چلو بیٹا جلدی چلو ورنہ مارکیٹ میں کافی
بھیڑ جمع ہو جائے گی۔۔شاہد نے بیٹے کو کہا .آرام سے پہلے افطاری تو ٹھیک سے
کرلیں.نمازپڑھنے بھی تو جانا ہے ۔اسماء نے دبا دبا سا احتجاج بلند کیا.نہیں
اسماء افطار کے وقت بازار خالی ہوتےہیں۔ نماز کے لئے گئے تو رش پھر بڑھ
جائے گا آج اسدکو شاپنگ کرادیتا ہوں. اسد کو بائیک پر لے کر شاہد مارکیٹ کی
طرف روانہ ہوا ہی تھا کچھ فاصلے کے بعد ایک گھر کے دروازے پر بائیک بند
ہوگئ...افففف!!! اب اسے کیا ہوا؟ شاہد اسد کو اتار کر بائیک کی خرابی
ڈھونڈنے لگا.تبھی گھر کے اندر سےبرتنوں کا ایک ہلکا سا شور بلند ہوا....امی
کب تک کھانا ملے گا بہت زور کی بھوک لگ رہی ہے....بس بیٹا تھوڑی دیر ....یہ
کہنے کی دیر تھی کہ پھر سے ایسا لگا جیسے دیگچی پر ڈھکن زور سے رکھا گیا
ہواور ساتھ میں دبی دبی سسکیوں نے جیسے شاہد کواندر ہی اندر بے چین
کردیا.بائیک اسٹارٹ ہوگئ.بچے کافی دیر سے سے بھوکے ہیں شاید....شاہد نے ایک
نظر اپنے بیٹے کے خوشی سے تمتاتے ہوئے چہرے پر ڈالی..اسد بیٹا بابا کو ایک
ضروری کام کرنا ہے بازار ہم بعد میں جائیں گے.شاہد نے وہیں سے بائیک واپس
موڑکے اسد کو گھر چھوڑا اور سیدھا بازار پہنچا وہاں سے راشن اور کھانے کے
کچھ لوازمات لے کر واپس اس گھر پہنچ گیا۔دروازے پر ایک ہلکی سی دستک دے کر
وہ اوٹ میں ہوگیا سامنے راشن رکھادیکھ کر عورت نے چاروں طرف حیرت سے نظریں
دوڑائیں.یا میرے خدا! دستک تو یہی بتاتی ہے کہ یہ تیرے کسی نیک بندے کا کام
ہے..پھر کھانے کا سامان اٹھا کر رندھی ہوئی آوازمیں زور سے بولی گڈو.. منا
..ببلی بیٹا کھانا پک گیا ہے...چلو جلدی سے کھا لو..بھوکے نہیں سوتے. اس کے
ساتھ ہی بچوں کے صحن میں دوڑنے کی آواز نے شاہد کو ایک عجیب دلی کیفیت سے
دوچار کر دیا۔قریب ہی ایک مسجد سے اذان عشاء بلند ہو رہی تھی۔حی علی الفلاح....حی
علی الصلواہ
نماز بھی تو پڑھنی تھی. |