"عقیدہ شفاعت"اور علامہ سعد الدین تفتازانی
علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی 793 ھ لکھتے ہیں :
ہمارے نزدیک گناہ کبیرہ کے مرتبک کی شفاعت کرناجائز ہے کیونکہ دلائل سے
ثابت ہے کہ گناہ کبیرہ معاف ہو جاتے ہیں نیز تواتر سے منقول ہے کہ اہل
کبائر کی شفاعت ہوگی اور شفاعت کے عموم پر اس آی سے استدلال کیا جاتا ہے :
واستغفرلذنبک وللمومنین والمومنات (محمد :19) اور آپ اپنے بہ ظاہر خلاف
اولیٰ کاموں کی بخشش چاہیں اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کے
گناہوں کی معافی طلب کریں ۔
اور اصل شفاعت نص اور اجماع سے ثابت ہے اور معتزلہ کے نزدیک توبہ کے بعد
عذاب نہیں ہوتا ، اور کبیرہ سے اجتناب کے بعد کوئی صغیرہ نہیں رہتا پس
متعین ہو گیا کہ شفاعت کبائر کو ساقط کرنے کے لئے ہوتی ہے ، معتزلہ نے
شفاعت کی نفی پر اس قسم کی آیات سے استدلال کیا ہے :
لایقبل منھا شفاعۃ(البقرہ :48)
اس دن کسی نفس سے شفاعت قبول نہیں کی جائے گی ۔
وما للظلامین من حمیم ولاشفیع یطاع (المومن :18)
ان ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا نہ کوئی سفارشی جسکی بات مانی جائے ۔
وما للظلامن من انصار (آل عمران :192)
اور ظالموں کا کوئی دوست نہیں ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ان آیات میں کفار کی شفاعت کی نفی کی گئی ہے ، ثانیاً
اگر ان کو مرتکب کبیرہ کے لئے بھی فرض کیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ دنیا میں
ان کی شفاعت قبول نہ ہو اور آخرت میں قبول ہو ، اور محشر میں کئی احوال ہوں
گے ہوسکتا ہے جس وقت اللہ تعالیٰ جلال میں ہو اس وقت ان کی شفاعت قبول نہ
ہو اور بعد میں قبول ہو جائے ۔
ولایشفعون الالمن ارتضیٰ(الانبیاء :28)
وہ صرف ان کی شفاعت کریں گے جن سے اللہ راضی ہے
اور اللہ گناہ کبیرہ کرنے والے سے راضی نہیں ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس
کے بھی ایمان اور کلمہ سے اللہ تعالیٰ راضی ہے ۔
مرتکب کبیرہ کے لئے شفاعت نہ ہونے پر دوسری دلیل یہ ہے :
فاغفرللذین تابوا (المومن :7)
ان کے لئے بخشش کی دعا کیجیے جنہوں نے توبہ کی ہے ۔
اور جو فاسق بغیر توبہ کے مرگیا ، اس آیت میں اس کے لئے شفاعت کی نفی کی ہے
۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ان کے لئے شفاعت کیجیے جنہوں
نے شرک اور کفر سے توبہ کی ہے اور اس آیت میں گناہ کبیرہ سے توبہ مراد نہیں
ہے ، کیونکہ دوسری آیات سے ان کے لئے شفاعت ثابت ہے ۔
معتزلہ کے نزدیک شفاعت کے ثبوت کی جو آیات ہیں وہ اطاعت کرنے والوں اور
توبہ کرنے والوں کے درجات بلند کرنے کے ساتھ مخصوص ہیں اور ہمارے نزدیک
گناہ کبیرہ کے مرتکبین کے گناہ ساقط کرنے کے لئے شفاعت کرنا جائز ہے ۔ خواہ
یہ شفاعت میدان محشر میں ہو یا دوزخ میں دخول کے بعد ہو ، کیونکہ مشہور
بلکہ متواتر ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرتکبین کبیرہ کی شفاعت
فرمائیں گے ۔
حضرت انس کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری
شفاعت میری امت کے اہل کبائر (کبیرہ گناہ کرنے والوں) کے لئے ہوگی ۔
امام ترمذی نے کہا اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث 2435، سنن ابودائود ، رقم الحدیث :4739، مسند البز
اور رقم ، الحدیث 3469 مسند ابویعلی رقم الحدیث :3884 صحیح ابن حبان رقم
الحدیث 6484 المعجم الاوسط رقم الحدیث :8513 المسترک ج ١ ص 69، مسند حمد ج
٣ ص 213)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے اہل کبائر کے لئے ہے
(اس حدیث کے راوی) محمد بن علی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت جابر نے کہا
اے محمد ! جو شخص اہل کبائر سے نہ ہو اس کا شفاعت سے کیا تعلق ہے ۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث :2436، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4310، مسند
ابودائود الطیالسی رقم الحدیث :1669، الشریعتہ للآجری ص 338، حلیتہ
الاولیاء ج ٣ ص 200)
اور توبہ کے بعد عذاب کو ترک کر دینا معتزلہ کے نزدیک واجب ہے ، پھر جن
آیات میں شفاعت کا ذکر کای ہے ان اک کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوگا ، کیوکہ
درجات کی بلندی کوئی خاص فائدہ نہیں ہے اور صغائر ویسے ہی معاف ہو جاتے ہیں
اس لئے شفاعت کی آیات کو کبائر کی معافی پر محمول کرنا ہی لائق ہے ۔
گناہ کبیرہ اس معصیت کو کہتے ہیں جو دین کے ساتھ بے پرواہی برتنے کی خبر
دیتی ہے ۔
ایک قول یہ ہے کہ جس معصیت پر شارع نے خصوصیت کے ساتھ وعید سنائی ہو وہ
گناہ کبیرہ ہے ،
دوسرا قول یہ ہے کہ شرک ، قتل ناحق ، پاک دامن کو تہمت لگانا ، زانا ،
میدان جہاد سے بھاگنا ، جادو کرنا ، یتیم کا مال کھانا ، ماں باپ کی
نافرمانی کرنا ، حرم میں کوئی گناہ کرنا ، سود کھانا ، چوری کرنا اور شراب
پینا یہ تمام کام گناہ کبیرہ ہیں ۔ (شرح المقاصد ج ٥ ص 157-161 ملحضاً و
موضحاً مطبوعہ منشورات الشریف قم ایران 1409 ھ) |