اسلام کا پیغام عام کیا تو تقریباََ سب ہی
مکہ والوں نے آپﷺ کی مخالفت کی ان ہی میں سے دس بارہ سال کی کمسنی کی عمر
میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کرتے وقت فرمایاجس کا مفہوم کچھ
یوں ہے کہ :"گو کہ میری ٹانگیں پتلی ہیں ، میں کمزور ہوں مگر میں آپ ﷺ پر
ایمان لاتا ہوں"، آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اس بیان کو سن کر سب ہی ہنس پڑے
مگر تقدیر نے ان کو دیکھایا کہ وہ علی جو کمزور بدن کے حامل تھے انھوں نے
خیبر کو کیسے ہاتھوں پر بلند کیا۔۔۔ جس طرف وہ تلوار چلتی تو پلک چپکتے ہی
کفاران کی گردنیں فضا میں بلند ہو چکی ہوتی تھیں۔ ادھر ایک اور ایمان افروز
واقع بیان کرتا جاؤں کہ ایک بار آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک کافر کو
مقابلہ کے وقت زیر کیا اور اس کے سینہ پر بیٹھ گئے اور اس کافر کو قتل کرنے
کے لیے اپنی تلوار نکالی کہ ناگاہ اس کافر نے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چہرہ
مبارک پر تھوک دیا اس کافر کی اس گستاخی کے سبب آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
نفس کو نا گواری ہوئی اور آ پ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تلوار کو میان میں کیا
اور اس کے سینہ سے علیحدہ ہو گئے اور اس کے قتل سے ہاتھ روک لیا۔ اس کافر
نے کہا اے امیر المومنین یہ کیا بات ہے میری تھوکنے والی گستاخی کے بعد تو
آپ کو فوراََ مجھے قتل کرنا چاہیے تھا اور آپ مجھ پر ہر طرح غالب تھے وہ
کون سی بات جو آپ کو قتل سے مانع ہوئی۔تو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے
ارشاد فرمایا کہ میں تجھ کو اے کافر! صرف خدا کی رضا جوئی کے لئے قتل کرنے
کا ارادہ کر رہا تھا کہ تو نے میرے چہرے پر تھوک کر میرے نفس کو غضبناک کر
دیا اب اگر میں تجھے قتل کرتا تو یہ فعل میرے نفس کے غضب اور غصہ سے ہوتا
اور اخلاص سے نہ ہوتا اور اﷲ تعالیٰ اخلاص کے بغیر کسی عمل کو قبول نہیں
کرتا مجھے منافی اخلاص معلو م ہوا اس لئے میں اس فعل سے باز رہا۔ حضرت علی
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس بات کو سن کر وہ کافر محو حیرت ہو گیا اور اس کے د
ل میں ایمان کی شمع روشن ہو گئی اور اس نے کہا اے امیر المومنین! میں ایسے
دین کو قبول کرنا اپنی سعادت سمجھتا ہوں جس میں اخلاص کی ایسی تعلیم دی
جاتی ہے اور بے شک یہ دین سچا ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا المیہ بن گیا ہے کہ کوئی کس صحابی رسول ﷺ کی شان میں
زبان تراشی کر رہا ہے اور کون کس صحابی ِ رسولﷺ کی۔۔۔خدارا اپنے آپ کو ٹھیک
کریں، ہم نماز میں کھڑے ہو تے ہیں تو ساری دنیا کے خیالات ہمارے ذہنوں میں
ہوتے ہیں، نماز ہی کیا ہمار ا کوئی بھی عمل ٹھیک نہیں اور ہم اُٹھ کھڑے
ہوتے ہیں ۔۔۔خدارا اپنے آپ کو ٹھیک کریں، لاکھ ولی بھی مل کر ایک صحابی
نہیں بن سکتے تو ہم کہاں۔۔۔؟؟؟ اصحاب رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں اگرچہ
کہ وہ کوئی بھی ہوں۔۔۔سب حق کے ولی ہیں ۔۔۔سب یارانِ نبی ﷺ ہیں۔۔۔سب
جانثارانِ نبی ہیں۔۔۔
|
|