کہتے ہیں کہ ایک ماں باپ کے ہاں دس بیٹے تھے جو ہر وقت
آپس میں لڑتےجھگڑتے رہتے تھے۔ان میں سے کچھ بہت طاقتور تھے اور کچھ کمزور
تھے۔کچھ بہت چالاک تھے اور کچھ بہت سیدھے سادھےاور بھولے بھالے تھے۔ کچھ
امیر تھے اور کچھ غریب تھے۔ اُن کی آپس کی لڑائی سے ماں باپ بہت دکھی اور
رنجیدہ خاطر رہتے تھے۔ آخر ایک دن ماں باپ نے سب کو اکٹھا کیا اور کہا کہ
پہلے ہمیں مار ڈالو اور پھر آپس میں لڑتے رہنا کیونکہ ہم سے تمہاری لڑائی
نہیں دیکھی جاتی۔ بیٹوں نے کہا کہ آپ دکھی نہ ہوں، خوش رہا کریں۔ ہم آئندہ
نہیں لڑیں گے۔ ماں باپ نے کہا کہ بس ہماری خوشی کی خاطر تم نے ایک دوسرے سے
نہیں لڑنا اور ہر چھوٹی موٹی تکلیف برداشت کرنی ہے۔ اللہ تعالٰی تمہیں ترقی
اور خوشحالی دے گا اور تمہاری ساری پریشانیاں دور ہو جائیں گی اور زندگی
امن و سکون سے گزرے گی۔ بیٹوں نے لڑائی ختم کر دی اور تھوڑے عرصے میں
خوشحال ہو گئے۔ پھر ماں باپ نےا نہیں بلایا اور کہا کہ اب تم سب ہمیں بہت
پیارے لگتے ہو۔ بس اپنے غصے اور غضب پر قابو پاوَ اور ایک دوسرے سے محبت
کرو اور ہماری دعائیں لو۔ بلکہ جو دوسرے کی خاطر قربانی دے گا اس سے اللہ
تعالٰی بھی خوش ہوگا اور ہم بھی خوش ہوں گے۔ ماں باپ نے کہا دیکھو نبی پاک
محمد صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں اس شخص کا نہ
بتاوں جس پر آگ حرام ہے۔ وہ ہے ہر قرب اختیار کرنے والا، دوسروں کو آسانی
دینے والا اور دوسروں سے نرمی کرنے والا۔ ایسے شخص پر دوزخ حرام ہے۔ والدین
نے پھر کہا:
اللہ تعالٰی نے انسان کو اپنی صفات پر بنایا ہے۔ چونکہ اللہ تعالٰی جلال
بھی رکھتا ہے اور جمال بھی، اس لئے انسان میں منفی صفات مثلا غصہ، غیض و
غضب،انتقام،ظلم و جبر، دھونس، دھاندلی، فخر، غرور اور تخریبی سوچ وغیرہ بھی
ہیں اور مثبت صفات مثلا پیار، محبت،رحم و کرم، خلوص، ہمدردی، صبر شکر،
قناعت، رواداری، عاجزی اور تعمیری سوچ بھی ہیں۔ لیکن کیونکہ اللہ تعالٰی نے
اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ وہ مخلوقات پر رحم کرے، اس لئے انسانوں کو بھی
اپنی منفی صفات ترک کر کے مثبت صفات اپنانی چاہییں۔سو انسانوں کو بھی ایک
دوسرے پر اور اپنے سے کمزور مخلوقات یعنی پرندوں اور جانوروں پر رحم اور
فضل کرنا چاہیے۔ اگر ہم میں نفرت، غصہ، غیض و غضب،انتقام،ظلم و جبر، دھونس،
دھاندلی، جھوٹ، فراڈ، فخر، غرور،چغلی غیبت، اور تخریبی سوچ ہو گی تو ہم ہر
وقت ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور دور رہیں گے۔ اسی طرح مذہبی فرقے واریت،
سیاسی دھڑے بندیاں، طبقاتی کشمکش، امیری غریبی، حکمرانی، غلامی، اعلٰی
ادنٰی، ذات پات اور پاک پلید کی جنگ جاری رہے گی اور فتنہ و فساد رہے گا۔
ماں باپ نے مزید کہا کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور تمام لوگ بنی نوع
انسان ہونے کی وجہ سے ایک ہی خاندان اور برابر ہیں۔ اس لئے ہمیں دوسروں کے
ساتھ بھی وہی سلوک کرنا چاہیے جو ہم اپنے ساتھ چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمارے
ساتھ ایسا سلوک کریں۔ کیونکہ نہ کوئی اعلٰی ہے نہ ادنٰی۔ نہ کوئی پاک ہے نہ
پلید، سوائے تقویٰ اور پرہیز گاری کے۔ انسان تقویٰ اور پرہیز گاری ، اچھے
ارادے اور اچھے کاموں سے اچھا بنتا ہے اور برے ارادے اور برے کاموں سے گندا
اور پلید بنتا ہے۔ امیری غریبی ڈھلتی چھاوَں ہے۔ اگر آج کوئی امیر ہے تو کل
وہ یا اس کی اولاد غریب بھی ہو سکتی ہے۔ اور اگر کوئی آج غریب ہے تو کل وہ
یا اس کی اولاد امیر بھی ہو سکتی ہے۔ دولت کوئی معیار نہیں۔معیار علم و عمل،
نیکی اور پرہیز گاری ہے۔ عقل و ذہانت کسی کی جاگیر نہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ
ایک پسماندہ قوم میں کوئی ایسی MOTIVATION آ جائے جو اسے غربت اور غلامی سے
نکال کر آزادی کی معراج پر لے جائے۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ایک ترقی یافتہ
قوم میں کوئی ایسی خرابی آ جائے جو اسے تباہی کی طرف لے جائے۔ اور یوں وہ
ساری قوم غلط روش پر چل کر تباہ و برباد ہو جائے ۔سوتم اچھے اخلاق سے
دوسروں کو اپنا بنا سکتے ہو اور بد اخلاقی کی وجہ سے لوگوں کو اپنا دشمن
بنا کر اپنے لیے تنہائی اور نفرت کا عذاب خرید کر سکتے ہو۔
گوتم بدھ نے سچ کہا تھا کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔ سو اپنے آپ کو دکھوں سے
بچانے کیلئے اور امن و سکون حاصل کرنے کیلئے اپنے آپ کو پورا پورا اور مکمل
طور پر مثبت بنانا پڑے گا۔ یعنی ہمیں اچھی سوچ، اچھی نیت، اچھا فعل، اچھی
صحبت، اچھی تعلیم، اچھا ماحول، اچھا نظام اختیار کرنا ہو گا، اچھائی کو
پسند کرنا ہو گا ۔ اس وقت ہم آدھے برے اور آدھے سچے ہیں۔ کیونکہ ہم میں اب
اچھی صفات بھی ہیں اور بری صفات بھی ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنی بری اور منفی
صفات کو ترک کر کے سارے ہی اچھے اور مثبت بن جائیں تو پھر آپس میں نہیں
لڑیں گے بلکہ پیار محبت سے رہیں گےاور زندگی جنت بن جائے گی۔ ترقی اور
خوشحالی ہو گی ۔ لہذا ہمیں چاہیےکہ ہم دوسروں کا احترام کریں، دوسروں کے
حقوق ادا کریں، دوسروں سے محبت کریں، دوسروں کے دکھ درد دور کریں اور ان
کیلئے آسانیا ں پیدا کریں۔ خوشیاں اور محبتیں بانٹیں۔ یہی انسانیت ہے اور
یہی تمام نبیوں ،رسولوں، اماموں،ولیوں،گرووَں، اوتاروں کا مشن ہے۔ یہی
عبادت ہے اور یہی نیکی بھلائی ہے۔ خدا بھی یہی چاہتا ہے کیونکہ اس سے خدا
خوش ہوتا ہے۔ چونکہ خدا انسان کے دل میں بیٹھا ہے، اس لئے انسان کا دل بھی
خوش ہوتا ہے۔ |